بی جے پی بنگالی بولنے والے ہندوستانیوں کو بنگلہ دیشی قرار دے رہی ہے، ممتا بنرجی
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعلیٰ نے بھگوا پارٹی پر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں بنگالی بولنے والوں کے خلاف "وِچ ہنٹ" کا الزام لگایا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلٰی ممتا بنرجی نے بی جے پی پر این ڈی اے حکومت والی ریاستوں میں بنگالی بولنے والے ہندوستانی شہریوں کو بھی بنگلہ دیشی قرار دے کر نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ درست دستاویز رکھنے والوں کو بھی غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن قرار دیا جا رہا ہے۔ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ہنگامہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعلیٰ نے بھگوا پارٹی پر بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں بنگالی بولنے والوں کے خلاف "وِچ ہنٹ" کا الزام لگایا۔ ممتا بنرجی نے کہا "آپ کو شرم آنی چاہیئے کہ آپ حقیقی ہندوستانی شہریوں کو صرف اس وجہ سے بنگلہ دیشی قرار دے رہے ہیں کہ وہ بنگالی بولتے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ ہر بنگالی بولنے والے کو اس پر اسی طرح فخر ہے جیسے کہ گجراتی، مراٹھی یا ہندی بولنے والوں کو۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں ان تمام زبانوں میں بات کر سکتی ہوں۔
 
 ممتا بنرجی نے مزید کہا کہ ایک طرف آپ ہندوستانیوں کو ان کی زبان کی وجہ سے بنگلہ دیشی قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف آپ ان لوگوں کو جن کے پاس ووٹر آئی ڈی، پین کارڈ اور آدھار کارڈ ہیں، ان کو اپنی ریاستوں میں روزی روٹی کمانے کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ ممتا بنرجی کے اس بیان پر بی جے پی اراکین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، تاہم انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے بھارتی حکومت پر فنڈز کو روکنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے سوتیلی ماں کے سلوک کے باوجود، ریاست نے پاٹھ شری کے تحت 69,000 کلومیٹر سڑکیں بچھائی ہیں اور 11,000 کروڑ روپے سے آواس یوجنا شروع کی ہے۔
 
 انہوں نے دعویٰ کیا کہ مالی بحران کے باوجود ریاست میں لوگوں کو اوسطاً 50 دن کا روزگار مل رہا ہے اور ان کی حکومت نے مختلف اسکیموں کے تحت 1.                
      
				
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بنگلہ دیشی قرار دے انہوں نے کہا کہ ممتا بنرجی نے ریاستوں میں کا الزام کہا کہ ا بی جے پی رہے ہیں
پڑھیں:
بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی ایڈوائزری کونسل نے ملک میں جاری سیاسی اختلافات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں آئندہ ایک ہفتے میں جولائی نیشنل چارٹر اور مجوزہ آئینی اصلاحات پر اتفاق نہ کر سکیں، تو حکومت خودمختارانہ طور پر فیصلہ کرے گی۔
یہ اعلان پیر کے روز چیف ایڈوائزر کے دفتر (تیجگاؤں، ڈھاکا) میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے قانونی مشیر پروفیسر آصف نذرل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت ’خود اپنا راستہ اختیار کرے گی۔‘
اجلاس میں دیگر مشیروں میں محمد فوزالکبیر خان، عادل الرحمان خان اور پریس سیکریٹری شفیع الحق عالم بھی شریک تھے۔
سیاسی پس منظر اور تنازعہ کی نوعیتگزشتہ ہفتے نیشنل کنسینس کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی آرڈر جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق، اگر ریفرنڈم کامیاب ہوتا ہے تو آئندہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیمی ادارہ کے طور پر تشکیل دیا جائے گا، جو 270 دن کے اندر اصلاحات مکمل کرے گی۔
تاہم ریفرنڈم کے انعقاد کے وقت پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ بعض جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم عام انتخابات کے ساتھ کرایا جائے، جبکہ دیگر جماعتیں اسے انتخابات سے قبل منعقد کرنے کی حامی ہیں۔ یہی اختلافات عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
پروفیسر آصف نذرل کا بیانپروفیسر نذرول نے کہا ’ہم کوئی الٹی میٹم نہیں دے رہے، بلکہ مکالمے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق پر نہیں پہنچتیں تو حکومت اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گی۔‘
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مزید مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
’ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام جمہوری اور اینٹی فاشسٹ جماعتیں مل بیٹھ کر رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے پاس تعاون اور مفاہمت کی طویل تاریخ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پہلے سے طے شدہ نکات سے مختلف ہیں، تو پروفیسر نذرل نے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم امید کرتے ہیں کہ جماعتیں خود اپنے اختلافات حل کریں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘
انتخابات کے شیڈول کی تصدیقایڈوائزری کونسل نے اس بات کی بھی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ قومی انتخابات فروری 2026 کے اوائل میں منعقد کیے جائیں گے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر فریقین کے درمیان آئندہ چند دنوں میں اتفاق نہ ہوا تو عبوری حکومت کا یکطرفہ اقدام ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں