آج کا اظہاریہ معمول سے ہٹ کر ہے یہ سوچ کے عمل کا شاخسانہ ہے۔ جو اس عمر رفتہ کا لازمہ ہے کہ ہم جو الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کے معنی پر سرسری توجہ دے رہے ہوتے ہیں ان کے ہر رخ اور اس رخ کے معانی کو ادراک کی غرض سے ماورا رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ہر لفظ کے اپنے معنی اور اپنے نفسیاتی عوامل ہوتے ہیں ۔تمہید کو مختصر کرکے موضوع کا احاطہ کرتے ہیں ۔مثلاً ’’غیب‘‘ اور ’’غائب‘‘دونوں عربی نژاد لفظ ہیں، لیکن ان کے معنی اور استعمال میں واضح فرق ہے ۔’’غیب‘‘ ایسا چھپا ہوا یا غیر مرئی (unseen) وجود جو انسانی آنکھ سے مخفی ہو اورجسے حواس سے محسوس نہ کیا جا سکے ۔مذہبی اور فلسفیانہ اصطلاح کے طور پر اللہ،فرشتے ،جنت ،دوزخ اور مستقبل کے حالات جیسے امور کو ’’عالم الغیب‘‘کہا جاتا ہے۔استعمال، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔’’محبت‘‘ متوازن اور پر سکون جذبہ ہے جو عزت ،خیال اور وابستگی پر مشتمل ہوتا ہے۔محبت میں عقل اور شعور شامل ہوتے ہیں ،یعنی یہ جذبات کے ساتھ سوچ اور سمجھ کا بھی تقاضا کرتی ہے ۔اس سے مراد فقط رومان نہیں ہوتے بلکہ والدین ،دوستوں ،بہن بھائیوں اور خدا سے بھی کی جاتی ہے ۔’’عشق ‘‘محبت کی انتہا جو دیوانگی،جنون اور خود فراموشی کی کیفیت میں بدل جاتا ہے۔عشق میں اکثر عقل کم اور جذبات زیادہ کارفرما ہوتے ہیں جو بعض اوقات انسان کو خود سے لاپروا کردیتا ہے ۔یہ عام طور پر رومانی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ مجازی (انسان سے) اور حقیقی یعنی(خدا سے)کیا جاتا ہے ۔مجنوں کا لیلی سے عشق(مجازی)صوفیا کرام عشق الٰہی(حقیقی) میں اپنی ہستی مٹا لیتے ہیں۔’’عجز‘‘ اپنی ذاتی کمزوری ،،بے بسی ناتوانی خود کو مٹا لینے کاجذبہ جو عام طور پر اللہ کے حضور فریاد کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور بندوں کے ساتھ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر ہونا مراد ہے۔یعنی اپنی کم مائیگی کی انتہا۔’’انکسار‘‘ نرمی ،عاجزی اور خاکساری۔اس کا زیادہ تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک، شائستگی و مہذب رویئے اور متواضع طریقے سے پیش آنا۔
کسی بڑی سے بڑی کامیابی پربھی عجز میں فرق نہ ہونا ،عزت ،دولت اور شہرت رکھنے کے باوصف انکسار برقرار رکھنا حقیقی عظمت کی علامت گردانا جانا۔عجزو انکسار میں بنیادی فرق ،عجز زیادہ تر اللہ کے حضور اپنی بے کسی ، محتاجی اور کمزوری کا اعتراف ہے۔انکسار زیادہ تر بندوں کے سامنے یا ساتھ نرمی ،عاجزی اور خاکساری کا اظہار ہے۔عجز میںمحتاجی غالب ہوتی ہے جبکہ انکسار میں احترام و اکرام اور محبت و وقار کا غلبہ ہوتا ہے۔عجز بندگی کی علامت ہے اور انکسار کے معنی ہیں حسن سلوک۔’’جدائی اور فراق‘‘ دونوں ہم معنی ہیں یعنی الگ ہونا،بچھڑنا یا دوری ۔ لیکن ان کے مفہوم میں شدت اور شدت کے استعمال میں فرق ہوتا ہے ۔مثلا ًجدائی، کسی سے الگ ہوجانا یا کسی سے جدا ہونا مستقل یا وقتی۔جدائی میں اتنی شدت یا گہرائی نہیں ہوتی جتنی فراق میں ہوتی ہے۔’’فراق‘‘ فراق کے معنی ہیں شدید جدائی کا غم جس کی وجہ سے دل میں درد محسوس کرنا۔فراق ظاہری دوری نہیں ہوتی بلکہ جذبات و احساسات میں تکلیف کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔لفظ فراق محبت ،عشق یا کسی قریبی شخص کے بچھڑنے کے بعد جس کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مثلاً محبو ب کے فراق کی راتیں بہت کٹھن ہوتی ہیں ۔ فراق زدہ آدمی کی زندگی ویران ہوجاتی ہے۔صوفی شعرا فراق کی کیفیت میں شاعری کرتے ہیں ۔’’مختلف‘‘ اور ’’متفرق‘‘ دونوں کاتعلق تنوع یا فرق سے ہے ، مگر ان کے مفہوم اور استعمال میں نمایاں فرق ہے ۔’’مختلف ‘‘ ایسا جو ایک جیسا نہ ہو،ایک دوسرے سے الگ یا جدا ہو،یہ عام طور پر موازنہ یعنی(Comparison)کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مثلا ً ہر انسان کی سوچ اور خیالات مختلف ہوتے ہیں یا فلاں اور فلاں کی عادات مختلف ہیں ۔ ’’متفرق‘‘ بکھری ہوئی ،بے ربط (unrelated) متفرق کا مطلب ہے مختلف النوع یا بے ترتیب چیزوں کا مجموعہ جو عام طور پر بے ترتیب اور غیر مربوط اشیا ء کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مثلاً کتاب متفرق موضوعات پرمشتمل ہے۔مختلف زیادہ واضح فرق کو ظاہر کرتا ہے اور متفرق زیادہ اور بے ترتیب چیزوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
’’مذہب‘‘ اور ’’دین‘‘ اکثر ایک ہی معنی میں استعمال کئے جاتے ہیں، لیکن ان کے بیچ کچھ بنیادی فرق موجود ہے ۔’’مذہب‘‘ ایک رسمی ، نظریاتی اور اعتقادی نظام ۔جو مخصوص عقائد ، عبادات اور رسوم و رواج پر مشتمل ہوتاہے۔ مذہب کا تعلق عام طور پر عبادات ،رسومات اور روحانی عقائد سے ہوتا ہے۔مثلا: اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے ۔ہر مذہب کی اپنی مخصوص عبادات اور طریقے ہوتے ہیں ۔’’دین‘‘ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مکمل ضابطہ حیات یا زندگی گزارنے کا کامل نظام ۔ یہ فقط عقائد اور عبادات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معیشت، سیاست، معاشرت،عدل،اخلاقیات اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے ۔اسلام کو اس لئے دین سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ زندگی کے ہر ہر پہلو کے لئے رہنمائی مہیا کرتا ہے۔مذہب اور دین میں یہی فرق ہے کہ مذہب عقائد تک محدود ہوتا ہے دین میں آفاقیت ہوتی ہے۔’’دنیا‘‘ اور’’کائنات‘‘ دونوں الفاظ عام طور پر وسیع پیمانے پر موجود حقائق کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کے مفہوم ،دائرہ کار اور استعمال میں نمایاں فرق ہے ۔’’دنیا‘‘ زمین اور اس پر بسنے والی زندگی۔
دنیا فقط مادی اور انسانی زندگی تک محدود ہوتی ہے اور عارضی سمجھی جاتی ہے۔دنیا میں اشیا ء بدلتی رہتی ہیں یا دولت ،شہرت اور محبت نے اسے دنیا کی حقیقت بھلا دی جیسی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ ’’کائنات‘‘ کائنات سے مراد ہر وہ چیز جو موجود ہے ،چاہیے وہ زمین پر ہو یا خلا میں ۔ اس میں ستارے ،سیارے ،کہکشائیں، اوروہ سب کچھ شامل ہوتا ہے جو کائناتی نظام کا حصہ ہے ۔یہ دنیا سے بہت زیادہ وسیع ہے اوراس کا دائرہ کار سائنسی اور فلکیاتی تحقیق میں بھی آتا ہے۔دنیا عارضی اور محدود ہے جبکہ کائنات پوری کی پوری مادی اور غیر مادی حقیقت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس میں دنیا محض ایک چھوٹا ساحصہ ہے ۔اگر ہم الفاظ و معنی کے رشتوں کی تلاش میں نکلیں تو زندگیاں بیت جائیں مگر یہ دنیا اور کائنات کے فرق کی طرح ہم ناپ نہیں پائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتا ہے مثلا استعمال میں لیکن ان کے معنی ہیں ہوتے ہیں ہوتی ہے جاتا ہے کے معنی فرق ہے اور اس ہے اور
