’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
پچھلے دنوں ایک بڑی زبردست کتاب پڑھنے کو ملی،کیا محاورہ ہے، کیا زبان ہے اور کیا انداز بیاں ہے۔ بس پڑھتے چلے جائیے، نہایت سادہ اور سلیس زبان۔ کہنے کو تو یہ خود نوشت ہے لیکن یہ ایک تاریخ ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات بھی ہیں۔ مصنف بچپن سے بڑھاپے تک بڑے بڑے لوگوں سے ملے، ان کی صحبتیں نرالی تھیں، بڑے بڑے علمائے کرام، مشاہیر ادب اور رؤسا سے ان کا تعلق رہا، جس کی تفصیل کتاب میں درج ہے۔
یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اس کے مصنف ہیں اخلاق احمد دہلوی، جن کا ایک خاکہ اے حمید نے اپنے کالموں کے مجموعے ’’سنگ دوست‘‘ میں لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ آج قارئین کا تعارف اخلاق احمد دہلوی کی خود نوشت ’’یادوں کا سفر‘‘ سے ہوگا۔ اس کتاب کی خوبی اس کی زبان ہے، نہایت سادہ اور دلچسپ، اخلاق صاحب نے بڑے بڑے نامور ادیبوں، شاعروں اور مختلف شخصیات کے ساتھ پرورش پائی ہے۔
اس میں دلّی کی ’’ ٹکسالی زبان‘‘ نظر آتی ہے۔ ویسے بھی دلّی کی زبان سادہ اور دلکش ہے جب کہ لکھنؤ کی مشکل۔ خواجہ حسن نظامی کی تمام تصنیفات میں بھی یہی ٹکسالی زبان نظر آتی ہے۔ دلّی کا محاورہ ہی الگ ہے، زبان کے معاملے میں دلّی والے بڑے حساس ہوتے ہیں، جہاں کسی نے غلط الفاظ استعمال کیے انھوں نے خبر لی۔ لیکن اب تو خالص دلّی والوں کے بچے جو زبان بولتے ہیں انھیں سن کر یقین ہی نہیں آتا کہ ان کے والدین اور دادا، دادی کا تعلق دہلی سے ہے۔ جن لوگوں کو لکھنے کا شوق ہے انھیں ’’ یادوں کا سفر‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایسے ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
’’میری دادی نے مجھ سے کہا کہ دیکھو بھئی! غریبوں کی مدد کیسے کی جاتی ہے اور تمہارے باوا میری ناک میں دم کیے جاتے ہیں کہ آپ ہر سودے والے کو بلا کرکیوں بے کار کے سودے خریدتی رہتی ہیں، میری دادی کا یہ حال تھا کہ جہاں کوئی سودے والا بولا، انھوں نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا اور جتنے پیسے اس نے کسی چیز کے بتائے اس سے یہ بحث شروع کر دی کہ’’بھئی! غضب کرتے ہو، اب یہ جو انگوٹھی تم ٹکے ٹکے بیچتے پھر رہے ہو، چاہے پیتل کی ہی کیوں نہ ہو مگر اس کی بنوائی گھڑوائی اور اس میں جڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، پھر اس میں الٹا سیدھا نگ بھی ہے اور پھر ان انگوٹھیوں کو ڈورے میں لگا کر تم دھوپ میں گلی گلی آواز لگا کر مارے مارے پھرتے ہو تو، کم سے کم ایک آنہ تو لگاؤ ان انگوٹھیوں کا ، ٹکے ٹکے میں بھلا تمہیں کیا ملے گا؟‘‘
اسی طرح ہر سودے والے سے بحث کرتیں اور جو دام وہ بتاتا اس سے دگنے دام میں وہ چیز خرید لیتیں، اس طرح وہ سودے خریدتیں اور محلے والوں میں بانٹ دیتیں۔ ان باتوں سے جب میرے والد چڑتے تو کہتیں ’’ اگر تمہارے والد کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں نہ کھڑی ہوتیں اور تمہیں روٹی کمانے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی تو پتا چلتا کہ بیسی کے ساٹھ ہوتے ہیں، خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہیں خدا نے روٹی کمانے سے مجبور نہیں کیا، تمہیں پکی پکائی مل جاتی ہے، اس لیے تم سمجھتے ہو کہ سب کو من و سلویٰ مل جاتا ہے۔ دیکھو کتنے بوڑھے لوگ، کتنا وزن اٹھائے پھرتے ہیں اپنی کمر پر۔ تب جا کے کہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ روکھی سوکھی روٹی سے بھرتے ہیں۔‘‘
’’ہمارے والد بتاتے تھے کہ ایک دن جب سارے مشاہیر بیٹھے تھے، ان بیگم صاحبہ (بہادر شاہ ظفر کی پوتی) کی باتیں سن رہے تھے تو ان بیگم صاحبہ نے حکیم اجمل خاں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’حکیم صاحب! ماشا اللہ آج کل تو آپ کی طوطی بول رہی ہے۔‘‘ اس پر حکیم صاحب بولے ’’بیگم صاحبہ! آپ جو کچھ فرمائیں بجا ہے لیکن طوطی مذکر ہے، داغ کہتے ہیں:
خوب طوطی بولتا ہے آج کل صیاد کا
اس پر حکیم صاحب نے کہا ’’ حکیم صاحب! داغ آپ کے لیے سند ہوگا، میرے لیے تو وہ لونڈی بچہ تھا، میرے دادا بہادر شاہ ظفر یا استاد ذوق کا کوئی شعر سنائیے، تو سند کے طور پر میں مانوں۔‘‘
’’خواجہ حسن نظامی ایک دن ہمارے ہاں دستر خوان پہ بیٹھے تھے، کھانے میں دہی بھی تھا، خواجہ صاحب بولے ’’ دہی کھٹی ہے‘‘ ان کی بیگم صاحبہ نے کہا ، خواجہ صاحب! یہ فصیل سے باہر کی زبان ہے اسے نظام الدین (بستی نظام الدین) میں جا کر بولیے گا، یہاں میرا بچہ آپ کے پاس بیٹھا ہے، اس کی زبان تو نہ بگاڑیے، دہی کھٹا ہوتا ہے،کھٹی نہیں۔‘‘
’’ یہ جو آج کل ہر بچہ ہر بڑے سے بڑھ بڑھ کر ہاتھ ملاتا ہے اور خود بچوں کے والدین یا بڑے بچوں سے کہتے ہیں انکل سے ہاتھ ملاؤ۔ شیک ہینڈ۔ یہ بات پہلے کبھی نہ تھی، دستور یہ تھا کہ بچوں کو صرف یہ سکھایا جاتا تھا کہ بڑوں کو سلام کرو، خواہ وہ جواب دیں یا نہ دیں، ہاتھ بڑے بھی کم ہی ملاتے تھے اور لوگ بغل گیر صرف عید بقر عید پر ہوتے تھے۔
یہ نہیں کہ آپ لاہور سے چند گھنٹوں کے لیے چھانگا مانگا ہو کر آئیں تو ہر ایک سے گلے ملنے کا حق آپ کو حاصل ہو جائے، بچے بچے کا سلام کا جواب دینے میں (جیتے رہو، پھلو پھولو) صرف تین بزرگ تھے۔ مولانا شوکت علی، خواجہ حسن نظامی اور مولانا حسرت موہانی۔ حکیم اجمل خاں کے پوتے حکیم محمد جمال سویدا زیادہ تر امراض کا علاج مرکبات کے بجائے مفردات سے کرتے تھے۔ اگر اس درد کے سامنے کسی قیمتی غذا کی ضرورت ہوتی جیسے پھل یا مرغی کا شوربہ وغیرہ جو ان غریبوں کی حیثیت سے زیادہ ہوتا، تو دس دس یا پانچ پانچ روپے بھی مریضوں میں تقسیم کرتے۔
ایک دفعہ ایک بھنگی نے ڈیوڑھی میں حکیم صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، ’’حکیم صاحب! پیٹ میں آگ سی لگ رہی ہے، نہ بھوک ہے نہ پیاس۔‘‘ حکیم صاحب بولے: ’’کتے کا گوشت کھاؤ۔‘‘ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا علاج ہوا؟ لیکن حکیم صاحب کا حکم تھا، اس لیے کتے کا گوشت اس بھنگی کو کھلایا، اس گوشت کے کھاتے ہی اسے قے ہوئی اور قے میں گوشت کے ساتھ چمٹی ہوئی چچڑیاں نکلیں جو شاید وہ پانی کے ساتھ پی گیا تھا اور وہ چچڑیاں پیٹ میں جا کر انتڑیوں میں چپک گئی تھیں اور جیسے ہی کتے کا گوشت اس بھنگی کے پیٹ میں پہنچا اور وہ اس مریض کی انتڑیوں کو چھوڑ کر اپنی محبوب غذا کتے کے گوشت پر لپکیں۔‘‘
ایک دفعہ ایک جولاہا پیٹ کے درد کی شکایت لے کر آیا تو حکیم محمد احمد خاں نے اسے چنے کھلانے کو کہا اور جیسے ہی اس مریض نے چنے کھائے اس کے پیٹ کا درد جاتا رہا۔ مصاحبوں نے پوچھا، پیٹ کے درد میں چنے؟
حکیم صاحب نے کہا، ’’ یہ جولاہا ہے، ان لوگوں میں شادی بیاہ میں شکرانہ ہوتا ہے، شکرانہ چاولوں کا خشکا ہوتا ہے جس پر لوٹے کی ٹونٹی سے گھی ڈالا جاتا ہے اور پھر بھر بھر پیالے شکر اور گھی اور شکر ان ابلے ہوئے چاولوں پر اس وقت ڈالا جاتا ہے جب مہمان دونوں ہاتھوں سے بس بس نہ کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے بتایا یہ جولاہا کہیں سے شکرانہ کھا کر آیا تھا، یہ گھی اس کی آنتوں میں بیٹھ گیا تھا، چنوں نے جا کر وہ گھی جذب کر لیا اور پیٹ کا درد جاتا رہا۔
یہ سارے بلّی ماروں کے حکیم طبیب سے زیادہ قیافہ شناس تھے، صرف مریض کی نبض ہی نہیں دیکھتے تھے، اس کی حیثیت اور شخصیت بھی دیکھتے تھے۔ دلی کے ہر کوچے میں طبیب، شاعر اور ادیب پائے جاتے تھے، یہ جو کوچۂ چیلاں ہے جہاں ہم رہتے تھے دراصل ’’ کوچۂ چہل امیراں‘‘ کا مخفف ہے۔ یہاں امیروں، ادیبوں اور ہنرمندوں کے چالیس گھر تھے، ہر طرح کا بندہ یہاں پایا جاتا تھا، لیکن پوری دلّی ہی فنکاروں، طبیبوں، شاعروں اور ادیبوں سے بھری پڑی تھی، میر صاحب نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ:
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیگم صاحبہ حکیم صاحب کی زبان بڑے بڑے ہے اور تھا کہ
پڑھیں:
بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات، صوبائی وزرا اور اعلیٰ حکام کا ننکانہ صاحب کا دورہ
سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات 3 نومبر سے شروع ہوں گی، اس سلسلے میں صوبائی وزرا نے افسران کے ہمراہ ننکانہ صاحب کا دورہ کیا، اور انتظامات کا جائزہ لیا۔
اس موقع پر اجلاس کی صدارت چیئرمین کابینہ کمیٹی برائے امن و امان خواجہ سلمان رفیق اور وزیرِ اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے کی، جبکہ کمشنر لاہور ڈویژن مریم خان اور آر پی او شیخوپورہ اطہر اسماعیل بھی وفد کے ساتھ موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: گرو نانک کے 555 ویں جنم دن کے موقع پر یادگاری سکہ جاری
اجلاس میں انتظامی افسران، امن کمیٹی ممبران اور سکھ رہنماؤں نے شرکت کی۔ ڈپٹی کمشنر ننکانہ صاحب محمد تسلیم اختر راؤ اور ڈی پی او فراز احمد نے انتظامات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات 3 سے 6 نومبر تک جاری رہیں گی اور تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
بریفنگ کے مطابق 5 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے، شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے اور تین کنٹرول رومز قائم کیے گئے ہیں، جبکہ صفائی ستھرائی، کھانے اور رہائش کے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ گوردواروں میں ہسپتال اور فسیلیٹیشن ڈیسک بھی قائم ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق موک ایکسرسائز بھی مکمل کر لی گئی ہے اور ننکانہ شہر کو گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ رکھا جائے گا، جبکہ افسران کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ گوردوارہ جات کو عرقِ گلاب سے دھویا جا رہا ہے۔
تقریبات کا آغاز اکھنڈ پاٹ سے ہوگا جبکہ 5 نومبر کو مرکزی تقریب گوردوارہ جنم استھان میں ہوگی اور نگر کیرتن کا جلوس بھی نکالا جائے گا۔
سردار رمیش سنگھ اروڑہ کے مطابق بھارت سے 2100 سکھ یاتری واہگہ بارڈر کے ذریعے شرکت کے لیے آئیں گے جبکہ مجموعی طور پر 30 ہزار یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ یاتریوں کو مقررہ نرخوں پر اشیا کی فراہمی، ٹریفک پلان اور فسیلیٹیشن کاؤنٹرز میں اضافہ یقینی بنایا جائے۔
خواجہ سلمان رفیق نے کہاکہ وزیراعلیٰ پنجاب اقلیتوں کے تمام ایونٹس میں ذاتی دلچسپی رکھتی ہیں اور جنم دن کی تقریبات کے انتظامات انہی کی ہدایت پر دیکھے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی سکھ یاتری حکومت پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے کہاکہ بابا گورو نانک دیو جی کا ہر مذہب احترام کرتا ہے اور ننکانہ صاحب آکر سکھ برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ یاتریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے، اہلکار خوش اخلاقی سے فرائض انجام دیں اور لاہور و فیصل آباد کے ہسپتالوں میں سکھ یاتریوں کے لیے خصوصی وارڈز قائم کیے جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بابا گرونانک جنم دن تقریبات صوبائی وزرا ننکانہ صاحب کا دورہ وی نیوز