فلیٹ و مکانات کی خریداری کے خواہشمند افراد کے لیے جدید اسکیم کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت نے فلیٹس اور 10 مرلہ گھروں کی خریداری پر 30 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی اسکیم متعارف کرا دی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے فنانس بل پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے جائیداد کی خرید و فروخت پر قابلِ ذکر تبدیلیاں کی ہیں، جن میں ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کرنا اور ایف ای ڈی کا خاتمہ شامل ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق 5 کروڑ روپے تک کی جائیداد خریدنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کم کرکے 1.
دوسری جانب، جائیداد کی فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 5 کروڑ روپے تک کی فروخت پر یہ شرح 4.5 فیصد، 5 سے 10 کروڑ روپے تک 5 فیصد، اور 10 کروڑ روپے سے زائد پر 5.5 فیصد مقرر کی گئی ہے۔
راشد لنگڑیال نے بتایا کہ ان اقدامات کے باوجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جائیداد کی خرید پر ودہولڈنگ ٹیکس میں کمی کے خلاف ہے۔ تاہم، حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے فلیٹس اور 10 مرلہ گھروں کی خریداری پر 30 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی اسکیم متعارف کرا دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رجسٹرڈ کاروباری ادارے اگر کسی صارف سے 2 لاکھ روپے سے زائد کی نقد رقم وصول کرتے ہیں تو انہیں 30 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، کرایے کی آمدنی کو نقصانات میں ایڈجسٹ کرنے کی سہولت ختم کرنے کے لیے بھی ترمیم فنانس بل میں شامل کر دی گئی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے یہ بھی اعلان کیا کہ فاٹا اور پاٹا پر دی گئی سیلز ٹیکس کی چھوٹ مرحلہ وار ختم کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر 10 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے، اور آئندہ 4 سال میں یہ شرح بڑھا کر 18 فیصد کر دی جائے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پر ودہولڈنگ ٹیکس کروڑ روپے تک کی خریداری
پڑھیں:
وفاقی بجٹ 2026ء
اسلام ٹائمز: مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کیلئے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔ تحریر: سید اسد عباس
وفاقی وزیر خزانہ نے سال 2025ء اور 2026ء کے لیے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے، ہم بجٹ میں جس قدر ریلیف دے سکتے تھے، دے دیا ہے۔ ملک میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے بجٹ کو عوام دوست قرار دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی نے بجٹ کو آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا ہے۔ پیپلزپارٹی جو اقتدار میں بھی ہے اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہی ہے، اس نے کہا کہ بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا، مگر حقیقت میں 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں۔
بجٹ کا حجم و نمایاں خدوخال:
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17,573 ارب روپے رکھا گیا۔ 500 ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی، جبکہ ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کے تحت بعض ملازمین کو 30 فیصد اضافی مراعات دی گئیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا۔ معذور ملازمین کا کنوینس الاؤنس 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار روپے کر دیا گیا۔دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا، جو اب 2,550 ارب روپے ہوگیا ہے۔ نان فائلرز پر سختیاں بڑھائی گئی ہیں۔ 50 ہزار روپے سے زائد رقم نکالنے پر 1 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جو پہلے 0،6 فیصد تھا۔ نان فائلر کو گاڑی یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں۔ بینکوں کی منافع آمدن پر ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا۔ ای کامرس، آن لائن خدمات، کوریئر سروسز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔ 850 سی سی سے کم گاڑیوں پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا۔ پٹرولیم لیوی 78 روپے سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویز۔ کاربن لیوی پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر (آئندہ سال 5 روپے تک بڑھائی جائے گی)۔
کم آمدنی والے افراد کو سستے گھر یا فلیٹ کی خریداری کے لیے آسان قرضے دیئے جائیں گے۔ زراعت میں بہتری کے لیے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، جبکہ چھوٹے کسانوں کو ایک لاکھ روپے تک بلا ضمانت قرض فراہم کیا جائے گا۔ سبزی، پھل، مچھلی، دالیں، بیج، کیمیکل، ٹیکسٹائل فیبرکس سمیت ہزاروں اشیاء پر کسٹم و ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی کی گئی۔ زندہ جانوروں (گائے، بکری، بھینس، گھوڑے، گدھے) پر کسٹم ڈیوٹی 3 فیصد سے صفر کر دی گئی۔ مختلف مشینری، صنعتی پلانٹس، زراعت، آئی ٹی، پولٹری، ڈیری سیکٹر میں استعمال ہونے والی درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی مکمل ختم یا کم کر دی گئی۔ ڈیجیٹل کیمرے، پروجیکٹر، اسٹیل مصنوعات، انسولین ٹیپ، پولیمرز، سٹین لیس اسٹیل پر بھی رعایت دی گئی ہے۔ بیکری مصنوعات پر 10 فیصد جی ایس ٹی ختم جبکہ درآمدی چاکلیٹ، سیریلز اور پالتو جانوروں کی خوراک پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ فاٹا/پاٹا میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا آغاز آئندہ سال 10 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز، جو مرحلہ وار مکمل کیا جائے گا۔ ریاستی اداروں میں 40 ہزار سرکاری آسامیاں ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 10 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ اور پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل سمیت متعدد اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی، لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سالانہ بجٹ نے حکومتی معاشی ناکامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاستی وسائل اور حکومتی طاقت سے جھوٹ پر مبنی تشہیری مہم معیشت کو بحال نہیں کرسکتی۔ حقائق سچائی ہوتے ہیں اور جھوٹی تشہیری مہم حکمرانوں کو ہی ننگا کر دیتی ہے۔ قرض، سود، کرپشن، بدانتظامیوں کے ساتھ معیشت بحال نہیں کی جا سکتی۔
اقتصادی سروے سے واضح ہے کہ غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے گندم، چاول، گنا، کپاس، مکئی جیسی نقد آور فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ سال کے دوران بڑی کمی ہوئی، کسان رْل گیا۔ مسلسل سیاسی بحران کی وجہ سے قومی سیاست و معیشت بے یقینی کا شکار رہی، جس کا براہ راست نقصان غریب عوام کو بھاری بھرکم ٹیکسز کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے تنخواہ دار غریب طبقہ سے ٹیکس وصولی کو ہی حکومتی ریونیو کا بڑا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر، خالد مسعود سندھو نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد ممکنہ اضافہ انتہائی کم ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے، بجلی کے بلوں میں ٹیکسز ختم کیے جائیں، اشرافیہ کی مراعات بند کی جائیں۔ بجٹ عوام دوست نہ ہوا تو مرکزی مسلم لیگ عوام کی آواز بنے گی۔
مجموعی طور پر بجٹ کا عوام دوست ہونا نظر نہیں آتا۔ حکومت نئے ٹیکس نہ لگانے کے دعوے کرتی رہی، مگر 280 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ اگر شفاف ٹیکس کلیکشن پر توجہ ہو تو نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ کو موجودہ شکل میں قبول کرنا مشکل ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ناکافی ہے۔ شریک حیات کے انتقال پر فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کر دی گئی ہے۔ اگر ایک خاتون شوہر کی پنشن پر بچوں کی کفالت کر رہی ہو تو 10 سال بعد عورت جو ضعیف ہوچکی ہوگی، کیا کرے گی۔ یہ اقدامات کرپشن میں اضافے اور سرکاری ملازمتوں میں عدم دلچسپی کا باعث بنیں گے۔
دوسری جانب وفاقی وزراء اور وزیر مملکت کی تنخواہوں میں 188 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، وفاقی وزیر کے مطابق اگر یہ تنخواہیں ہر سال بڑھتی رہتیں تو یوں اچانک ان تنخواہوں کو بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ دفاعی شعبے کے ریگولز ملازمین کو 25 فیصد اضافی الاونس دیا جائے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ریاست کے اخراجات کا مکمل بوجھ نچلے طبقے یا غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ آج عمران خان کے الفاظ یاد آرہے ہیں، میں برداشت کر لوں گا، آپ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ وہ برداشت کر رہا ہے، غریب آدمی کے لیے یہ سب برداشت کرنا واقعی مشکل ہے، اس پر مستزاد بے تحاشہ بجلی کے بل رہی سہی کسر نکال رہے ہیں۔