پڑھیں:
سوشل میڈیا کا استعمال
ہماری قوم کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے جدید ذرایع اور ٹیکنالوجی کا منفی استعمال کیا ہے۔ جس کی بدولت ہم انحطاط کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے معاشرتی بگاڑ بھی پیدا ہورہا ہے۔ بعض ایسی ایپلی کیشن بھی ہیں کہ اس پر نوجوان لڑکے خصوصاً لڑکیاں صرف پندرہ بیس سکینڈ کی وڈیو پیش کرتے ہیں، شئیر کر کے مشہور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور لایعنی شہرت کے دلدادہ بننا چاہتے ہیں۔
اس طرح سوشل میڈیا نوجوان نسل میں نشے کی طرح پنپ رہا ہے ،ایسی ایپلی کیشن انٹرنیٹ پر دنیا کی مشہور ترین ایپلیکیشن بن گئی ہیں۔ یہ ایپلی کیشن نوجوانوں بلکہ نوجوان لڑکیوں میں اس لیے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ اس کے ذریعے آسانی سے خود نمائی کی حرکتیں دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہیں اور صارفین کے دل لبائے جاتے ہیں۔
جس کے ردعمل میں صارفین کی طرف سے اس پر کمنٹس کی بھرمار ہوجاتی ہے اور بعض صارفین پرائیوٹ رابطہ نمبر اور نازیبا تصویروں کی فرمائش بھی کرتے ہیں جو اصلاح معاشرہ کے بجائے ہمارے معاشرے کو ہر نئے دن کے ساتھ بگاڑ اور تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور معاشرے کے افراد خاموشی سے اس سمندر میں ڈوبے جا رہے ہیں۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس لاعلاج بیماری میں صرف نوجوان لڑکیاں ہی نہیں، بلکہ ادھیڑ عمر بوڑھے، بوڑھی خواتین، بچے، بہن بھائی، ماں باپ اور دیگر افراد بھی دیوانے ہو رہے ہیں۔ بعض لوگ کچھ غیر اخلاقی اور غیر سنجیدہ وڈیوز بناکر لوگوں میں شیئر کرتے ہیں، جس سے بیہودگی اور زیادہ بڑھ رہی ہے۔
ایسی وڈیو شئیر ہو رہی ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں چھوٹی عمر کے طلباء اور طالبات کلاس روم میں ڈانس کررہے ہیں اور تعلیمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
باپ کے ساتھ یا اس کی موجودگی میں کم سن لڑکیاں اور لڑکے ناچ رہے ہیں اور والدین فخر کر رہے ہیں۔ نوجوان نسل میں سوشل میڈیا پر وڈیوز بنانے اور اس میں ایڈونچر شامل کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، تاکہ لائکس کمنٹس ویوز زیادہ ملیں۔ آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں وڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا، وڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا، سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا، ریل کی پٹری پر وڈیو بنانا اور حادثاتی طور پر ٹرین کی زد میں آ جانا، ویوز لائک کمنٹس کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے انتقامی کارروائی کرنا۔
اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی لوگ نہروں میں، سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے ہوئے حادثات کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔ غرض یہ کہ لوگ کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی وڈیو زیادہ بناتے ہیں۔ ایسی وڈیو بنانے کے باعث ملک بھر میں لڑکیوں سمیت درجنوں نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بیشتر صارفین تفریح اور شغل کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ نوجوان نسل کی تباہی کا ایک ایسا مہلک ہتھیار ہے جو غیر ارادی طور پر ان کے ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ اخلاقی زوال کا سبب بھی بنتا جا رہا ہے۔
