ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تحریر: محمد عامر رانا
ایران پر اسرائیلی حملوں نے علاقائی اور عالمی بحران جنم دیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان میں داخلی امن کی صورت حال اور جغرافیائی سیاست میں اس کی پوزیشن پر اثرانداز ہوگا بالخصوص اس تناظر میں کہ جب اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔ امریکی فوج کے 250 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ امریکا، پاک امریکا تعلقات میں تبدیلی کا عکاس ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جہاں دو جوہری قوت سے لیس ممالک، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں ثالثی کے طور پر اپنی کامیابی پر جشن منا رہے ہیں وہیں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے جبکہ مبینہ طور پر اس نے یہ حملہ اس شک کی بنیاد پر کیا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے۔
اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ جیسا کہ ماہرِ تعلیم ولی نصر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے، اس حملے نے واشنگٹن کی شمولیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔
بہت سے مبصرین اب پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی پذیرائی کی ٹائمنگ سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ امریکا، ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس تناظر میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر غور کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران پر امریکی رضامندی سے حملہ کیا ہے تو اس نے صدر ٹرمپ کے ’عالمی امن پسند‘ کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ تشخص انہوں نے حال ہی میں روس-یوکرین اور پاک-بھارت کے مابین کشیدگی کو کم کرنے میں ثالث کا سہرا اپنے سر لے کر بنایا تھا۔
جنرل ضیاالحق کے دور سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ تاہم جنوری 2024ء میں مختصر تنازع کے بعد ان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دونوں ریاستوں کے سربراہان اور اعلیٰ عسکری قیادت نے دورے کیے ہیں جوکہ تعلقات میں بہتری کا عکاس ہے۔ پاکستان کے ساتھ مزید تصادم سے بچنے کے علاوہ، ایران نے دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ پیچیدہ معاہدہ ہے اور یہ خدشات تھے کہ ایران، پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایران نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ارادے کے تحت اس منصوبے کے ذریعے بڑے اقتصادی اور اسٹریٹجک اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہے اور ان کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ایران نے انڈس شیلڈ مشق میں حصہ لیا تھا جوکہ ایک بڑی کثیر الملکی فضائی مشق ہے جس کا اہتمام پاک فضائیہ نے کیا تھا۔ رواں سال ہی ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری جوکہ 13 جون کی اسرائیلی فضائی اسٹرائیکس میں شہید ہوگئے ہیں، پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ابھی حال ہی کہ بات کریں تو بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد وسطی ایشیا کے اپنے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کا بھی دورہ کیا اور مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت کرنے پر اظہار تشکر کیا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا حل طلب مسئلہ انسدادِ دہشتگردی ہے۔ بلوچ باغی، سیکولر اور اسلامک عسکریت پسند دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ دونوں ممالک کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر سرکاری سطح پر بارہا بات ہوئی ہے لیکن عسکریت پسند گروپ دونوں ممالک کے صبر کو آزماتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر بداعتمادی پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مخالف ملک پُرتشدد گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے یا ان کی حفاظت کررہا ہے۔
اس کے برعکس، انسدادِ دہشتگردی میں تعاون پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کا اہم نقطہ ثابت ہوا ہے۔ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ حال ہی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیل کوریلا نے امریکی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا۔ اسلام آباد کے داعش خراساں کے خلاف مؤثر آپریشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی شراکت داری کے ذریعے پاکستان نے داعش خراساں کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔
اطلاعات ہیں کہ بھارت جو امریکا کا قریبی اسٹریٹجک پارٹنر ہے، واشنگٹن کے لہجے میں اس تبدیلی پر قدرے حیران تھا۔ ان کے گہرے دفاعی، اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کے باوجود امریکی مؤقف میں تبدیلی آئی ہے جو بالخصوص اسرائیل اور ایران تصادم کے بعد بتاتی ہے کہ واشنگٹن اُبھرتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں پاکستان کے لیے زیادہ فعال اور غیرجانبدار کردار کا خواہاں ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ پاکستان، چین اور مغرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تناظر میں امریکا کے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانے کو پاکستان کے ساتھ مزید تعمیری انداز میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اگرچہ لوگ اکثر عالمی جغرافیائی سیاست کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے تمام قسم کی بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل عزم کا مظاہرہ کیا ہے بالخصوص جب افغان سرحد کے ساتھ مقابلوں کی بات ہو۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ ایران-اسرائیل تنازعے کے مشرق وسطیٰ پر اثرات، امریکا کے عالمی مؤقف اور علاقائی جغرافیائی سیاست پر پاکستان کی سمت کے تزویراتی نتائج سے ہٹ کر، اس تنازع نے ملک کے اندر بنیادی طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر عوامی جذبات کو ابھارا ہے۔
یہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں فرقہ وارانہ تشدد کو کسی حد تک قابو میں لایا ہے حالانکہ کچھ علاقے جیسے کہ کرم ضلع اب بھی اس کی زد میں ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایران کے حق میں اور اس کی مخالفت میں پوسٹس کی بھرمار ہوچکی ہے۔ اگرچہ سڑکوں پر کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا ہے لیکن آئندہ دنوں میں اسے خارجِ از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ہر صورت حال میں اندرونی سلامتی کے خطرات اور ممکنہ جغرافیائی سیاسی پھیلاؤ دونوں کا جائزہ لینے کے لیے حالات پر گہری نظر رکھیں گے۔ اسی دوران ریاست بحران میں ایک متعلقہ کردار کے طور پر اپنی پوزیشن طے کرنے کے طریقے تلاش کرسکتی ہے۔ تاہم ریاستی حکمت عملی اور عوامی جذبات کے درمیان ایک بار پھر خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے لے کر غزہ میں اسرائیل کی بار بار کی بربریت تک، پاکستان کا سرکاری ردعمل محتاط رہا ہے جس نے خطے کے تمام بڑے کھلاڑیوں بشمول ایران، اسرائیل، امریکا اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی سیاست اور عوامی جذبات کے درمیان، کس حد تک مؤثر طریقے سے اس توازن کو سنبھالے گا۔
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1917273/crisis-management-balance
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جغرافیائی سیاست ایران اسرائیل دونوں ممالک تعلقات میں پاکستان کی پاکستان کے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کے طور پر کررہا ہے ایران کے کے ساتھ ہیں کہ اور اس کے لیے حال ہی کیا ہے کے بعد
پڑھیں:
بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی، جلد دنیا دیکھے گی کہ کئی اہم چیزیں رونما ہونگی، فیلڈ مارشل عاصم منیر
بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی، جلد دنیا دیکھے گی کہ کئی اہم چیزیں رونما ہونگی، فیلڈ مارشل عاصم منیر WhatsAppFacebookTwitter 0 17 June, 2025 سب نیوز
واشنگٹن(سب نیوز) فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہیکہ بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی اور جلد دنیا دیکھے گی کہ کئی اہم چیزیں رونما ہوں گی۔فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا جس میں انہوں نے آپریشن بنیان مرصوص سیمتعلق کئی نئے پہلووں سے لوگوں کو روشناس کیا اور پاکستان میں دہشتگردی، اقتصادی صورتحال، امریکا سے تعلقات کی نوعیت اور ایران اسرائیل جنگ سمیت کئی اہم امور پر تفصیلی بات چیت بھی کی۔
ذرائع کے مطابق امریکا بھر سے آئے 400 کے قریب انتہائی اہم کمیونٹی لیڈرز سے خطاب میں فیلڈ مارشل نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت نے رابطہ کرکے الزام تراشی کی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان اس واقعہ کو دہشتگردی قرار دے جس پر اسے دو ٹوک اندازمیں بتایا گیا کہ بھارتی تسلط کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور ایسے واقعات دہشتگردی نہیں قرار دیے جاسکتے۔جنرل عاصم منیر نے کہا کہ بھارت پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ چار افراد کا الزام پاکستان پر لگایا جارہا ہے تو مقبوضہ وادی میں تعینات لاکھوں بھارتی فوجی اس وقت کیا کررہے تھے؟ ہر 10 کلومیٹر پر بھارتی چیک پوسٹ میں موجود اہلکار کیا کررہے تھے جو چار افراد 250 کلومیٹر چل کر پہلگام گئے، لوگوں کو قتل کیا اور واپس چلے گئے، کیا وہ چار لوگ سپرمین تھے اور کیا بھارتی فوج کی ناکامی پر اس فوج کی چھٹی نہیں کردینی چاہیے۔فیلڈ مارشل نے مزید کہا کہ بھارت پر جب واضح کیا گیا کہ پاکستان اس واقعہ کو دہشتگردی نہیں مانتا تو دھمکی دی گئی کہ پھر کارروائی کے لیے تیار رہیں مگر پاکستان دھمکی آمیز لہجہ خاطر میں نہیں لایا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے حملے کے بعد بھارت نیہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور کہا کہ بھارت نے جو کرنا تھا کرلیا، اب صبح 9 بجے بھارت بات چیت کے لیے تیار ہے جس پر اسے باور کرایا گیا کہ پاکستان نے جو کرنا ہوا کرلے گا، پھر فیصلہ کریں گے کہ بات کرنا ہے یا نہیں، اس دوران دنیا کی لیڈرشپ کے بھی فون آئے کہ پاکستان کارروائی سے اجتناب کرے مگر دنیا کو بتایا گیا کہ بھارت کے طیارے محض دفاع میں گرائے ہیں اور بھارتی جارحیت کا جواب ہر صورت دیا جائے گا، اس طرح عالمی مطالبات کے باوجود وطن کی حرمت اور قوم کے ناموس کیلیے پاکستان اپنے ارادوں پر قائم رہا۔فیلڈ مارشل نے حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان اس آپریشن میں ربط کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف سے جب صورتحال پر بات کی تو وزیراعظم نے دریافت کیا کہ لڑائی بڑی جنگ میں تبدیل ہونے کے کس قدر امکانات ہیں، ہماری طاقت کس قدر ہے، اس پر انہیں بتایا کہ ففٹی ففٹی چانسز ہیں کہ یہ لڑائی کسی بڑی جنگ میں بدل سکتی ہے، شہبازشریف نے بلاتامل کہا کہ آپ بسم اللہ کریں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، یہ ایک سیاسی لیڈر کا فنٹاسٹک (زبردست)ردعمل تھا۔
ذرائع کے مطابق فیلڈ مارشل نے بھارت کے خلاف کارروائی کو آپریشن بنیان مرصوص نام دیے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ائیر مارشل ظہیراحمد بابر سدھو کے ساتھ بیٹھے تھے اور ائیرچیف انہیں بتا رہے تھے کہ دفاع پاکستان کے لیے فضائیہ کیسے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور جوانوں کاجذبہ کس قدر بلند تھا، اسی جذبہ، ہمت اور الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے بھارت کیخلاف آپریشن کو قرآن کی آیت بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی دیوار کا نام دیا۔بھارت کے خلاف جنگ میں چین کی مدد سے متعلق بات کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان نے چین کا کچھ ایکیوپمنٹ استعمال کیا مگر اس میں بھی شک نہیں کہ جس قدر عمدگی سے یہ کام افواج پاکستان نے انجام دیا، اسی طرح اسے استعمال کرنا چین کیلئے بھی چیلنج ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ کس طرح بھارت کے نظام کو ہیک کیا گیا،سسٹم کریش کرکے بجلی غائب کردی گئی، ڈیمز کے اسپل وے کھول دیے، بی جے پی کی ویب سائٹ پر پاکستانی پرچم لہرائے، گجرات اور دہلی تک ڈرونز نے راج کیا، میزائل دفاعی نظام کو جکڑ لیا گیا اور فوجی اہداف کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔دلچسپ واقعہ بتاتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ایک جوان نے میزائل کی رینج کچھ بڑھادی تو اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ بھی فوجی ہدف ہی پر جا کرلگا جب کہ پاکستان نے صرف ان 6 بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا جنہوں نے پاکستان پر میزائل فائرکیے تھے،لاک کیے جانے کے سبب اگر چاہتے تو 20 بھارتی طیارے مار گراتے مگر جنگ کے دوران اخلاقیات کا خیال رکھ کر مثال قائم کی گئی، یہ پانچ محاذوں پر جنگ تھی جن میں ہر محاذ پر ایک ساتھ اور مربوط انداز سے دشمن کو شکست دی گئی۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو توقع نہیں تھی کہ دہشتگردی اور عسکریت پسندی کا شکار پاکستان کچھ کرسکیگا، بھارت کے نزدیک ہماری فوج مختلف محاذوں پر پھنسی ہوئی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ہمارا نظام کس قدر مربوط ہے اور ہم شہادت کو مومن کی معراج سمجھتے ہیں، مجھے ماردیا جائے تو میرا بیٹا محاذ پر کھڑا ہو کر وطن کے دفاع کے لیے آگے بڑھے گا، جنگ میں اللہ کا خاص کرم ہوا اور اس نے پاکستان کو اقوام عالم میں شناخت دی۔
فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ پاکستانی افواج کی اصل طاقت عوام ہیں جس نے اپنی فوج کا پوری طرح ساتھ دیا، جنگ کے موقع پر ہرطبقے کا ردعمل اس قدر منظم اور پرفیکٹ تھا کہ جیسے یہ اسکرپٹڈ رسپانس ہو۔آرمی چیف نے بھارت کے خلاف فتح کا کریڈٹ لینے سے گریز کیا اور فتح مکہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بنیان مرصوص کی کامیابی کو معجزہ قرار دیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں امریکی صدر کے کردار پر بات کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 بار کشمیر پر بات کی ہیاور جلد دنیا دیکھے گی کہ کئی اہم چیزیں رونما ہوں گی، بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی تو پھر 1971 کا بھی حوالہ سامنیآئے گا کہ کس طرح بھارت نے مکتی باہنی بناکر دہشتگردی کی تھی۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے معاملے پر امریکا اور بھارت ایک پیج پر نہیں، بھارت پاکستان میں دہشتگردی کرانا چاہتا ہے جب کہ امریکا اس دہشتگردی کا مخالف ہے۔ملک کی اقتصادی صورتحال پر بات کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے کہا کہ امریکا، یوکرین سے محض 400 سے 500 ارب ڈالر کے معدنی دھاتوں کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے، پاکستان نے کہا ہے کہ ہمارے پاس ایک کھرب ڈالر کے ایسے ذخائر موجود ہیں، امریکا اگر سرمایہ کاری کرے تو ہر سال 10 سے 15 ارب ڈالر کا فائدہ حاصل کرسکتا ہے اور یہ سلسلہ 100 سال تک جاری رہے گا،پاکستان چاہتا ہے کہ دھاتوں کی پراسسینگ پاکستان میں ہو تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں۔انہوں نے کہا کہ اگلے 5 برسوں میں پاکستان تیزی سے ترقی کرے گا اور قیام پاکستان کے صد سالہ جشن یعنی 2047 میں اللہ نے چاہا تو یہ ملک جی 10 کا حصہ بن چکا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کرپٹوکونسل اورامریکن کرپٹو کونسل کا معاہدہ ہوگا اور کرپٹو مائننگ میں پاکستان کردار ادا کریگا، یہی نہیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ڈیٹا سینٹرز بھی کھولے جائیں گے۔ انہوں نے اس دور کا حوالہ دیا کہ جب مال روڈ پر اہل تشیع کا جلوس نکلتا تھا تو اہل سنت سبیلیں لگاتے تھے، وہ دور بھی تھا کہ جب لاہور میں ہپی ڈانس کیا کرتے تھے۔حال میں موجود بعض افراد کی جانب سے یہ کہنے پر کہ ہمیں پرانا پاکستان چاہیے، فیلڈ مارشل نے کہا کہ ہمیں نیا یا پرانا نہیں، ہمیں ہمارا پاکستان چاہیے۔مختلف شعبہ ہائے فکر کے مایہ ناز امریکی پاکستانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے کہا کہ آپ جیسے لوگ برین گین ہیں اور ایسا برین گین ہر روز ہونا چاہیے۔
تقریب کے آغاز میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ نے خطاب میں کہا کہ بھارت نے جنگ مسلط کی تو پاکستان پوری طرح تیار تھا، بھارت کے 20 جہاز نشانے پر تھے مگر صرف 6 کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ پاکستان دشمن کو ہوش کے ناخن لینے کا موقع دینا چاہتا تھا، دنیا کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ پاکستان خطے میں امن اور سلامتی چاہتا ہے۔ تقریب میں امریکی پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز احمد، صدر اے پی پیک ڈاکٹر پرویز اقبال، ڈاکٹر طارق ابراہیم، اسد چوہدری اورندیم اختر بھی موجود تھے۔ پاکستان میں نسٹ کے لیے 9 ملین ڈالر عطیہ کرنیوالے تنویر احمد نے بھی شرکت کی، انہی تنویر احمد کو فیلڈ مارشل نے اس سے پہلے خطاب میں اصل ہیرو قرار دیا تھا۔امریکی پاکستانی کمیونٹی نے کہا کہ اس سے پہلے انہوں نے پاک بھارت جنگ کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا یا سوشل میڈیا پر خبریں سنی تھیں جن کی صداقت پر انہیں شکوک و شہبات تھے تاہم فیلڈ مارشل کا خطاب سن کر انہیں یقین ہوا ہے کہ پاکستان نے بھارت کو کس طرح دھول چٹائی اور جارحیت پر اترا بھارت آخر کیسے جنگ بندی پر مجبور ہوا۔ دوران تقریب کمیونٹی کے افراد پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد، تیرا ویر میرا ویر عاصم منیرعاصم منیر کے پرجوش نعرے لگاتے رہے، ہال افواج، حکومت اور عوام کی تاریخی فتح پر تالیوں سے گونجتا رہا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجی سیون ممالک کا اسرائیل کی حمایت کا اعلان، ایران عدم استحکام کا سبب قرار جی سیون ممالک کا اسرائیل کی حمایت کا اعلان، ایران عدم استحکام کا سبب قرار ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف کا جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی کا دورہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ازبکستان کے سفیر علی شیر تختایف کی ملاقات وزیراعظم کی 2028تک ریکوڈک کو ریلوے لائن نیٹ ورک سے منسلک کرنیکی ہدایت اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، جنوبی غزہ میں امداد کے منتظر 45فلسطینی شہید، درجنوں افراد زخمی ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت پر مسلم ممالک کا اہم مشترکہ اعلامیہ جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم