وسائل کی کمی دنیا کے کئی علاقوں میں قحط کے بڑھتے خطرے کا سبب
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 جون 2025ء) دنیا میں بھوک سے متاثرہ پانچ علاقوں میں لوگوں کو قحط اور موت کا خطرہ لاحق ہے جس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امدادی اقدامات کے ساتھ جنگوں کو روکنے اور نقل مکانی کی وجوہات کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ سوڈان، فلسطین، جنوبی سوڈان، ہیٹی اور مالی کو بھوک کا شدید بحران درپیش ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔
رسائی میں حائل رکاوٹوں اور امداد کی قلت کے باعث یہ بحران بگڑتے جا رہے ہیں۔ Tweet URLیہ رپورٹ خوراک کے بگڑتے بحران کے حوالے سے آئندہ پانچ ماہ کے لیے پیش گوئی پر مبنی اور بروقت انتباہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(جاری ہے)
اسے یورپی یونین کی مالی مدد سے 'غذائی بحرانوں کے خلاف عالمگیر نیٹ ورک' کے ذریعے شائع کیا گیا ہے جس میں 13 ممالک اور علاقوں میں شدید غذائی عدم تحفظ کی صورتحال بیان کی گئی ہے جو آئندہ مہینوں میں ممکنہ طور پر بھوک کے بدترین بحران کا سامنا کریں گے۔لاکھوں لوگوں کے لیے ہنگامی مسئلہرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں ممالک کے علاوہ یمن، جمہوریہ کانگو، میانمار اور نائجیریا میں بھی بھوک کا بحران شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے جہاں لوگوں کی زندگیوں اور روزگارکو تحفظ دینے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
دیگر ممالک میں برکینا فاسو، چاڈ، شام اور صومالیہ شامل ہیں۔'ایف اے او' کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو نے کہا ہے کہ بھوک لاکھوں لوگوں کے لیے ایسا ہنگامی مسئلہ بن گئی ہے جس کا انہیں روزانہ سامنا ہوتا ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے سبھی کو متحد ہو کر فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس ضمن میں لوگوں کے کھیتوں اور مویشیوں کو تحفظ دینا ہو گا تاکہ وہ مشکل اور سخت ترین ماحول میں بھی خوراک پیدا کر سکیں۔
'ڈبلیو ایف پی'کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مکین نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ایک کڑا انتباہ ہے۔ بھوک پھیلنا ڈھکی چھپی بات نہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ کون لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار ذرائع اور تجربہ موجود ہیں لیکن مالی وسائل اور رسائی کی عدم موجودگی میں زندگیوں کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ مزید تباہ کن بھوک کو روکنے کی گنجائش تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور ایسے حالات میں پائیدار سرمایہ کاری، غذائی امداد اور بحالی میں مدد دینا بہت ضروری ہے۔
تباہ کن بھوک کا شکار ممالکسوڈان میں گزشتہ سال قحط کی تصدیق ہوئی تھی۔ ملک میں جاری جنگ اور نقل مکانی کے باعث آئندہ مہینوں میں یہ صورتحال جاری رہنے کا خدشہ ہے۔بالخصوص کردفان اور ڈارفر کے خطوں میں حالات کہیں زیادہ مخدوش ہیں۔ ملک کے معاشی انہدام کا خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے جبکہ مہنگائی کے باعث خوراک تک لوگوں کی رسائی میں متواتر کمی آ رہی ہے۔
مئی میں دو کروڑ 46 لاکھ لوگوں کے بحرانی درجے کی بھوک کا شکار ہونے کے بارے میں بتایا گیا تھا جبکہ چھ لاکھ 37 ہزار کو تباہ کن درجے کی بھوک کا سامنا تھا۔
