Express News:
2025-06-14@13:19:55 GMT

مایوس کن بجٹ

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ مایوس کن ہے۔ وفاقی بجٹ میں نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ بجٹ میں شامل نہیں ہے اور اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ(EOBI) کی پنشن میں اضافے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔

وفاقی وزراء، اراکینِ پارلیمنٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد اضافے کے مقابلے میں سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ وزیر خزانہ سے جب پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا کہ بجٹ میں نجی شعبے کے کارکنوں کی کم سے کم تنخواہ کا معاملہ شامل نہیں ہے تو موصوف نے کہا کہ نجی شعبہ حکومت کے کم سے کم تنخواہ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، یوں غریب کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک اور مثال سامنے آگئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مصارف زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت نے اس بجٹ میں پٹرولیم کی مصنوعات پر فی لیٹرکاربن لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی منڈی میں ڈیزل، فرنس آئل اور پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، تاہم بجٹ کی دستاویزات کے عمومی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیزل ، فرنس آئل، پٹرول پر 2.

50 روپے لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت بتدریج پٹرولیم پر عائد لیوی کو 100 روپے تک لے جائے گی، اگر عالمی منڈی میں پٹرول و ڈیزل کی قیمت مزید بڑھ گئی تو ہمارے ملک میں پٹرول کی قیمتیں نہ جانے کہاں تک پہنچیں گی، اس کا حتمی تعین تواعداد و شمار کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سرچارج لگانے کا تذکرہ کیا تھا ۔ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو قابو میں لانے کے لیے سرچارج عائد کرنے کے لیے نیپرا کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم سے حکومت کو ڈی ڈی ایس پی کے تحت سرچارج عائد کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر ان اقدامات کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے، مگر بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت اس سال کسی نہ کسی طرح عمل کرے گی۔

بجٹ سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت کے پاس اضافی 9 ارب روپے جمع ہونگے۔ یہ رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حکومت نے مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لیے ایک اور فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 22 لاکھ سے زائد آمدنی والے افراد جو زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔ اب سالانہ 2 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیں گے۔ اسی طرح حکومت نے کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے علاوہ ڈبل روٹی اور مکھن حتیٰ کہ انڈوں پر جی ایس ٹی کی شرح برقرار رکھی ہے۔

ان فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کے دعوؤں کے باوجود مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر عائد سرچارج کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھیں گے۔ جب ٹرانسپورٹ مثلاً بسوں، ٹرالر اور ٹینکروں کو مہنگا فیول ملے گا تو پھر اس کی قیمت سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نتیجے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس وقت عام آدمی جن میں سرکار ی ملازمین بھی شامل ہیں کی آمدنی کا بیشتر حصہ مکان کے کرایوں، بچوں اور خاندان کے افراد کی صحت اور تعلیم کے مصارف، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔

گزشتہ پانچ برسوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہزارگنا اضافہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں نچلے متوسط طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے خاندانوں کی بجلی اورگیس کے بلوں کی رقم مکان کے کرائے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس وقت عام آدمی کے لیے ایک مسئلہ پرائیوٹ اسپتالوں کے اخراجات کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی ہے۔ اس وقت تمام امراض کی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عام آدمی مناسب وقت پر مناسب مقدار میں دوائیں لینے سے محروم ہوگیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان کے نتیجے میں فارما سوٹیکل کمپنیوں پر نیا بوجھ آئے گا، یہ صنعت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔

بھارت سے ادویات کی تیاری کے خام مال کی درآمد کرنے پر پابندی کی بناء پر ادویات پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے۔ اب اس صورتحال میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یہ معمولی اضافہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ جب سے حکومت نے آئی ایم ایف کے مطابق اصلاحات کے لیے اپنی پالیسی کو سخت کیا ہے تو سارا نزلہ سول سرکاری ملازمین کی پنشن پر گررہا ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پنشن کی مراعات کم کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ شریکِ حیات کے انتقال کے بعد مکمل پنشن کی مدت 10 سال کردی گئی ہے۔ اب تک سرکاری پنشن کے قواعد و ضوابط کے تحت شریکِ حیات کے انتقال کی صورت میں بیوہ یا سرکاری ملازمہ کے شوہر کو تاحیات پنشن ملتی ہے، اگر پنشن پانے والے شخص کا انتقال ہوجائے تو ان کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کو یہ پنشن منتقل ہوجاتی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ پنشن کے ان معاملات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوتی ہے، یوں اربوں روپے غیر شفاف انداز میں استعمال ہوتے ہیں مگر حکومت نے پنشن کے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے پنشن کی مراعات میں کمی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ غریب سرکاری ملازمین کے لیے مایوس کن ہے۔ بیشتر سرکاری ملازمین اگر ایمانداری سے زندگی گزارتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ ایک بیوہ کی عمر کم ہو تو طویل زندگی کے لیے اس کے پاس پنشن کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس کوئی متبادل ذرایع آمدنی نہ ہو تو اس کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پنشن کے معاملات مکمل طور پر شفاف ہونے چاہئیں۔

اس طرح کم از کم بیوہ کو تاحیات پنشن ملنی چاہیے۔ حکومت اس طرح کا طریقہ کار وضع کرے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس آمدنی کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے تو پھر تو اس کو پنشن نہیں ملنی چاہیے، تاہم اگر اس کا گزارہ باپ کے گھر پر ہو رہا ہے تو پھر اسے پنشن ملنی چاہیے۔ اسی طرح غیر سرکاری شعبے کے ملازمین کے لیے ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ نہ ہونا بھی مایوس کن ہے۔

روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے رواں مالیاتی سال کے دوران پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنے اخراجات کے لیے 345ارب روپے کی اضافی رقوم حاصل کی ہیں، اب حکومت نے قومی اسمبلی سے اس رقم کی منظوری طلب کی ہے اگرچہ حکومت نے اخراجات پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا مگر اتنی بڑی رقم کا خرچ ہونا معاشی نظم و ضبط پر ایک سوال ہے، حکومت جب اپنے اخراجات کے لیے یہ رقم قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر حاصل کرسکتی ہے، تو غریب لوگوں کی بہبود کے معاملے کوکیوں معاشی نظم و نسق کی آڑ لے کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لیا ہے، وزیر اعظم صاحب کو غریب سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اسلام آباد کے فیصلہ ساز ادارے کے ماہرین کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان میں شہریوں کو سماجی تحفظ دینے کے لیے ریاست کا کردار مایوس کن ہے۔ اس لیے پنشن کے قوانین میں تبدیلی سے منفی نتائج برآمد ہونگے۔ 
 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ریٹائرڈ ملازمین سرکاری ملازمین کی کی تنخواہوں میں فیصلہ کیا ہے کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی پنشن میں مایوس کن ہے ملازمین کے میں اضافے کی قیمتیں میں اضافہ ادویات کی حکومت نے کے علاوہ کرنے کا ہوتا ہے پنشن کے کے پاس گیا ہے کے لیے گئی ہے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا بجٹ کا 66 فیصد حکومتی امور اور سرکاری ملازمین پر خرچ ہو گا، عوام کے لیے کیا ریلیف ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 157 ارب روپے کا سرپلس بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا کل تخمینہ 2 ہزار119 ارب روپے کا لگایا گیا ہے، جس میں سے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 547 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صوبہ سندھ کے بجٹ سال 2025-26 میں عوام کے لیے خاص کیا ہے؟

وزیر خزانہ و قانون افتاب عالم نے بجٹ اسمبلی میں پیش کیا اور بتایا کہ صوبائی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، جبکہ وفاق کے برعکس سابقہ فاٹا اور پاٹا میں ٹیکس نہ لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

بجٹ کا 66 فیصد حکومتی امور اور سرکاری ملازمین پر خرچ ہو گا

خیبر پختونخوا حکومت کے بجٹ کا مجموعی تخمینہ 2119 ارب روپے لگایا گیا ہے، صوبائی بجٹ 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اخراجاتِ جاریہ، ترقیاتی پروگرام، اور معمولی حصہ سرپلس کے لیے رکھا گیا ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق صوبائی بجٹ کے 2119 ارب روپے میں سے 1415 ارب روپے اخراجاتِ جاریہ یعنی سرکاری امور چلانے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں کے لیے مختص کرنے کی تجویز ہے، جو بجٹ کا 66 فیصد بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’یہ غریب مکاؤ بجٹ ہے‘، خیبر پختونخوا حکومت وفاقی بجٹ سے غیر مطمئن کیوں؟

بجٹ دستاویز کے مطابق بجٹ میں صوبائی حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات کے لیے 547 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، جو مجموعی بجٹ کا 25 فیصد بنتا ہے۔ یوں 2119 ارب روپے کے بجٹ میں صرف 547 ارب روپے صوبے کی 40 ملین آبادی کی ترقی پر خرچ ہوں گے، جبکہ 66 فیصد حکومت اور سرکاری ملازمین پر خرچ کیا جائے گا۔

