UrduPoint:
2025-06-16@12:58:37 GMT

سعودی عرب میں ٹوئٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

سعودی عرب میں ٹوئٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2025ء) سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ سن 2018 میں گرفتار کیے جانے والے ایک صحافی کو دہشت گردی اور غداری کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔

سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد چالیس سالہ ترکی الجاسر کو ہفتے کے روز موت کی سزا دی گئی۔

سکیورٹی فورسز نے سن 2018 میں الجاسر کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کیا تھا اور ان کا کمپیوٹر اور فون ضبط کر لیے گئے تھے، البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیس کی سماعت کہاں ہوئی اور یہ مقدمہ کب تک چلا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ترکی الجاسر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

(جاری ہے)

عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ

الجاسر نے سن 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ چلایا تھا اور وہ 2011 میں مشرق وسطیٰ کو ہلا دینے والی عرب بہار کی تحریکوں، خواتین کے حقوق اور بدعنوانی پر اپنے مضامین کے لیے معروف تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا موقف

صحافیوں کے تحفظ سے متعلق نیویارک میں قائم ایک ادارے 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) کے مطابق سعودی حکام نے تسلسل سے اس بات کو برقرار رکھا کہ الجاسر پر الزامات کا تعلق سوشل میڈیا ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے معروف تھا، پر ان کی متنازعہ پوسٹ تھیں۔

سعودی عرب: منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایرانیوں کو موت کی سزا

اپنی بعض متنازعہ پوسٹس میں الجاسر نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔ الجاسر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی سے متعلق بعض گروپوں کے بارے میں بھی متعدد متنازعہ مواد پوسٹ کیا تھا۔

سی پی جے کے پروگرام ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا نے موت کی سزا کی مذمت کی اور کہا کہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں احتساب کے فقدان کی وجہ سے سعودی مملکت میں صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے لیے انصاف فراہم کرنے میں عالمی برادری کی ناکامی نے صرف ایک صحافی کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ اس نے "عملاﹰحکمران ولی عہد محمد بن سلمان کو پریس پر ظلم و ستم جاری رکھنے کے لیے حوصلہ دیا ہے۔

"

سعودی عرب: رواں برس ریکارڈ 300 سے زائد افراد کو سزائے موت

سزائے موت کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی ایڈوکیسی گروپ ریپریو میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سیکشن کے سربراہ جید باسیونی نے کہا کہ الجاسر کی موت کی سزا ایک بار پھر یہ ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرنے یا ان پر سوال کرنے کی سزا موت ہے۔

"

باسیونی نے مزید کہا کہ الجاسر پر صحافت کے 'جرم' کے لیے مکمل رازداری کے ساتھ مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا دے دی گئی۔

سعودی عرب: سو سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت، سب سے زیادہ پاکستانی

سعودی عرب کی قاتل ٹیم نے خاشقجی کو استنبول کے قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے ہی اس آپریشن کا حکم دیا تھا، تاہم مملکت کا اصرار ہے کہ محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔

سزائے موت کے لیے سعودی عرب تنقید کی زد میں

انسانی حقوق کے گروپ سعودی عرب میں سزائے موت کی تعداد اور اس کے طریقوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مملکت میں آج بھی موت کی سزا پر عمل سر قلم کر کے کی جاتی ہے اور کئی بار ایسا اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں موت کی سزا کی تعداد بڑھ کر 330 ہو گئی تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کے مطابق مملکت میں اختلاف رائے کو سختی سے دبانے کا عمل بدستور جاری ہے۔

پچھلے مہینے ہی سعودی عرب میں ایک برطانوی بینک آف امریکہ کے تجزیہ کار کو ایک دہائی کی قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو ان کے وکیل کے مطابق بظاہر ان کی سوشل میڈیا پر ڈیلیٹ کی گئی پوسٹ کی وجہ سے تھی۔

سعودی عرب: رواں برس سو سے زائد افراد کے سر قلم کر دیے گئے

سن 2021 میں سعودی اور امریکی، دوہری شہریت رکھنے والے سعد المادی کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں انہیں بھی دہشت گردی سے متعلق الزامات پر 19 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔

انہیں یہ سزا امریکہ میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ٹویٹس کے لیے دی گئی تھی۔ بعد میں انہیں 2023 میں رہا کر دیا گیا، تاہم ان پر مملکت چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موت کی سزا سزائے موت کے مطابق کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

پشاور : تین بچوں کا زیادتی کے بعد قتل، مجرم کو تین بار سزائے موت کا حکم

پشاور میں تین بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم کو عدالت نے تین بار سزائے موت سنادی۔

تین بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے کیسز میں نامزد ملزم کے خلاف مقدمے کی سماعت چائلڈ پروٹیکشن کورٹ میں ہوئی۔

عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مجرم سہیل کو تین بار سزائے موت سنادی۔عدالت نے مجرم کو تین بار عمر قید کی سزا بھی سنائی اور مجموعی طور پر 27 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

پبلک پراسیکیوٹر عارف بلال کے مطابق مجرم سہیل عرف ملنگے نے پشاور کی تین جگہوں پر بچوں کے ساتھ ریپ کیا تھا، مجرم نے ریپ کے بعد تینوں بچوں کو قتل بھی کیا تھا اور یہ واقعات جولائی 2022ء میں پیش آئے تھے۔

مجرم کے خلاف تھانہ شرقی ، تھانہ غربی اور تھانہ گلبرگ میں مقدمات درج کیے گئے تھے، مجرم نے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم بھی کیا تھا،ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہے اور یہ سزاء کا مستحق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پشاور : تین بچوں کا زیادتی کے بعد قتل، مجرم کو تین بار سزائے موت کا حکم
  • پشاور:3 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرم کو 3 بار سزائے موت اور 3 بار عمر قید کی سزا
  • ایران میں موساد کے لیے جاسوسی کرنے والے ایجنٹ کو سزائے موت دے دی گئی
  • سعودی عرب: قدیم سکے فروخت کرنے کی کوشش کرنے والا مقامی گرفتار
  • سعودی ولی عہد اور ایرانی سدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ
  • غداری اور جاسوسی پر سعودی شہری کو سزائے موت
  • سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے رابط
  • سعودی عرب کا ایرانی حجاج کرام کو واپسی تک قیام اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا اعلان
  • ایرانی حجاج کے لیے سعودی عرب کا بڑا اعلان: تمام سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت