آپریشن یا علیؑ ابن ابی طالب، عماد، قدر، اور خیبر شکن میزائلوں کی آٹھویں لہر
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
یہ کارروائی ان دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل میں کی جا رہی ہے، جو اسرائیل نے تہران سمیت مختلف ایرانی شہروں پر کیے، جن میں کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز، نیوکلیئر سائنسدان اور عام شہری بشمول بچے شہید ہوئے۔ یہ بے مثال فوجی آپریشن ’یا علی ابن ابی طالبؑ‘ کے کوڈ نام سے انجام دیا جا رہا ہے، جو عید الغدیر کی بابرکت مناسبت کے ساتھ موافق ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق، پاسدارانِ انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے ایرو اسپیس ڈویژن نے ہفتہ کے روز ’آپریشن وعدہ صادق 3‘ کی تازہ ترین لہر کے دوران مختلف جدید میزائل سسٹمز تعینات کیے۔ باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ تازہ حملوں میں اسرائیلی مقبوضہ شہروں حیفہ اور تل ابیب کو نشانہ بنانے کے لیے عماد، قدر، اور خیبر شکن میزائل فائر کیے گئے۔ عماد بیلسٹک میزائل، قدر کا جدید ورژن ہے، جس میں بہتر رہنمائی اور درستگی کی خصوصیات شامل ہیں، اور اسے پہلی بار 2015 کے آخر میں آزمایا اور فوجی خدمات میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میں ایک نیا ڈیزائن کردہ قابلِ نقل و حرکت وارہیڈ شامل ہے، جس کے نچلے حصے میں پنکھ ہوتے ہیں، جو دوبارہ فضا میں داخل ہونے کے بعد ہدف کی جانب رخ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
ایرانی عسکری حکام کے مطابق، عماد مکمل رہنمائی اور کنٹرول کی صلاحیت رکھتا ہے جب تک کہ وہ ہدف سے نہ ٹکرا جائے، اور یہ ایران کا پہلا انتہائی درست میزائل سمجھا جاتا ہے۔ یہ مائع ایندھن سے چلنے والا میزائل ہے، جس کی لمبائی 15.
وارہیڈ کا وزن ایک ہزار کلوگرام سے کم کر کے 650 کلوگرام کر دیا گیا، جس سے میزائل کی رینج ایک ہزار 200 کلومیٹر سے تقریباً 2 ہزار کلومیٹر تک بڑھ گئی۔ قدر میں بیبی-باٹل طرز کا وارہیڈ ڈیزائن شامل کیا گیا ہے، جو ایروڈائنامکس اور درستگی کو بہتر بناتا ہے، جدید رہنمائی نظام کے ساتھ، اس کی سی ای پی 2 ہزار 500 میٹر سے گھٹ کر 100 سے 300 میٹر تک ہو گئی ہے۔ خیبر شکن میزائل ایک درمیانی فاصلے کا بیلسٹک میزائل ہے، جو اسٹریٹجک حملوں کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور پچھلے معرکوں میں اپنی مؤثریت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ خیبر شکن-1 اور خیبر شکن-2 دونوں ورژن اسرائیل کے جدید فضائی دفاعی نظاموں، جیسے ایرو-3 اور ڈیوڈز سلنگ، کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کی اندازاً رینج تقریباً ایک ہزار 450 کلومیٹر (تقریباً 900 میل) ہے، اور یہ روایتی یا ممکنہ طور پر غیر روایتی وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے یہ خاص طور پر مہلک ہو جاتا ہے۔ یہ جدید رہنمائی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے، جس میں قابلِ نقل و حرکت ری انٹری وہیکلز (ایم اے آر یو ایس) شامل ہیں، جو میزائل ڈیفنس سسٹمز کو چکمہ دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ دو مرحلہ جاتی ٹھوس ایندھن والے انجن سے چلتا ہے، جس سے یہ مائع ایندھن والے میزائلوں کے مقابلے میں تیزی سے لانچ کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ دشمن کے علاقے میں موجود اہم اسٹریٹجک اہداف جیسے بنیادی ڈھانچے اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ صیہونی ریاست کے خلاف میزائل اور ڈرون حملوں کی یہ نئی لہر ہفتہ کی شب شروع ہوئی، جو جمعہ کے روز شروع ہونے والے جوابی آپریشن کے اگلے مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ کارروائی ان دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل میں کی جا رہی ہے، جو اسرائیل نے تہران سمیت مختلف ایرانی شہروں پر کیے، جن میں کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز، نیوکلیئر سائنسدان اور عام شہری بشمول بچے شہید ہوئے۔ یہ بے مثال فوجی آپریشن ’یا علی ابن ابی طالبؑ‘ کے کوڈ نام سے انجام دیا جا رہا ہے، جو عید الغدیر کی بابرکت مناسبت کے ساتھ موافق ہے۔ پاسداران انقلاب اسلامی نے تصدیق کی کہ اس کے ایرو اسپیس ڈویژن نے صیہونی حکومت کی نئی جارحیت کے براہ راست ردعمل میں اس کارروائی کا آغاز کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی رینج ایک ہزار کیا گیا ہے جاتا ہے میٹر ہے کے لیے
پڑھیں:
جرمن کوہ پیما لاؤرا ڈالمائر کی موت کی تصدیق
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) پاکستانی حکام نے آج بروز بدھ ان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ وہ دو روز قبل پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں چٹانیں گرنے کے ایک حادثے کی زد میں آ گئی تھیں۔
حادثے کے وقت ان کے ہمراہ ساتھی کوہ پیما مارینا ایفا بھی موجود تھیں، جنہوں نے ہنگامی سگنل بھیجا اور منگل کے روز ریسکیو ٹیم کی مدد سے بیس کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔
تاہم، ڈالمائر پہاڑ پر ہی زخمی حالتمیں پھنس گئی تھیں اور ان تک فوری رسائی ممکن نہ ہو سکی۔حکام کے مطابق ریسکیو کارروائی کے دوران ان کی لاش برآمد ہوئی، جس سے ان کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی۔
یہ حادثہ پیر کے روز ضلع گانچھے کی ہوشے وادی میں پیش آیا، جب لائلہ پیک پر تقریباً 5,700 میٹر کی بلندی پر اچانک چٹانیں گر پڑیں۔
(جاری ہے)
پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر بارش اور تیز ہواؤں کے باعث پرواز نہ کر سکے، جس سے امدادی کارروائیوں میں شدید رکاوٹ پیش آئی۔
بدھ کی صبح بالآخر دو بین الاقوامی ٹیموں نے امدادی مشن کا آغاز کیا۔ ان ٹیموں میں تین امریکی اور ایک جرمن کوہ پیماؤں سمیت چار غیر ملکی کوہ پیماؤں اور دو مقامی پورٹرز بھی شامل تھے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان الپائن کلب کے نائب صدر قرار حیدری نے کہا کہ لاؤرا کی زندہ بچ جانے کی امیدیں " ففٹی ففٹی”تھیں، لیکن یہ بھی امکان تھا کہ آکسیجن کی دستیابی کی صورت میں زخمی کوہ پیما کئی دن تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
تاہم بدھ کی شام ڈالمائر کے انتظامی ادارے نے جرمن خبر رساں ایجنسیوں ڈی پی اے اور ایس آئی ڈی کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔
لاؤرا ڈالمائر کون تھیں؟جرمن اولمپک چیمپئن لاؤرا ڈالمائر کا شمار اس صدی کی کامیاب ترین جرمن بیاتھلون ایتھلیٹس میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 2018 میں جنوبی کوریا کے شہر پیونگ چانگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں دو طلائی تمغے جیتے، جبکہ عالمی چیمپئن شپ میں مجموعی طور پر سات ٹائٹل اپنے نام کیے۔
انہیں 2017 میں ''جرمن ایتھلیٹ آف دی ایئر‘‘ کا اعزاز دیا گیا، تاہم انہوں نےحیران کن طور پر محض 25 برس کی عمر میں مئی 2019 میں پیشہ ورانہ کھیلوں سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اپنے آبائی قصبے گارمش پارٹن کیرشن (باویریا) میں کوہ پیمائی اور اسکیئنگ کی تربیت دینا شروع کر دی۔
ڈالمائر نے کئی مشکل اور خطرناک کوہ پیمائی مشنز میں حصہ لیا، جن میں 2023 میں تاجکستان کی 7,100 میٹر بلند کورژینیوسکایا پیک اور 2024 میں نیپال کا 6,800 میٹر بلند آما دابلام شامل ہیں، جسے انہوں نے خواتین کوہ پیماؤں میں ریکارڈ وقت میں سر کیا۔
ان کے انتظامی ادارے کے مطابق، وہ جون کے آخر سے شمالی پاکستان میں موجود تھیں اور 8 جولائی کو 6,200 میٹر بلند گریٹ ٹرینگو ٹاور کامیابی سے سر کیا تھا۔ ترجمان نے انہیں ایک ‘‘تجربہ کار اور خطرات سے باخبر کوہ پیما‘‘ قرار دیا۔
ادارت: عاطف توقیر