تمام عزاداران ملی یکجہتی، تقدس اور خلوص کے ساتھ عزاداری امام حسینؑ برپا کریں گے، جعفریہ الائنس
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
قدم گاہ حیدرآباد میں منعقدہ کانفرنس میں شریک رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ علما و ذاکرین پر جو پابند لگائی گئی ہے اسے فوری ختم کیا جائے، ماتمی جلوس، مجلس امام حسینؑ کے پرمٹ میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، شہری سہولتوں سمیت راستوں کی مرمت، صفائی ستھرائی، امام بارگاہوں اور جلوس کی گزرگاہوں پر صفائی اور لائٹ کا پورا انتظام کیا جائے اسلام ٹائمز۔ جعفریہ الائنس پاکستان ضلع حیدرآباد کے سکندر ہال قدم گاہ حیدرآباد میں ایک کانفرنس بعنوان اہتمام عزاداری کانفرنس بعنوان ’’عزاداری اور اتحاد عزادار‘‘ منعقد ہوئی، کانفرنس کے مہمان خصوصی سید شبر رضا مرکزی جنرل سیکریٹری جعفریہ الائنس پاکستان، علامہ نثار احمد قلندری صوبائی صدر جعفریہ الائنس پاکستان سندھ تھے۔ کانفرنس میں علامہ سید سبط حسن موسوی کراچی، علامہ عرفان علی عرفانی، علامہ سید حیدر عباس زیدی، علامہ سید مظفر شاہ، مولانا غلام رضا سریوال، علامہ آزاد حسین، مولانا اللہ بچایو، مولانا آغا محمد قمبرانی، مولانا ساجد علی ساجدی، مولانا خیر محمد ٹنڈو محمد خان، شیعہ تنظیمات کے عہدیدار، سید ماجد نقوی صدر مرکزی تنظیم عزا، مصطفی علی حیدری عزاداری یوتھ فانڈیشن، سید وقار زیدی صدر مجلس وحدت مسلمین، علامہ گل حسن، جمن سولنگی وحدت عزاداری ونگ، نوید مصطفی شیعہ علما کونسل حیدرآباد، سید صفدر عابدی ڈویژنل صدر وحدت عزاداری ونگ، سید معظم شاہ جہانیاں صوبائی رہنما شیعہ علما کونسل سندھ، انجمن گلدستہ اکبر کے سید مجاہد جعفری، سید منظر جعفری، انجمن عباسیہ قدیم کے راحت جعفری، محبان اہلیبتؑ کے سید عاصم شاہ، سید محمد احمد جعفری، سید قیصر رضوی، سید ابرار شاہ، سید ارشد تقوی کے علاوہ علما کرام، ماتمی انجمنوں و تنظموں کے عہدیداروں اور جعفریہ الائنس پاکستان ضلع حیدرآباد کے ضلعی و زون کے عہدیداروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کانفرنس میں طے پایا کہ تمام عزاداران ملی یکجہتی، تقدس اور خلوص کے ساتھ امام مظلوم، سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام برپا کریں گے جس میں اتحاد بین المومنین و بین المسلمین کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا، ہر عزادار اپنی جانب سے عزاداری کو پر خلوص بنانے اور تقدس کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گا، اس کے ساتھ تمام مسالک سے بھی گزاش کی گئی کہ چونکہ یہ غم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نواسے کا غم ہے جس کا مسلمان احترام کرتا ہے اس عزاداری کو پر امن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، علما و ذاکرین اس سال محرم الحرام میں امام حسینؑ کی قربانی کے مقاصد کو اب تک حاصل شدہ نتائج سے سامعین کو آگاہ کریں، عزاداری امام حسینؑ کے سلسلے میں حکومت وقت اور مقتدر حلقوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عزاداری امام حسینؑ منانے والے مومنین کو پرامن ماحول مہیا کریں تاکہ عزادار اطمیان سے عزاداری کو سرانجام دے سکیں۔ کانفرنس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ تمام امام بارگاہوں، مجالس، جلوس ہائے عزا، علما و زاکرین اور ملت تشیع کے سرکردہ افراد کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے اور مجالس کا انعقاد، جلوس امام حسینؑ، سبیل امام حسینؑ اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بیجا پابندی نہ لگائی جائے۔
کانفرنس میں شریک رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ علما و ذاکرین پر جو پابند لگائی گئی ہے اسے فوری ختم کیا جائے، ماتمی جلوس، مجلس امام حسینؑ کے پرمٹ میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے، شہری سہولتوں سمیت راستوں کی مرمت، صفائی ستھرائی، امام بارگاہوں اور جلوس کی گزرگاہوں پر صفائی اور لائٹ کا پورا انتظام کیا جائے، حیسکو کو پابند کیا جائے کہ وہ ایام عزا میں بجلی کی لوڈشیدنگ کو بالکل ختم کریں، اسکاؤٹس کی مدد کے لئے محکمہ صحت کی جانب سے ادویات اور ایمبولینس کا موثر انتظام کیا جائے، موجودہ ملکی اور بین الااقوامی حالات کے پیش نظر پہلے سے زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائے، ملت تشیع ایک پرامن قوم ہے اور ہمیشہ کی طرح عزاداری امام حسینؑ میں انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ کانفرنس کے اختتام پر جعفریہ الائنس ضلع حیدرآباد کے صدر ساجد انصاری، جنرل سیکریٹری سید شمیم نقوی نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کے لیے تعاون کرنے پر انجمن امامیہ سندھ ایس ایچ او فورٹ، ضلعی انتظامیہ، بم ڈسپوذل اسکواڈ کا شکریہ ادا کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جعفریہ الائنس پاکستان کانفرنس میں کیا جائے کے ساتھ
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مایوس کُن خبریں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں اور ان کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا جبکہ غلط معلومات کا ایک سیلاب عام لوگوں کے ذہنوں میں کافی خدشات پیدا کرتا رہا۔
تاہم گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور 6 نومبر کو مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا گیا جس سے افواہوں کا شور کسی قدر تھم گیا۔ ترکیہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے’ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔‘ یقیناً اسے مذاکرات کی کامیابی کی دلیل مانا جا سکتا ہے۔
6 نومبر کو استنبول میں اعلیٰ سطحی مذاکرات شیڈول ہیں، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوں گے۔ یہ حالیہ استنبول مذاکرات کا فالو اپ ہے، جہاں 30 اکتوبر کو فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ
12/11 اکتوبر سرحدی جھڑپوں، افغان سائیڈ سے دراندازی کی کوششوں اور پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچی۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے حملے روکیں، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔
پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کر دے۔ استنبول مذاکرات میں پاکستان کے جانب سے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دراندازی کے ثبوت بھی دِکھائے لیکن افغانستان کی ہٹ دھرمی کے باعث دراندازی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے مجوّزہ میکنزم طے نہیں ہو پایا۔
واشنگٹن میں امریکی تِھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کوئی حیران کُن خبر نہیں لیکن اِس کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کے نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات مُشکل ہیں لیکن یہ چیز پاکستان کو مزید فضائی حملے کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور فضائی حملے افغان طالبان کو افغان عوام میں مزید طاقت مہیّا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت شروع کر دی تو طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔
مانیٹرنگ میکنزم بن گیا تو خلاف ورزی پر جُرمانہ عائد کیا جائے گا، بریگیڈئر حارث نوازدفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر حارث نواز نے وی نیوز سے خصوص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عارضی طور پر جنگ بندی ہو چُکی ہے اور 6 نومبر تک جو 7 دن ہیں اُن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم قیامِ امن کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ اگر اِن 6، 7 دِنوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستان نہیں آتے اور یہاں پر دہشتگرد کارروائیاں نہیں کرتے تو پھر 6 نومبر کو مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا
افغانستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو جس کے لیے ترکیے اور قطر کی ثالثی میں میکنزم طے کیا جا رہا ہے جس میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر ہونے والی میٹنگز میں اگر سرحد پار دہشتگردی ہوتی ہے تو اُس کی رپورٹس شیئر کی جائیں گی۔
اگر افغان طالبان رجیم یہ سرحد پار دہشتگردی روکنے میں بار بار ناکام ہوتا ہے تو پھر پاکستان کو حق ہے کہ وہ فضائی حملے کر سکے یا ڈرون حملوں کے ذریعے سے دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملے جیسا کہ گزشتہ روز کُرّم میں 6 پاک فوج اہلکاروں کی شہادت اور آج لکی مروت میں حملہ کے بارے میں بریگیڈئر حارث نواز نے کہا کہ یہ اُن دہشتگردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے جو پہلے سے سرحد پار کر کے کُرّم اور شمالی وزیرستان آ چُکے ہیں۔
پاکستان اِن دہشتگردوں کو 2 سے 3 مہینے کی کارروائیوں میں ختم کر دے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ مزید دہشتگرد پاکستان نہ آئیں۔ ثالثوں کی موجودگی میں جو بھی میکنزم طے ہو گا اُس کے مطابق سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جُرمانے عائد کئے جائیں گے جو ادا کرنا ہوں گے۔
موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے، طاہر خانافغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے جس میں جنگ بندی پر اِتّفاق کیا گیا ہے اور اگلے مذاکرات کی تاریخ دی گئی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات میں تعطّل نہیں آیا جو میری نظر میں ایک اچھا اقدام ہے گو کہ سیز فائر ایک مبہم سی اصطلاح ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ جِس طریقے سے ماحول بنایا گیا تھا اور کُچھ عناصر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ بندی کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تیار نظر آتے تھے۔ جس طرح پاکستانی وزیروں اور کچھ میڈیا نے دھمکیاں دیں اور ویسی ہی دھمکیاں افغانستان کی طرف سے بھی آئیں۔ میڈیا کے بعض حِصّے یہ کہتے پائے گئے کہ بس پاکستانی جنگی طیارے افغانستان پر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور دوسری طرف سے کہا گیا کہ جی! افغانستان سے ٹینک بھی تیار ہیں۔ ایک جنگ جیسے ماحول میں یہ جنگ بندی معاہدہ درست قدم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:افغان سرزمین سے دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، فیلڈ مارشل عاصم منیر
ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ تو نہیں یہ برسوں پُرانا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ رہے گا کیونکہ ٹی ٹی پی تو مذاکرات کا حصّہ نہیں تھی۔ پاکستان کا بُنیادی مطالبہ تو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہی ہے۔ مذاکرات جاری رہے تو کچھ نہ کچھ تو میکنزم طے ہو گا۔ اور یہ جنگ بندی معاہدہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بات تو طے ہوئی ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ میکنزم طے ہو جائے تو اُس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ جیسا کہ فروری 2020 دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین القاعدہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن 31 جولائی 2022 کو القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری حملے میں مارا گیا تو اِس سے ثابت ہوا کہ افغان سرزمین القاعدہ دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ تو یہ کہنا کہ تحریری معاہدے کے بعد دہشتگردی رُک جائے گی، ایسا بظاہر مُشکل نظر آتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک افغان معاہدہ ٹی ٹی پی طالبان