Daily Ausaf:
2025-06-16@14:15:33 GMT

فلسطین سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا مختصر جائزہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کرنے کے حوالے سے برطانیہ کے مسلسل کردار کا ہم مختلف تحریروں میں ذکر کر چکے ہیں، جبکہ امریکہ اسی برطانوی کردار کے تسلسل کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے، ان میں سے ایک تحریر کم و بیش دو عشروں کے بعد ایک بار پھر قارئین کی خدمت میں کچھ ردوبدل کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے جس سے بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے حواریوں کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ پون صدی کے دوران عالمی استعمار کی گرفت دنیا کے معاملات پر جس طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے اور وہ جس دیدہ دلیری اور بے فکری سے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں جبکہ مسلم قیادت جس طرح خوابِ غفلت میں مدہوش دکھائی دے رہی ہے اس پر ہم اپنے جذبات و احساسات عالمِ تصور میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس درخواست کی صورت میں ہی کر سکتے ہیں کہ
اے خاصہ خاصانِ رسل ﷺ وقتِ دعا ہے
امت پر تری آکے عجب وقت پڑا ہے
ایک اخبار نے 5 مارچ 2003ء کو ایک اسرائیلی اخبار کے حوالہ سے خبر دی تھی کہ اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا ہے کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافتِ عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا تھا کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ دراصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے تھا اور اس عالمی پروگرام کا حصہ تھا جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔
آج سے لگ بھگ ڈیڑھ صدی قبل سلطان عبدالحمید (ثانی) خلافتِ عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دارالسلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔سلطان نے انکار کر دیا۔سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے فسلطین میں ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور منہ مانگی رقم کے عوض یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مانگی ۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے نکال دیا ۔
اس کے بعدسلطان کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔
سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور 1924 میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کر لی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر اور اردن کو ’’المملکۃ الہاشمیۃ الاردنیۃ‘‘ کا ٹائٹل دے کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبوتاژ کر دیا گیا۔ جبکہ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے شریفِ مکہ حسین کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ بہت سے فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت مفتیٔ اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی اور ان کی حمایت میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ اسی طرح مفتئ اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے بھی اس کی تائید میں جاری کیا جو ’’کفایت المفتی‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر ہے جس میں اب سے دو عشرے قبل اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فلسطین میں ا باد ہونے ا باد ہونے کی اجازت فلسطین میں ا باد ہو یہودیوں کو فلسطین سلطان عبدالحمید کو فلسطین میں ا جنرل موفاذ نے اور فلسطین عالم اسلام بیت المقدس وزیر دفاع دیا گیا کے خلاف اور ان اور اس کے لیے کے بعد کر دیا کی اور

پڑھیں:

نیدرلینڈزمیں ڈیڑھ لاکھ افراد فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دی ہیگ: نیدرلینڈز میں فلسطینیوں کے حق میں میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے جمع ہوکر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا۔

نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں اتوار کے روز اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں اور ڈچ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ایک بڑے عوامی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں منتظمین کے مطابق 1,50,000 افراد شریک ہوئے۔

احتجاج میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان سب شریک تھے، جنہوں نے سرخ لباس پہن کر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ”ریڈ لائن“ قائم کی۔

مظاہرین نے نعرے بازی کی، تقاریر کیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے مارچ کیا۔ یہ وہی عدالت ہے جہاں جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل غزہ پر حملے بند کرے، انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور عالمی برادری فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرے۔

یاد رہے کہ عدالت نے گزشتہ برس اسرائیل کو جنوبی شہر رفح پر فوجی کارروائی روکنے اور امدادی رسائی کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا، جس پر اسرائیل نے عملدرآمد سے انکار کیا۔

اسرائیل جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور ان کارروائیوں کو اپنے دفاع کا حق قرار دیتا ہے۔

یہ احتجاج ایسے وقت میں ہوا جب غزہ میں جنگ کو 20 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اُس وقت شروع ہوئی جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک کیا اور 251 یرغمال بنا لیے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • نیدرلینڈزمیں ڈیڑھ لاکھ افراد فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے
  • غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی ، مزید 23 فلسطینی شہید
  • جنوبی ایشیاء کے امن کی کنجی مسئلہ کشمیر کے حل میں مضمر ہے؛ سلطان محمود چوہدری
  • مریم نواز کا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے ونڈ انرجی کے لئے امکانات کا جائزہ لینے کا اعلان
  • ایرانی انٹیلی جنس ناکامی کا ممکنہ سبب بھارت ہو سکتا ہے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
  • اسرائیل کا ایران پر حملہ دہشتگردی اور اعلان جنگ ہے، پیر خالد سلطان
  • اسرائیل کی شکست علاقائی امن کے لیے ضروری ہے، سعد رفیق
  • ایران کا بھرپور جواب: اسرائیل دھماکوں سے گونج اٹھا، متعدد یہودی ہلاک،عمارتیں ڈھیر میں تبدیل
  • سمندر کی تہہ میں موجود اربوں ڈالر مالیت کے جہاز سے متعلق دلچسپ انکشاف