صوبے کو 84 فیصد سے زائد فنڈز وفاق سے ملیں گے

بجٹ دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا فنڈز کے لیے وفاق پر انحصار کرتا ہے، جبکہ صوبے کی اپنی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے۔ بجٹ دستاویز میں وفاقی محصولات اور ترقیاتی منصوبوں کا تخمینہ 1797 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو بجٹ کا 84 فیصد سے زائد بنتا ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق صوبائی محصولات کا تخمینہ 129 ارب روپے لگایا گیا ہے، جو بجٹ کا صرف 6 فیصد بنتا ہے، جبکہ 9 فیصد بیرونی قرضوں، امداد اور گرانٹس سے ملنے کی تجویز ہے۔

سابقہ فاٹا اور پاٹا میں ٹیکس ریلیف برقرار

بجٹ میں صوبائی حکومت نے وفاق کے برعکس سابقہ قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس ریلیف کو برقرار رکھنے کی تجویز دی ہے، جبکہ وفاق نے ان علاقوں میں 10 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تنخواہ دار طبقے کے لیے خوشخبری: وفاقی بجٹ 26-2025 میں انکم ٹیکس کی شرح کم کر دی گئی

بجٹ دستاویزات کے مطابق حکومت نے بجٹ میں رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کی الاٹمنٹ اور ٹرانسفر اسٹامپ ڈیوٹی دو فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ 4.9 مرلہ رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر ٹیکس میں چھوٹ کی تجویز ہے۔

بجٹ میں ہوٹل بیڈ ٹیکس کو 10 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اور 36 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے افراد پر پروفیشنل ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ حکومت نے بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس معاف کرنے کی تجویز دی ہے۔

سرکاری ملازمین کو 10 فیصد، پنشنرز کو 7 فیصد اضافہ، کم از کم اجرت 40 ہزار

وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔ بتایا گیا کہ صوبے میں کم از کم اجرت 37 ہزار سے بڑھا کر 40 ہزار کرنے کی تجویز ہے۔

بتایا گیا کہ بجٹ میں ایگزیکٹو الاؤنس نہ لینے والے سرکاری ملازمین کا ڈسپیرٹی الاؤنس 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

’سال 2030 تک بجٹ صرف سرکاری ملازمین کے لیے پورا ہو گا‘

لحاظ علی پشاور کے سینئر صحافی ہیں جو معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمین کی تعداد 6 لاکھ 80 ہزار تک ہے اور صرف ان کی تنخواہوں کے لیے 1100 ارب روپے خرچ ہوں گے، جبکہ صوبے کی مجموعی آبادی تین کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے۔ بجٹ میں صرف پونے 7 لاکھ سرکاری ملازمین پر 1100 ارب سے زائد جبکہ باقی 3 کروڑ 43 لاکھ آبادی کے لیے 250 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ترقیاتی بجٹ صرف 250 ارب ہے، جبکہ لکھا 547 ارب ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں کوئی بھی سرکاری محکمہ گڈ گورننس کے لیے مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سرکاری محکمے میں رشوت اور کمیشن سرعام لی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے لیے 1100 ارب سے زائد کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

لحاظ علی نے کہا کہ زیادتی تو یہ ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لیے پنشن کی مد میں 195 ارب روپے کی ادائیگی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ 2030 تک عام آدمی کے لیے بجٹ سکڑ کر صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں تک محدود ہو جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بجٹ پنشن ترقیاتی منصوبے تنخواہیں خیبرپختونخوا سرکاری ملازمین عوام

متعلقہ مضامین

  • سرکاری فرائض سے مسلسل غیر حاضری، 18 ڈاکٹرز برطرف
  • خیبر پختونخوا بجٹ کا 66 فیصد حکومتی امور اور سرکاری ملازمین پر خرچ ہو گا، عوام کے لیے کیا ریلیف ہے؟
  • سند ھ اسمبلی کا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ پیش،سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 12 فیصد اور پنشن 8 فیصد بڑھانے کا اعلان
  • خیبرپختونخوا بجٹ پیش، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10، پنشن میں 7 فیصد اضافہ
  • وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے کتنے ریلیف کا اعلان کیا؟
  • سندھ بجٹ : سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد، پنشن میں 8 فیصد اضافہ
  • سندھ کے بجٹ میں تنخواہوں میں12اور پنشن میں 8فیصد اضافہ کا اعلان 
  • سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور اپنی تنخواہوں میں 700 فیصد تک اضافہ کر لیا
  • بجٹ مایوس کن عوامی توقعات کے برخلاف، مہنگائی میں اضافہ ہوگا، جنید نقی