سعودی عرب میں ٹوئٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2025ء) سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ سن 2018 میں گرفتار کیے جانے والے ایک صحافی کو دہشت گردی اور غداری کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد چالیس سالہ ترکی الجاسر کو ہفتے کے روز موت کی سزا دی گئی۔
سکیورٹی فورسز نے سن 2018 میں الجاسر کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کیا تھا اور ان کا کمپیوٹر اور فون ضبط کر لیے گئے تھے، البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیس کی سماعت کہاں ہوئی اور یہ مقدمہ کب تک چلا۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ترکی الجاسر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
(جاری ہے)
عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ
الجاسر نے سن 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ چلایا تھا اور وہ 2011 میں مشرق وسطیٰ کو ہلا دینے والی عرب بہار کی تحریکوں، خواتین کے حقوق اور بدعنوانی پر اپنے مضامین کے لیے معروف تھے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا موقفصحافیوں کے تحفظ سے متعلق نیویارک میں قائم ایک ادارے 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) کے مطابق سعودی حکام نے تسلسل سے اس بات کو برقرار رکھا کہ الجاسر پر الزامات کا تعلق سوشل میڈیا ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے معروف تھا، پر ان کی متنازعہ پوسٹ تھیں۔
سعودی عرب: منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایرانیوں کو موت کی سزا
اپنی بعض متنازعہ پوسٹس میں الجاسر نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔ الجاسر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی سے متعلق بعض گروپوں کے بارے میں بھی متعدد متنازعہ مواد پوسٹ کیا تھا۔
سی پی جے کے پروگرام ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا نے موت کی سزا کی مذمت کی اور کہا کہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں احتساب کے فقدان کی وجہ سے سعودی مملکت میں صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے لیے انصاف فراہم کرنے میں عالمی برادری کی ناکامی نے صرف ایک صحافی کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ اس نے "عملاﹰحکمران ولی عہد محمد بن سلمان کو پریس پر ظلم و ستم جاری رکھنے کے لیے حوصلہ دیا ہے۔
"سعودی عرب: رواں برس ریکارڈ 300 سے زائد افراد کو سزائے موت
سزائے موت کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی ایڈوکیسی گروپ ریپریو میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سیکشن کے سربراہ جید باسیونی نے کہا کہ الجاسر کی موت کی سزا ایک بار پھر یہ ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرنے یا ان پر سوال کرنے کی سزا موت ہے۔
"باسیونی نے مزید کہا کہ الجاسر پر صحافت کے 'جرم' کے لیے مکمل رازداری کے ساتھ مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا دے دی گئی۔
سعودی عرب: سو سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت، سب سے زیادہ پاکستانی
سعودی عرب کی قاتل ٹیم نے خاشقجی کو استنبول کے قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے ہی اس آپریشن کا حکم دیا تھا، تاہم مملکت کا اصرار ہے کہ محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔
سزائے موت کے لیے سعودی عرب تنقید کی زد میںانسانی حقوق کے گروپ سعودی عرب میں سزائے موت کی تعداد اور اس کے طریقوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مملکت میں آج بھی موت کی سزا پر عمل سر قلم کر کے کی جاتی ہے اور کئی بار ایسا اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس سعودی عرب میں موت کی سزا کی تعداد بڑھ کر 330 ہو گئی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کے مطابق مملکت میں اختلاف رائے کو سختی سے دبانے کا عمل بدستور جاری ہے۔پچھلے مہینے ہی سعودی عرب میں ایک برطانوی بینک آف امریکہ کے تجزیہ کار کو ایک دہائی کی قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو ان کے وکیل کے مطابق بظاہر ان کی سوشل میڈیا پر ڈیلیٹ کی گئی پوسٹ کی وجہ سے تھی۔
سعودی عرب: رواں برس سو سے زائد افراد کے سر قلم کر دیے گئے
سن 2021 میں سعودی اور امریکی، دوہری شہریت رکھنے والے سعد المادی کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں انہیں بھی دہشت گردی سے متعلق الزامات پر 19 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔
انہیں یہ سزا امریکہ میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ٹویٹس کے لیے دی گئی تھی۔ بعد میں انہیں 2023 میں رہا کر دیا گیا، تاہم ان پر مملکت چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موت کی سزا سزائے موت کے مطابق کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
نواز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز سے سعودی عرب کے سفیر کی ملاقات
سٹی 42 : پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز سے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کی ملاقات ہوئی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور، اقتصادی تعاون، دفاعی شراکت داری اور مسلم امہ کے اتحاد سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نواز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز نے خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیک تمناؤں اور دلی احترام کا پیغام دیا۔ ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی، سیاسی، معاشی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ دفاعی شراکت داری، مشترکہ تربیت، انٹیلی جنس کے تبادلے اور باہمی تعاون کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔
پنجاب حکومت کاصحت کےمنصوبوں میں پرائیویٹ سیکٹرکوشراکت داربنانےکافیصلہ
وزیراعلیٰ مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ سعودی عرب کی سرزمین ہر مسلمان کے دل میں خاص روحانی و قلبی مقام رکھتی ہے۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت مسلم دنیا کے لیے امید، وقار اور ترقی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ باہمی اعتماد، مشترکہ اقدار اور دیرینہ اخوت پر مبنی ہے۔ سعودی عرب سے تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون ہے جو سیاسی،معاشی اور دیگر شعبوں میں مسلسل مضبوط ہو رہا ہے۔
ساف انڈر 17 چیمپئن شپ 2025 کا شیڈول جاری
مریم نواز نے کہا کہ پاکستان نے سعودی قیادت میں گلوبل واٹر آرگانئزیشن کے منشور پر بطور بانی رکن دستخط کیے جو آبی چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کا اظہار ہے۔ سعودی قیادت کا خطے میں امن کے لیے کردار قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارتی جارحانہ اقدامات کے باوجود بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کا خواہاں ہے۔ پاکستان نے 27 جون 2025 کے ثالثی فیصلے نے سندھ طاس معاہدے کی توثیق کی۔ پاکستان، جی سی سی فری ٹریڈ معاہدے کی جلد تکمیل کے لیے سعودی تعاون کا خواہاں ہے ۔
ایاز صادق کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق
وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کا مؤثر پلیٹ فارم ہے۔ سعودی عرب میں مقیم 25 لاکھ پاکستانیوں کی میزبانی پر سعودی حکومت کے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ قونصلر سطح پر قریبی اور مستقل رابطہ حکومتِ پنجاب کی اولین ترجیح ہے ۔