چین ایٹمی ہتھیاروں میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے‘ تھنک ٹینک کی رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ (مانیٹرنگ ڈیسک ) بین الاقوامی سیکورٹی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو 2025 ء کے اوائل تک تقریباً 600 جوہری وارہیڈز تک پہنچ چکا ہے۔ ترکیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی ) نے اپنی سالانہ رپورٹ ’ سِپری ائر بک 2025’ میں کہا ہے کہ چین کا جوہری ذخیرہ 2023 سے ہر سال تقریباً 100 وارہیڈز کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ادارے نے خبردار کیا کہ اسلحہ کنٹرول کے عالمی معاہدوں کے کمزور ہونے کے باعث ایک نئی اور خطرناک جوہری دوڑ جنم لے رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2025 ء تک چین نے تقریباً 350 نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) سائلوز تیار کر لیے یا ان کی تکمیل کے قریب ہے اور ممکنہ طور پر دہائی کے اختتام تک چین کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل سائلوز کی تعداد روس یا امریکا کے برابر پہنچ سکتی ہے تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر چین 2035 ء تک 1500 جوہری وارہیڈز تک بھی پہنچ جائے، تو بھی یہ روس اور امریکا کے موجودہ ذخائر کا صرف ایک تہائی ہوگا۔بیجنگ نے کہا ہے کہ وہ ایک’ اپنے دفاع پر مبنی’ جوہری حکمت عملی پر عمل کرتا ہے۔چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جیاکن نے بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ چین ہمیشہ اپنی جوہری صلاحیتوں کو قومی سلامتی کی ضروریات کے مطابق کم سے کم سطح پر رکھتا ہے اور ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بیجنگ ہمیشہ اور کسی بھی حالات میں جوہری ہتھیاروں کے پہلے استعمال سے گریز کی پالیسی پر کاربند ہے اور غیر جوہری ریاستوں کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ چین ’ واحد جوہری ریاست ہے، جس نے ایسی پالیسی اپنائی ہے’ اور بیجنگ ’ اپنے جائز سلامتی مفادات کے تحفظ اور دنیا میں امن و استحکام قائم رکھنے کے لیے پرعزم رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ چین
پڑھیں:
روس یوکرین جنگ: روسی فوجی تیزی سے ایڈز کا شکار ہونے لگے، ہولناک اسباب کا انکشاف
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے جہاں بے شمار انسانی اور معاشی نقصانات کو جنم دیا ہے، وہیں اب ایک اور خطرناک انسانی بحران جنم لیتا دکھائی دے رہا ہے۔ روس میں ایچ آئی وی (HIV) کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، خاص طور پر روسی فوجی اہلکاروں میں۔
روس کی وزارتِ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے پہلے سال کے دوران فوج میں ایچ آئی وی کی شرح 40 گنا تک بڑھ گئی۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا آئندہ کئی دہائیوں تک ملک کی معیشت، آبادی اور دفاعی صلاحیت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔
روس میں ایچ آئی وی کی موجودہ صورتحالروس میں 2016 میں ہی ایچ آئی وی متاثرہ افراد کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔
یہ تعداد روس کی کل آبادی کا تقریباً 1 فیصد بنتی ہے، جب کہ کارآمد (working age) افراد میں یہ شرح 1.5 سے 2 فیصد کے درمیان ہے۔
یہ بھی پڑھیے ایڈز کے خاتمے کے لیے عالمی اتحاد کی تجاویز کیا ہیں؟
یہ اعداد و شمار ان افراد کے علاوہ ہیں جنہوں نے کبھی ٹیسٹ ہی نہیں کروایا۔
علاج کی قلت اور ادویات کی عدم دستیابیایچ آئی وی کا جدید علاج یعنی اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (ART) مہنگا ہوتا ہے، اور جنگ سے پہلے ہی روس کے صرف چند ترقی یافتہ علاقے اسے مکمل طور پر برداشت کر سکتے تھے۔
وزارتِ صحت نے سستے روسی جنرک دواؤں پر انحصار شروع کیا، لیکن اس سے دوائیوں کی دستیابی میں مزید خلل پیدا ہوا۔
یہ بھی پڑھیے سال 2029 تک ایڈز سے مزید 40 لاکھ افراد کی موت کا خدشہ، وجہ کیا ہے؟
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ روس میں ایچ آئی وی مریضوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم افراد علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔
جنگی حالات اور ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں تعلقماہرین کا کہنا ہے کہ فرنٹ لائن پر خون کی منتقلی، آلودہ آلات اور سرنجوں کا دوبارہ استعمال ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے بڑے اسباب ہیں۔ مزید برآں:
فوجی جوان جو ART کا باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں وہ وائرس کو آگے منتقل نہیں کرتے، لیکن خندقوں اور محاذ پر موجودگی کے باعث دواؤں کی بروقت فراہمی ممکن نہیں۔
غیر منظم علاج وائرس کو نئی دواؤں کے خلاف مزاحمتی (drug-resistant) بنا دیتا ہے، جو مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔
سول سوسائٹی اور این جی اوز پر کریک ڈاؤنجنگ کے دوران روس میں سول سوسائٹی پر بڑھتی ہوئی قدغنوں کے سبب ایچ آئی وی سے متعلق فلاحی ادارے تقریباً مفلوج ہو چکے ہیں۔
ایلٹن جون فاؤنڈیشن، جو دنیا کا سب سے بڑا ایچ آئی وی سے متعلق ادارہ ہے، کو ’غیر پسندیدہ تنظیم‘ قرار دیا گیا۔
اس کے بعد سے مقامی این جی اوز نے بین الاقوامی معاونت لینا بند کر دی۔
ساتھ ہی LGBTQ+ کمیونٹی کو انتہا پسند گروہ قرار دینے سے ایچ آئی وی اور جنسیت سے متعلق امتیاز اور نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا انتباہایپی ڈیمیالوجسٹوں کے مطابق، اگر روس میں ایچ آئی وی پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ وبا صرف فوجی حلقوں تک محدود نہ رہے گی بلکہ عام آبادی کو بھی تیزی سے متاثر کرے گی، اور اس کے اثرات مستقبل میں روس کی افرادی قوت اور معیشت پر تباہ کن ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے بلوچستان میں ایڈز کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ، مہلک بیماری کیوں پھیل رہی ہے؟
ایچ آئی وی کوئی ناقابل علاج بیماری نہیں رہی، لیکن سیاسی عدم توجہی، جنگی ترجیحات اور صحت عامہ کے نظام کی تباہی نے روس کو ایک بڑی انسانی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جب تک حکومت سنجیدہ اصلاحات اور بین الاقوامی معاونت کو قبول نہیں کرے گی، اس وبا پر قابو پانا ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایڈز روس یوکرین جنگ روسی فوج