(گزشتہ سے ییوستہ)
اسرائیلی ہاروپ ڈرونز،جنہیں ناقابلِ شکست قراردیاگیاتھا،پاکستانی دفاعی قوت کے سامنے ناکام ہوگئے۔پاکستان نے نہ صرف ان ڈرونز کومارگرایابلکہ بھارت میں ان کے آپریٹنگ مراکزکوبھی تباہ کردیا۔اسرائیل کے18ہلاک شدہ ماہرین کی واپسی خفیہ اندازمیں ہوئی،مگر دنیا جان چکی تھی کہ اسرائیل اوربھارت کی عسکری برتری کاافسانہ محض جھوٹ کا غبارہ تھا۔اس شکست کے بعدامریکاکوجنگ بندی کیلئے ہنگامی مداخلت کرنا پڑی،اسرائیل اوربھارت کی اپیل پر امریکانے فوری طورپرثالثی کا کرداراداکرنے کی کوشش کی تاکہ اپنے اتحادیوں کو بچایا جاسکے۔ مگرپاکستان کیلئے یہ تجربہ نیانہ تھا۔1962، 1965، 1999اورپھر 2019کے بعد، ہربار امریکا نے پاکستان کووقتی وعدوں اورلالی پاپوں سے بہلایامگرزمینی حقائق وہی کے وہی رہے۔کشمیرکی صورتِ حال میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آئی بلکہ صورتحال مزید الجھ گئی۔اب امریکانے ایک مرتبہ پھر پاکستان کوکشمیرپرثالثی کالالی پاپ دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکابھارت کوچین کے خلاف بطورایک ’’جوکرکارڈ‘‘استعمال کرنا چاہتا ہے۔کواڈاتحاد میں بھارت کی شمولیت اسی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،لیکن امریکا دوبارہ اس کمزور اور غیر مستحکم شراکت دار پربھروسہ کرنے کی غلطی کررہاہے۔
امریکانے ویتنام، افغانستان، لیبیا، شام، عراق اوراب یوکرین وغزہ میں جو کردار ادا کیا، وہ اس کی ثالثی کی ساکھ پرسنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کومشورہ دیاکہ وہ اپنا20فیصد علاقہ روس کودے دے اوربدلے میں امریکاامن قائم کرے گا۔غزہ میں ثالثی کامطلب یہ تجویزنکلاکہ اگرفلسطینی علاقہ خالی کردیں تو جنگ خودبخودختم ہوجائے گی۔یہ وہ طرزِثالثی ہے جو درحقیقت جبرکی نئی شکل ہے۔
مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کو مسلسل دھمکیاں دینا،اسی پرانے بیانیے کی تجدید ہے جس کے ذریعے بھارت میں ہندوقوم پرستی کو جلادی جاتی ہے۔اس کامقصدصرف الیکشن میں فتح حاصل کرنانہیں،بلکہ چین کے خلاف امریکی منصوبے’’کواڈ‘‘میں بھارت کی فعالیت کویقینی بنانا بھی ہے۔مگرامریکااس حقیقت کو نظرانداز کر رہا ہے کہ بھارت نہ1962 ء میں چین کامقابلہ کرسکا اورنہ آج اس قابل ہے۔ امریکا کا ’’لنگڑا گھوڑا‘‘بھارت اپنی فوجی اورتزویراتی کمزوریوں کے سبب عالمی طاقتوں کے مہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔امریکا کی ماضی کی روش،حالیہ اقدامات اورمستقبل کے اشارے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ عالمی طاقت محض مفادات کی اسیرہے۔اس کے وعدے،معاہدے،اورثالثی کی پیشکشیں صرف وقتی فائدے کیلئے ہوتی ہیں۔وقت آگیاہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرِنوتشکیل دے اورخودانحصاری کی راہ اختیارکرے۔ٹرمپ یاکسی بھی امریکی صدرکی ثالثی پرانحصارکرنااس فریب کے سوا کچھ نہیں کہ ’’وہ سایہ جسے ہم منزل سمجھتے ہیں،سراب نکلتا ہے‘‘۔
اگرفرض کریں کہ امریکاثالثی کے کسی فارمولے پرعملدرآمدکرتاہے،جیسے کہ کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیاجائے،یاگلگت بلتستان پاکستان کودے کرباقی انڈیاکو،یاپورے کشمیر کو غیرمسلح ریاست بنادیاجائے توکیایہ تجاویزکسی فریق کوقابلِ قبول ہوں گی؟اوراگرنہ ہوئیں، تو ٹرمپ کاریچھ نماغصہ کس پرگرے گا؟پاکستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خارجی ثالثی، خصوصاۃ امریکاکی ثالثی،ایک سراب ہے جوہربار مایوسی کی چٹان سے ٹکرا کربکھرجاتاہے۔قوموں کے مسائل دوسروں کے رحم وکرم پرنہیں،اپنی خودی، حکمت اوراستقلال سے حل ہوتے ہیں۔ کشمیرکامسئلہ ہویا کسی اورقومی مفاد کا سوال، پاکستان کواپنی قوتِ فیصلہ،سفارتی حکمت اور اندرونی اتحادکوبنیادبنانا ہوگا کیونکہ ثالثی کی خوش فہمیاں بالآخرقومی وقاراورتاریخی سچائی کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہیں۔
واشنگٹن کی وہی کہانی ہے،جسے ہم باربارنئے کرداروں کے ساتھ دہراتے ہیں۔کل ضیاالحق نے مارشل لاکوجائزدکھانے کیلئے امریکا کی آشیربادلی،آج کوئی اورواشنگٹن کے استقبال پر اپنی سیاست کی قلعی چمکاتاہے۔مگرانکل سام کی انگلی تھامنے والاہرراہرو،بالآخر اس بازارِسیاست میں بے لباس پایاگیاجہاں سودے صرف طاقت کے ہوتے ہیں۔آج بھی اگرٹرمپ کی ثالثی پربھروسہ کیا جائے توممکنہ تجاویزیہی ہوں گی کہ جو کشمیر جس کے پاس ہے،اسے ہی تسلیم کرلو،یااسے پٹے پرہمیں دے دو،بیس سال بعدبات کرنا!کیایہ کسی خودمختار ریاست کیلئے قابلِ قبول ہے؟اوراگرنہ مانا گیاتو؟ٹرمپ کاغصہ،جیساکہ دنیانے دیکھا، ریچھ کے جپھے جیساہوتاہے،جس سے نکلنامحال اورسانس لینادشوار۔
جنہیں سراب دکھاکرخوابوں میں الجھایا جائے،وہ یاتوخام خیالی کے اسیرہوتے ہیں یاتاریخ سے نابلد۔پاکستان کواب یہ تسلیم کرلیناچاہیے کہ مسئلہ کشمیرکاحل نہ توامریکاکے کسی ثالث کے ذریعے ممکن ہے اورنہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے،جب تک قوم خوداپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری،عزم،اورداخلی اتحادپیدانہ کرے۔ امریکاکے ہروعدے میں ایک پنہاں مفاد ہے اورہر ثالثی میں ایک پوشیدہ سودا۔وقت آچکاہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت،دفاعی صلاحیت، اور نظریاتی اساس کے بل پراپنی راہ متعین کرے، بصورت دیگر، ہربارکی طرح تاریخ فقط ایک اور فریب کااضافہ کرے گی۔
آخری بات،مگرسب سے کڑوی ہے کہ قومیں جوخواب بارباردیکھتی ہیں،وہ یاتونشے کی لت بن جاتے ہیں یاپھرمایوسی کی دہلیزپرلے جاکر چھوڑ دیتے ہیں۔ہم نے ہرباریہ گمان کیا کہ کوئی آئے گا، ہمارامقدمہ لڑے گا،ہماری شہ رگ چھڑائے گامگرجوشہ رگ اپنے ہی ہاتھوں کی بے تو جہی سے زخمی ہو،اسے کوئی غیرکیسے سہارادے سکتا ہے؟ تاریخ کے ماتھے پر لکھی تحریرواضح ہے کہ ثالثی کے خواب صرف وہی دیکھتاہے جسے اپنی دلیل،اپنی قوت،اوراپنی حکمت پریقین نہ ہو۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ماضی سے سبق لیں،دوستوں اوردشمنوں کوصرف جذبات کی بجائے حقیقت کی کسوٹی پرپرکھیں اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دیں۔ورنہ ہربارلالی پاپ کی چمکدارپیکنگ میں زہرہمیں چکھناپڑے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کو بھارت کی کی ثالثی
پڑھیں:
مظفرآباد کا رتا قلعہ، ساڑھے 400 سال پرانا تاریخی ورثہ
مظفرآباد کے مرکز میں واقع لال قلعہ، جسے مقامی زبان میں ’رتا قلعہ‘ بھی کہا جاتا ہے، ساڑھے 400 سال پرانا تاریخی قلعہ ہے۔ اس کی بنیاد 1549ء میں چک خاندان نے رکھی، جبکہ بعد ازاں اسے مظفرآباد کے بانی سلطان مظفر خان نے مکمل کروایا۔
یہ قلعہ ڈوگرہ اور سکھ حکمرانوں کے دور میں سیاسی اور دفاعی مرکز کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ 3 اطراف سے دریا سے گھرا یہ قلعہ حسنِ فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں دریا کے گول پتھروں اور ہاتھ سے بنی پختہ اینٹوں کا استعمال کیا گیا۔
قلعے میں کئی زیرِ زمین کمرے، کال کوٹھڑیاں اور 3 بڑے صحن موجود ہیں۔ ماضی میں اس کا رقبہ 59 کنال تھا، جو کم ہو کر اب تقریباً 15 کنال رہ گیا ہے۔
یہ عظیم قلعہ موسمیاتی اثرات جیسے 1992 کے سیلاب اور 2005 کے زلزلے کے باوجود آج بھی اپنی تاریخی شناخت قائم رکھے ہوئے ہے۔
اس قلعے کے بارے میں مزید جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں