Express News:
2025-07-31@18:36:19 GMT

سوشل میڈیا کا استعمال

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرایع اور ٹیکنالوجی کا منفی استعمال کیا ہے۔ جس کی بدولت ہم انحطاط کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے معاشرتی بگاڑ بھی پیدا ہورہا ہے۔ بعض ایسی ایپلی کیشن بھی ہیں کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں  صرف پندرہ بیس سکینڈ کی وڈیو  پیش کرتے ہیں، شئیر کر کے مشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں۔

اس طرح سوشل میڈیا نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہا ہے ،ایسی ایپلی کیشن انٹرنیٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلیکیشن بن گئی ہیں۔ یہ ایپلی کیشن نوجوانوں بلکہ نوجوان  لڑکیوں میں اس لیے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ اس  کے ذریعے آسانی سے خود نمائی کی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہیں اور صارفین کے دل لبائے جاتے ہیں۔ 

جس کے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر کمنٹس کی بھرمار ہوجاتی ہے اور بعض صارفین پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور معاشرے کے افراد خاموشی سے اس  سمندر میں ڈوبے جا رہے ہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ  اس لاعلاج بیماری میں صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ ادھیڑ عمر بوڑھے، بوڑھی خواتین، بچے، بہن بھائی، ماں باپ اور دیگر افراد بھی دیوانے ہو رہے ہیں۔ بعض لوگ کچھ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ وڈیوز  بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور  زیادہ بڑھ رہی ہے۔ 

ایسی وڈیو شئیر ہو رہی ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں چھوٹی عمر کے طلباء اور طالبات کلاس روم میں ڈانس کررہے ہیں اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

باپ کے ساتھ یا اس کی موجودگی میں کم سن لڑکیاں اور لڑکے ناچ رہے ہیں اور والدین فخر کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل میں  سوشل میڈیا پر وڈیوز بنانے اور اس میں ایڈونچر شامل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، تاکہ لائکس کمنٹس ویوز زیادہ ملیں۔ آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں وڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا، وڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا، سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا، ریل کی پٹری پر وڈیو بنانا اور حادثاتی طور پر ٹرین کی زد میں آ جانا، ویوز لائک کمنٹس کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انتقامی کارروائی کرنا۔

اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی لوگ نہروں میں، سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ غرض یہ کہ لوگ کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی وڈیو زیادہ بناتے ہیں۔ ایسی وڈیو بنانے کے باعث ملک بھر میں لڑکیوں سمیت درجنوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے۔

 صارفین اپنا زیادہ تر وقت وڈیوز اپ لوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ اسمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق اس  طرف نوجوان نسل کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم ترین نقصان میںسوشل میڈیا ایڈکشن کی  عادت ہے جو بری طرح ان کی صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ، ذمے دار اور مثبت انداز میں شمولیت اختیارکرنے کی تربیت دیں، والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، دوستوں کی فہرستوں اور روزانہ کی سرگرمیوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیں، پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی کر کے کسی بھی مشکوک یا غیر معمولی سرگرمی کا فوری ادراک ممکن بنائیں، سوشل میڈیا کے استعمال، درپیش چیلنجز اور آن لائن تنازعات پر باقاعدگی سے گفتگو کریں تاکہ ان کا شعور بڑھے اور وہ محفوظ رہ سکیں۔

والدین  یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فخر کرتے ہیں اور جب کوئی نا قابل یقین اندوہناک واقعہ ہوتا ہے تو سوائے پچھتاوے، دَرْد و اَلَم اور ماتم کے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں یقینا  موبائل فون انقلاب ضرور لایا۔

نوجوانوں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے۔ معاشرتی اقدار کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ بلا وجہ وقت کا ضیایع  ناسور ہے، اب جب اس قسم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو حکومت کو اس پر مستقل پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

والدین اور حکومتی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو معاشرتی برائی سے بچانے کے لیے چوکس رہیں اور اس وباء کو روکنے کے لیے ممکن اقدامات کریں۔

اسکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ  برائیوں اور فضول وقت ضایع کرنے کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کریں تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے۔

ایسا کوئی بھی فضول کام جو ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ، اس سے دور رہا جائے۔ اعداد و شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ  سوشل میڈیا  پر لگاتے ہیں، روزانہ رات کو 3 بجے تک وڈیوز دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے مارکس کم آرہے ہیں۔

سوشل میڈیا کا معاشرے میں  10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے۔ نوجوان جب وڈیو بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالورز اور ویوورز ہیں، اس سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور جنریشن گیپ آرہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نوجوان نسل سوشل میڈیا ا رہے ہیں کرتے ہیں ا رہا ہے کے ساتھ ہیں اور ہیں جس

پڑھیں:

بدتمیزی کے کلچر اور پروپیگنڈے کو روکنے کیلیے سوشل میڈیا پر پابندی ضروری ہے، لیگی رہنما

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا ایک آزاد دنیا ہے جسکو اب ایلون مسک بھی کنٹرول نہیں کرسکتا تاہم جو شخص اخلاقیات یا ملکی مفاد کے خلاف باتیں کرے اُس کے احتساب کیلیے اقدامات ناگزیر ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے نجی ہوٹل میں ’سیاسی عدم برداشت کے کلچر کے  خاتمے‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمنیار میں اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کیا۔

نہال ہاشمی نے کہا کہ اب ملک کا سماجی اور سیاسی ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ میں بھی سب کو مشکوک انداز سے دیکھتا ہوں اور یہ ہی روش سب نے اختیار کررکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بہت ساری خرابیاں ہیں مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ ایک ایسا کھلا میدان یا پلیٹ فارم ہے جس کو اب کنٹرول نہیں کیا جاسکتا مگر بدتمیزی، بدتہذیبی اور جھوٹ یا پروپیگنڈا کے کلچر کو روکنے کیلیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈا صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ مین اسٹریم میڈیا پر بھی ہوتا ہے اور دس سال تک نواز شریف نے یہ سب برداشت کیا اس لیے میں انہیں ملک کا سب سے زیادہ صابر انسان سمجھتا ہوں اور یہی صبر میں نے اُن سے سیکھا۔

نہال ہاشمی نے کہا کہ مجھے بھی ایک دور میں میڈیا پر ولن بناکر دکھایا گیا، ہزاروں گھنٹے میری ایک تقریر پر بات کی گئی اور پھر ثاقب نثار کے جاتے ہی مجھے ہیرو بنادیا گیا جبکہ عمران خان نے تو تقریر کی وجہ سے مجھے لٹکانے (سزائے موت) تک تجویز دی تھی۔

لیگی رہنما نے کہا کہ ہر شخص یوٹیوبر نہیں ہوسکتا مگر ہاں اب ہر شخص کی یہ خواہش اس لیے ہوگئی ہے کہ ان پلیٹ فارمز سے معاشی فوائد مل رہے ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’میری نظر میں رجب بٹ اور ڈکی بھائی‘ تھڑڈ کلاس ہیں اور اُن کے فالورز بھی ایسے ہی ہیں جو غیر معیاری مواد کی ترویج کررہے ہیں۔

نہال ہاشمی نے کراچی کے ابھرتے ہوئے کانٹینٹ کریٹر طلحہ احمد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس طرح کے کام کا رجحان بڑھ گیا تو پھر منفی چیزیں خود ختم ہوجائیں گی۔

لیگی رہنما نے سیاسی قائدین اور عوامی نمائندوں کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں اور اپنے پلیٹ فارمز کو دفتر بنالیں، اگر ایک فیصد بھی مسائل حل ہوتے ہیں تو پھر نہ صرف یہ کامیابی ہوگی بلکہ اس سے چیزیں تبدیل بھی ہوجائیں گی۔

نہال ہاشمی نے سوشل میڈیا پر ’غدر مچانے، عزتیں اچھالنے، الزامات لگانے اور سندیں یا فتوے بانٹنے‘ والوں کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ماں، بہن بیٹی اور ملک کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کیلیے ڈالا آئے گا اور اسے آنا بھی چاہیے‘۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر پابندیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر سانحات، واقعات اور بدتمیزیوں کو روکنا ہے تو بھی بندش بھی ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے مشورہ دیا کہ چونکہ آزادی اظہار رائے ہے اسلیے آپ تنقید کے ساتھ اچھے کام کی سرہانے کا سلسلہ بھی شروع کردیں۔ 

’میں نے 2013 میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا‘

پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رکن سندھ اسمبلی حلقہ پی ایس 90 شارق جمال نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اس کے بعد تو یہ کہتا ہوں کہ شکر ہماری جماعت کا سوشل میڈیا کمزور ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 2013 میں پہلی بار پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور پھر 126 دن کے دھرنے نے میری آنکھیں کھول دیں اور اُس شخص نے 2022 میں میرے خیالات کو سچ کر دکھایا۔

شارق جمال نے کہا کہ سوشل میڈیا کا یہ حال ہے کہ میں نے کشمور میں اسپتال بنانے کا مطالبہ کیا تو اُس ویڈیو کو دس لاکھ لوگوں نے دیکھا اور ڈھائی ہزار نے کمنٹس میں آکر وہ باتیں لکھیں جو ناقابل بیان اور شرمناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جوملک کیلیے بہتر ہو وہ کام کرنا چاہیے اور سب کو اسے سپورٹ بھی کرنا چاہیے، ضرورت پڑے گی تو سگنل بند ہوں گے اور ضرورت ہوگی تو کھلیں گے بلکہ یہی نہیں فوج اور ملک کیلیے ہمیں گلے بھی بند کرنا پڑیں گے۔

تقریب میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور سیاسی جماعت کے عہدیداران نے بھی اظہار خیال کیا جبکہ سوشل میڈیا پر جاری سیاسی عدم برداشت کے کلچر کے خاتمے کیلیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں اور اختلاف پر احترام قائم رکھنے کا مشورہ دیا۔

متعدد شرکا کا یہ ماننا تھا کہ سوشل میڈیا پر موجود مختلف پارٹیز کے کارکنان اختلاف پر تہذیب کا دائرہ کار بھول جاتے ہیں لہذا سیاسی جماعتیں اس حوالے سے منشور مرتب کریں اور کارکنان کی تربیت بھی کریں۔ 

متعلقہ مضامین

  • ’لیڈر جیل میں اور پی ٹی آئی وزرا سرکاری خرچ پر نمکین تکے انجوائے کررہے‘، سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • یو اے ای میں سوشل میڈیا پر اشتہاری مواد کے لیے ’ایڈورٹائزر پرمٹ‘ لازم قرار
  • بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں مزید 2 کشمیری نوجوان شہید؛ تعداد 5 ہوگئی
  • آسٹریلیا نے بچوں کے یوٹیوب استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی
  • میرے لیے علیزے شاہ زیرو ہے، روبینہ اشرف کا تبصرہ وائرل
  • اسلام آباد میں ’’گدھے کے گوشت‘‘ کی فروخت، سوشل میڈیا پر طوفان
  • بدتمیزی کے کلچر اور پروپیگنڈے کو روکنے کیلیے سوشل میڈیا پر پابندی ضروری ہے، لیگی رہنما
  • جاپانی یوٹیوبر اپنی نوکیلی ٹھوڑی کیوجہ سے سوشل میڈیا پر وائرل
  • ’یہ یورپ نہیں لاہور ہے‘، لاہور ریلوے اسٹیشن کی جدت بھری ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
  • ایشون نے پاک بھارت میچز سے متعلق خود سے منسوب خبر کو جعلی قرار دے دیا