میچ کے دوران بھی ‘چوکرز’ کا طعنہ سننے کو ملا
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
جنوبی افریقی کپتان ٹمبا باوما کی قیادت میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ جیت کر پروٹیز نے ‘چوکرز’ کے لیبل کو اُتار پھینکا۔
گزشتہ روز لارڈز کے تاریخی کرکٹ گراؤنڈ میں جنوبی افریقا نے آسٹریلیا 5 وکٹوں سے شکست دیکر پہلا آئی سی سی ٹائٹل اپنے نام کیا۔
تاریخی فتح کے بعد جنوبی افریقی کپتان ٹمبا باوما نے پریزنٹیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ذہنی طور پر دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی، ہم پر “چوکرز” (دباؤ میں ہارنے والی ٹیم) کا داغ اس دن پھر سے دہرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے خلاف کھیلنا پچھلے چند برسوں میں کافی مختلف ہوگیا ہے، اب کینگروز باڈی لینگویج اور مہارت سے جارحانہ انداز اپناتے ہیں، پہلے وہ زبان سے کرتے تھے۔
ٹمبا باوما نے کہا کہ چوکرز کا طعنہ آج صبح پھر سننے کو ملا، ان کے ایک کھلاڑی نے کہا کہ ہم اپنی باقی 8 وکٹیں 60 رنز سے پہلے ہی گنوا سکتے ہیں۔
جب میں اور مارکرم کریز پر موجود تھے تو ہمارا سارا فوکس جیت پر تھا، اس لیے زیادہ باتیں نہیں ہوئیں، آسٹریلیا نے مقابلہ لمبا کھینچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اس موقع پر پیٹ کمنز کا کہنا تھا کہ شکست کو قبول کرتے ہیں اور جنوبی افریقی ٹیم نے بہترین کھیل پیش کیا ہے اور وہ چیمپئین بننے کی حقدار تھی۔
خیال رہے کہ ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز کھیل کا آغاز ہوا تو جنوبی افریقا کو جیت کیلئے مزید 69 رنز درکار تھے، باووما اور ایڈن مارکرم پر دباؤ بہت زیادہ تھا اور آسٹریلوی کھلاڑیوں نے بھرپور کوشش کی کہ پروٹیز کو دباؤ میں لاکر وکٹیں لیں جائیں اور میچ کا رخ تبدیل کیا جائے۔
پیٹ کمنز نے ٹیمبا باووما کو وکٹ کے پیچھے کیچ کروایا، تب جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے اب بھی 65 رنز درکار تھے۔ اس کے بعد مچل اسٹارک نے ایک شاندار گیند پر ٹرسٹن سٹبز کی وکٹ اُڑا دی، اور ہدف مزید کم ہو کر صرف 41 رہ گیا۔
مگر ایڈن مارکرم نے شاندار اننگز کھیلی اور 136 رنز بناکر آؤٹ ہوئے تو جنوبی افریقا جیت سے محض 10 رنز کے فاصلے پر تھا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیل اور امارات کے درمیان یمن میں خفیہ سازباز
اسلام ٹائمز: اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنوبی عبوری کونسل کے سربراہ، عیدروس الزبیدی نے کہا تھا کہ اگر ایک آزاد جنوبی ریاست قائم ہوتی ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح طارق صالح کے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ روابط بھی غزہ کی مدد کے دوران جاری رہے اور مغربی توجہ کا مرکز بنے۔ خصوصی رپورٹ:
ایک مغربی تحقیقی رپورٹ میں اسرائیل کی یمن میں امارات کے حمایت یافتہ گروہوں میں بڑھتی دلچسپی سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ المساء کی مکمل رپورٹ میں فریقین کے درمیان سیاسی و سکیورٹی رابطوں اور یمن کے اسٹریٹیجک علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہ موجودگی جو خطے کی کشیدگی اور بحیرہ احمر و خلیج عدن میں اہم بحری راستوں پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔ عریبک سنٹر واشنگٹن ڈی سی کے محقق جورجیو کافرو نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ برسوں کے دوران امارات کے حمایت یافتہ یمنی گروہوں کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طارق صالح کی فورسز اور جنوبی عبوری کونسل کے رہنما تل ابیب کے ساتھ رابطے قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جنوبی عبوری کونسل اور طارق صالح کا مؤقف:
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنوبی عبوری کونسل کے سربراہ، عیدروس الزبیدی نے کہا تھا کہ اگر ایک آزاد جنوبی ریاست قائم ہوتی ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح طارق صالح کے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ روابط بھی غزہ کی مدد کے دوران جاری رہے اور مغربی توجہ کا مرکز بنے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امارات کے درمیان گزشتہ چند سالوں میں یمن کے جزیروں اور سقطری کے جزائر میں فوجی اور جاسوسی اڈے قائم کرنے میں تعاون بڑھایا گیا ہے۔ امارات، امریکہ، بحرین اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں نے بحیرۂ عرب اور خلیجِ عدن میں بحری سرگرمیوں کی نگرانی کے حوالے سے تل ابیب کی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔
اسرائیل کے اہداف اور داخلی خطرات:
جنوبی عبوری کونسل اسرائیل کے ساتھ براہِ راست تعلق قائم کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاکہ جنوبی یمن کی علیحدگی کے راستے میں اپنی بین الاقوامی شناخت کو مضبوط بنا سکے۔ لیکن یہ راستہ اندرونی سطح پر شدید خطرات رکھتا ہے، کیونکہ یمنی عوام مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے حساس ہیں، اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تعلق پر سخت عوامی ردِعمل سامنے آ سکتا ہے۔
علاقائی اثرات اور صنعا کا کردار:
امارات کے زیرِ اثر یمنی علاقوں میں اسرائیلی اثر و رسوخ میں اضافہ علاقائی کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور یمن کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال صنعاء کی عوامی اور عسکری حمایت میں اضآفے کا سبب بنے گی۔ بحیرۂ احمر اور باب المندب میں یمنی مزاحمت کے توازنِ قوت کو مزید نمایاں کرتی ہے۔