باجوڑ: وزیراعظم کے معاون خصوصی مبارک زیب کے گھر پر راکٹ حملہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
باجوڑ(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم شہبازشریف کے معاونِ خصوصی برائے قبائلی امور مبارک زیب کی باجوڑ میں واقع رہائش گاہ کو ایک بار پھر سے شرپسندوں نے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔گزشتہ ماہ بھی مبارک زیب کے گھر کو دیسی ساختہ دھماکا خیز ڈیوائس (آئی ای ڈی) سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں رکن قومی اسمبلی کے گھر کو معمولی نقصان پہنچا تھا۔ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) باجوڑ وقاص رفیق کے مطابق مبارک زیب کے گھر پر راکٹ کے ذریعے حملہ کیا گیا لیکن خوش قسمتی سے راکٹ پڑوسی کے گھر کی دیوار میں جا لگا جس سے گھر کی دیواروں اور مرکزی دروازے کو نقصان پہنچا تاہم افسوسناک واقعے میں کسی کے بھی زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔رکن قومی اسمبلی مبارک زیب نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ایک دفعہ پھر میرے گھر کو رات کی تاریکی میں شرپسندوں نے راکٹ حملہ کردیا، الحمدللہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ڈی پی او کے مطابق شرپسند عناصر نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران مبارک زیب کے گھر کو 2 بار نشانہ بنایا ہے، وقاص رفیق نے بتایا کہ معاون خصوصی برائے قبائلی امور کے گھر پر ہونے والے حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔مبارک زیب کو عام انتخابات 2023 میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل رہی تاہم ان کے خلاف پارٹی نے اس وقت ایکشن لیا جب انہوں نے پارٹی پالیسی کے برخلاف 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مبارک زیب کے گھر گھر کو
پڑھیں:
کراچی میں پولیس کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے سلیپر سیل کی موجودگی کا انکشاف
ڈیفنس خیابان بخاری میں گشت پر مامور گزری تھانے کی پولیس موبائل پر اندھا دھند فائرنگ کے واقعے اور دیگر پولیس پر حملوں کے حوالے سے جاری تفیتیش میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
اس حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گزری تھانے کی پولیس موبائل کو فائرنگ کا نشانہ بنائے جانے کے دوران جائے وقوعہ سے ملنے والے نائن ایم ایم پستول کی گولیوں کے خول کا مینیوول فرانزک مکمل کرلیا گیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ پولیس موبائل پر حملے میں استعمال کیے جانے والا اسلحہ شہر کے دیگر علاقوں میں پولیس پر حملوں کی متعدد وارداتوں میں سے میچ کر گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کے بعد شبہ ہے کہ پولیس پر حملوں میں ایک ہی گروپ کے ملوث ہوسکتا ہے جو شہر میں ہی مختلف وارداتوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس پر حملوں کے دوران جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خولز کی مدد سے ان وارداتوں کا ڈیٹا مرتب کیا جا رہا ہے جس میں ایک ہی طرح کا اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پولیس پر حملوں کے یہ واقعات گزشتہ ڈھائی سے تین ماہ کے دوران پیش آئے اور قوی شبہ ہے کہ دہشت گردوں کے سلیپر سیل متحرک ہوئے ہیں جن کا سراغ لگانے کے لیے پولیس ، کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گولیوں کے میچ کرنے والے خولز شہر میں پولیس پر حملوں کے دوران ساؤتھ زون کے علاقے مائی کلاچی روڈ پر ٹریفک پولیس چوکی میں اہلکار زین، ویسٹ زون کے علاقے منگھوپیر میں پولیس اہلکار عمران ، ایسٹ زون کے علاقے بن قاسم ملیر میں پولیس اہلکار میتھرو جبکہ چند روز قبل شاہ لطیف ٹاؤن میں ہیڈ کانسٹیبل عبدالکریم کی ٹارگٹ کلنگ سے میچ کرگئے ہیں۔
ایسٹ زون کے ڈسٹرکٹ کورنگی میں قیوم آباد میں ساجد زمان پولیس چوکی پر اندھا دھند فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار زخمی جبکہ ایک شہری جاں بحق بھی ہوا تھا، اس کے علاوہ ڈیفنس فیز ون میں موٹر سائیکل سوار ملزمان نے پولیس اہلکار ثاقب کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر زخمی کیا تھا جبکہ 2 روز قبل اتوار کی شب ساؤتھ زون کے علاقے ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں گزری تھانے کی پولیس موبائل کو اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈسٹرکٹ ساؤتھ پولیس کی جانب سے علاقے میں سیکیورٹی کے فل پروف اقدامات کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا تاہم خوش قسمتی سے موبائل میں سوار ڈرائیور اور اہلکار محفوظ رہے جبکہ اس حملے کے چند گھنٹوں کے بعد ساحل تھانے کی حدود میں سی ویو دو دریا کے قریب موبائل گشت پر مامور کار میں سوار ایک پولیس اہلکار کو مشکوک کار سوار ملزمان اغوا کر کے فرار ہوگئے تھے۔
ملزمان کی جانب سے پولیس موبائل کار پر فائرنگ بھی کی گئی تھی جس میں 2 خول نائن ایم ایم اور 4 خول 30 بور پستول کے ملے تھے تاہم مغوی اہلکار کو ملزمان نے لوٹ مار کے بعد سپرہائی وے پر اتار دیا جو ساحل تھانے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اتوار کی شب پولیس پر کیے گئے ان 2 پے در پے حملوں اور اہلکار کے اغوا نے ساؤتھ زون کے افسران کی کارکردگی اور سیکیورٹی اقدامات پر سوال بھی اٹھا دیئے ہیں۔