صارفین اپنا زیادہ تر وقت وڈیوز اپ لوڈ کرنے اور دیکھنے میں صرف کرتے ہیں جس سے ان کا تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ اسمارٹ سوشل ویب سائٹ کے مطابق اس طرف نوجوان نسل کے بڑھتے ہوئے رجحان میں اہم ترین نقصان میںسوشل میڈیا ایڈکشن کی عادت ہے جو بری طرح ان کی صحت اور دیگر مثبت سرگرمیوں کو روند ڈالتا ہے۔
والدین اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ، ذمے دار اور مثبت انداز میں شمولیت اختیارکرنے کی تربیت دیں، والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس، دوستوں کی فہرستوں اور روزانہ کی سرگرمیوں کا باقاعدگی سے جائزہ لیں، پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی کر کے کسی بھی مشکوک یا غیر معمولی سرگرمی کا فوری ادراک ممکن بنائیں، سوشل میڈیا کے استعمال، درپیش چیلنجز اور آن لائن تنازعات پر باقاعدگی سے گفتگو کریں تاکہ ان کا شعور بڑھے اور وہ محفوظ رہ سکیں۔
والدین یہ سب جاننے کے باوجود بھی کیوں اپنے نونہالوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے فخر کرتے ہیں اور جب کوئی نا قابل یقین اندوہناک واقعہ ہوتا ہے تو سوائے پچھتاوے، دَرْد و اَلَم اور ماتم کے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں یقینا موبائل فون انقلاب ضرور لایا۔
نوجوانوں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے۔ معاشرتی اقدار کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ بلا وجہ وقت کا ضیایع ناسور ہے، اب جب اس قسم کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو حکومت کو اس پر مستقل پابندی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
والدین اور حکومتی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ نوجوان نسل کو معاشرتی برائی سے بچانے کے لیے چوکس رہیں اور اس وباء کو روکنے کے لیے ممکن اقدامات کریں۔
اسکول اور کالجوں میں اساتذہ کرام اگر تدریسی عمل کے ساتھ ساتھ برائیوں اور فضول وقت ضایع کرنے کے نقصانات اور اس کے نتائج پر بات کریں تو کافی حد تک قوم کے بچوں اور بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور تعلیمی مستقبل کو سدھارا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی چیز بذات خود بری نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کا استعمال اس کے اچھے یا برے ہونے کا تعین کرتا ہے۔
ایسا کوئی بھی فضول کام جو ہماری ثقافت ختم کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے جو ہماری حیا ء کو بھی ختم کررہا ہے ، اس سے دور رہا جائے۔ اعداد و شمار کے مطابق 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان اوسطاً یومیہ54منٹ سوشل میڈیا پر لگاتے ہیں، روزانہ رات کو 3 بجے تک وڈیوز دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے مارکس کم آرہے ہیں۔
سوشل میڈیا کا معاشرے میں 10فیصد مثبت اور 90فیصد منفی استعمال ہو رہا ہے۔ نوجوان جب وڈیو بنانا شروع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں میرے کتنے فالورز اور ویوورز ہیں، اس سے ان میں فالورز بڑھانے کا نفسیاتی دباؤ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور جنریشن گیپ آرہا ہے۔