غزہ میں قحط پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے جہاں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے نتیجے میں لوگوں کو غذائی و غیرغذائی امداد فراہم کرنے کی کوششوں میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔ خوراک کی انتہائی بلند قیمتوں اور تجارتی سامان کی آمد پر پابندی نے اس بحران کو اور بھی شدید بنا دیا ہے۔
ستمبر تک غزہ کی تمام 21 لاکھ آبادی کو بحرانی یا شدید درجے کی بھوک کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ چار لاکھ 70 ہزار لوگوں کے تباہ کن بھوک کا شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔رپورٹ کے مطابق، جنوبی سوڈان میں تقریباً 77 لاکھ لوگوں یا 57 فیصد آبادی کو جولائی تک شدید درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ 63 ہزار لوگ تباہ کن بھوک کے دھانے پر ہیں اور ملک کے دو علاقوں میں قحط پھیلنے کا خطرہ ہے۔
ہیٹی میں جرائم پیشہ مسلح جتھوں کے تشدد اور عدم تحفط کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد اپنے گھروں اور علاقوں سے نقل مکانی کر رہی ہے جہاں دارالحکومت پورٹ او پرنس میں اندرون ملک بے گھر ہونے والے 8,400 لوگوں کو تباہ کن درجے کی بھوک کا سامنا ہے۔
افریقی ملک مالی میں اناج کی بلند ہوئی قیمتوں اور مسلح تنازع کے نتیجے میں لوگوں کو بڑھتی ہوئی بھوک کا سامنا ہے۔
اگست تک 2,600 لوگوں کے لیے تباہ کن درجے کی بھوک کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔خانہ جنگی، نقل مکانی اور مہنگائیجمہوریہ کانگو کو دوسری مرتبہ اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں حالیہ مہینوں کے دوران سرکاری فوج اور باغی گروہوں کے مابین لڑائی میں شدت آ چکی ہے۔
ایتھوپیا، کینیا، لبنان، لیسوتھو، ملاوی، موزمبیق، نمیبیا، نیجر، زیمبیا اور زمبابوے ایسے ممالک کی فہرست سے نکل گئے ہیں جنہیں آئندہ مہینوں میں بھوک کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جنوبی اور مشرقی افریقہ بشمول نیجر میں بہتر موسمیاتی حالات کے نتیجے میں غذائی تحفظ پر دباؤ میں کمی آئی ہے۔ تاہم دونوں اداروں نے متنبہ کیا ہےکہ یہ حالات منفی طور پر تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، میانمار میں حالیہ زلزلوں کے نتیجے میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ خانہ جنگی، بڑے پیمانے پر نقل مکانی، کڑی پابندیوں اور بلند قیمتوں کے باعث خوراک تک لوگوں کی رسائی محدود ہو رہی ہے۔
بھوک سے متاثرہ بہت سے ممالک میں امداد کی فراہمی کو عدم تحفظ، افسرشاہی کی رکاوٹوں یا رسائی کے مسائل کا سامنا ہے۔ وسائل کی قلت کے باعث بہت سی جگہوں پر لوگوں کو دی جانے والی غذائی امداد، غذائیت کی فراہمی اور زرعی شعبے میں مہیا کی جانے والی مدد میں بھی کمی آ گئی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے درجے کی بھوک کا بھوک کا سامنا کے نتیجے میں میں لوگوں کو کا سامنا ہے علاقوں میں نقل مکانی لوگوں کے لوگوں کی سامنا ہو کا خدشہ ہے جہاں ہے جبکہ کا خطرہ کے باعث گیا ہے رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان: یو این ادارہ غذائی قلت کا شکار 80,000 بچوں کو علاج میں مدد دے گا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 جون 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) رواں سال پاکستان میں انتہائی شدید غذائی قلت کے شکار پانچ سال سے کم عمر کے 80 ہزار بچوں کے علاج میں مدد فراہم کرے گا اور ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ ماؤں اور آیاؤں کو بچوں کی صحت کے حوالے سے مشاورت مہیا کی جائے گی۔
پاکستان میں غریب خاندانوں کی مالی مدد کے لیے چلائے جانے والے 'بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام' (بی آئی ایس پی) کے اشتراک سے 'ڈبلیو ایچ او' ملک میں دو سال سے کم عمر کے ایسے 43 ہزار بچوں کے لیے علاج کی خدمات مہیا کر رہا ہے جو انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں۔
یہ مدد ملک بھر میں پھیلے 169 غذائیت مراکز کے ذریعے دی جا رہی ہے۔دونوں اداروں نے ان خدمات کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے گزشتہ دنوں 'بی آئی ایس پی' کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور ملک میں 'ڈبلیو ایچ او' کے نمائند ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے دارالحکومت اسلام آباد کے گورنمنٹ پولی کلینک میں ملاقات کی۔
(جاری ہے)
اس موقع پر روبینہ خالد نے کہا کہ 'ڈبلیو ایچ او' کے تعاون سے غذائیت کی فراہمی کے پروگرام کو مزید وسعت بھی دی جائے گی۔
اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو تحفظ مہیا کرنے کے لیے عوامی آگاہی کے پروگرام شروع کیے جائیں گے اور لوگوں کو ضروری مشاورت دینے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔98 فیصد کامیاب علاجبچوں کی بڑھوتری میں رکاوٹ اور غذائیت کی کمی سے جنم لینے والے جسمانی مسائل پر قابو پانے کے لیے 'بی آئی ایس پی' کے اقدامات کے تحت 'ڈبلیو ایچ او' نے 2022 سے اب تک 46 ہزار بچوں کا علاج کیا اور 64 ہزار ماؤں اور آیاؤں کو مشاورت مہیا کی ہے۔
رواں سال 199 مراکز پر یہ خدمات فراہم کی جائیں گی جن میں 169 'بی آئی ایس پی' کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔غذائیت کے مراکز پر 98 فیصد بچوں کا علاج کامیاب رہا جبکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق یہ شرح کم از کم 75 فیصد ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر ڈا پنگ لو نے کہا ہے کہ یہ شرح موثر اقدامات کوظاہر کرتی ہے لیکن ایک بھی زندگی کو غذائیت کی کمی کے باعث ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادارہ ہر بچے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے 'بی آئی ایس پی' کے ساتھ اشتراک کو وسعت دینے کا عزم رکھتا ہے۔ اس میں موسمیاتی تبدیلی جیسے نئے مسائل سے نمٹنا بھی شامل ہے جس کے باعث پاکستان میں شدید غذائی قلت کا مسئلہ بگڑ رہا ہے۔
بے عملی کی بھاری قیمت'ڈبلیو ایچ او' پاکستان میں قومی و صوبائی سطح پر سرکاری اداروں، طبی مراکز اور عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) کے تعاون سے غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کی بروقت نشاندہی کے لیے کام کرتا ہے۔
'ڈبلیو ایف پی' بچوں میں اس مسئلے کی روک تھام کے اقدامات اٹھاتا ہے اور جب کہیں بچوں یہ مسئلہ انتہائی شدت سے ظاہر ہو تو 'ڈبلیو ایچ او' ان کا علاج کرواتا ہے جبکہ کم شدت کے مسائل پر یونیسف کی مدد سے قابو پایا جاتا ہے۔
لوگ اپنے بچوں میں غذائیت کی کمی کا علاج کرانے کے لیے انہیں براہ راست اپنے قریب ترین غذائیت مرکز پر بھی لے جا سکتے ہیں۔پاکستان کا شمار ایسے 10 ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے نصف سے زیادہ بچے بڑھوتری کے مسائل یا کم وزنی کا شکار ہیں۔ ملک میں اس عمر کے بچوں میں عدم بڑھوتری کی شرح 40 فیصد اور کم وزنی یا کمزور کی شرح 17.7 فیصد ہے۔
'ڈبلیو ایچ او' نے کہا ہے کہ اس معاملے میں بے عملی کی قیمت بچوں کی نگہداشت اور علاج پر اٹھنے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث غذائیت کی شدید کمی کا مسئلہ بگڑ رہا ہے اور 2030 تک پائیدار ترقی کے متعلقہ اہداف کے حصول میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ ان حالات میں ملک کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کے 6.4 فیصد کے برابر ہے۔