ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تحریر: محمد عامر رانا
ایران پر اسرائیلی حملوں نے علاقائی اور عالمی بحران جنم دیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان میں داخلی امن کی صورت حال اور جغرافیائی سیاست میں اس کی پوزیشن پر اثرانداز ہوگا بالخصوص اس تناظر میں کہ جب اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔ امریکی فوج کے 250 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ امریکا، پاک امریکا تعلقات میں تبدیلی کا عکاس ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جہاں دو جوہری قوت سے لیس ممالک، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں ثالثی کے طور پر اپنی کامیابی پر جشن منا رہے ہیں وہیں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے جبکہ مبینہ طور پر اس نے یہ حملہ اس شک کی بنیاد پر کیا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے۔
اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ جیسا کہ ماہرِ تعلیم ولی نصر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے، اس حملے نے واشنگٹن کی شمولیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔
بہت سے مبصرین اب پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی پذیرائی کی ٹائمنگ سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ امریکا، ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس تناظر میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر غور کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران پر امریکی رضامندی سے حملہ کیا ہے تو اس نے صدر ٹرمپ کے ’عالمی امن پسند‘ کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ تشخص انہوں نے حال ہی میں روس-یوکرین اور پاک-بھارت کے مابین کشیدگی کو کم کرنے میں ثالث کا سہرا اپنے سر لے کر بنایا تھا۔
جنرل ضیاالحق کے دور سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ تاہم جنوری 2024ء میں مختصر تنازع کے بعد ان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دونوں ریاستوں کے سربراہان اور اعلیٰ عسکری قیادت نے دورے کیے ہیں جوکہ تعلقات میں بہتری کا عکاس ہے۔ پاکستان کے ساتھ مزید تصادم سے بچنے کے علاوہ، ایران نے دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ پیچیدہ معاہدہ ہے اور یہ خدشات تھے کہ ایران، پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایران نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ارادے کے تحت اس منصوبے کے ذریعے بڑے اقتصادی اور اسٹریٹجک اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہے اور ان کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ایران نے انڈس شیلڈ مشق میں حصہ لیا تھا جوکہ ایک بڑی کثیر الملکی فضائی مشق ہے جس کا اہتمام پاک فضائیہ نے کیا تھا۔ رواں سال ہی ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری جوکہ 13 جون کی اسرائیلی فضائی اسٹرائیکس میں شہید ہوگئے ہیں، پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ابھی حال ہی کہ بات کریں تو بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد وسطی ایشیا کے اپنے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کا بھی دورہ کیا اور مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت کرنے پر اظہار تشکر کیا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا حل طلب مسئلہ انسدادِ دہشتگردی ہے۔ بلوچ باغی، سیکولر اور اسلامک عسکریت پسند دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ دونوں ممالک کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر سرکاری سطح پر بارہا بات ہوئی ہے لیکن عسکریت پسند گروپ دونوں ممالک کے صبر کو آزماتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر بداعتمادی پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مخالف ملک پُرتشدد گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے یا ان کی حفاظت کررہا ہے۔
اس کے برعکس، انسدادِ دہشتگردی میں تعاون پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کا اہم نقطہ ثابت ہوا ہے۔ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ حال ہی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیل کوریلا نے امریکی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا۔ اسلام آباد کے داعش خراساں کے خلاف مؤثر آپریشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی شراکت داری کے ذریعے پاکستان نے داعش خراساں کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔
اطلاعات ہیں کہ بھارت جو امریکا کا قریبی اسٹریٹجک پارٹنر ہے، واشنگٹن کے لہجے میں اس تبدیلی پر قدرے حیران تھا۔ ان کے گہرے دفاعی، اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کے باوجود امریکی مؤقف میں تبدیلی آئی ہے جو بالخصوص اسرائیل اور ایران تصادم کے بعد بتاتی ہے کہ واشنگٹن اُبھرتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں پاکستان کے لیے زیادہ فعال اور غیرجانبدار کردار کا خواہاں ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ پاکستان، چین اور مغرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تناظر میں امریکا کے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانے کو پاکستان کے ساتھ مزید تعمیری انداز میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اگرچہ لوگ اکثر عالمی جغرافیائی سیاست کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے تمام قسم کی بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل عزم کا مظاہرہ کیا ہے بالخصوص جب افغان سرحد کے ساتھ مقابلوں کی بات ہو۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ ایران-اسرائیل تنازعے کے مشرق وسطیٰ پر اثرات، امریکا کے عالمی مؤقف اور علاقائی جغرافیائی سیاست پر پاکستان کی سمت کے تزویراتی نتائج سے ہٹ کر، اس تنازع نے ملک کے اندر بنیادی طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر عوامی جذبات کو ابھارا ہے۔
یہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں فرقہ وارانہ تشدد کو کسی حد تک قابو میں لایا ہے حالانکہ کچھ علاقے جیسے کہ کرم ضلع اب بھی اس کی زد میں ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایران کے حق میں اور اس کی مخالفت میں پوسٹس کی بھرمار ہوچکی ہے۔ اگرچہ سڑکوں پر کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا ہے لیکن آئندہ دنوں میں اسے خارجِ از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ہر صورت حال میں اندرونی سلامتی کے خطرات اور ممکنہ جغرافیائی سیاسی پھیلاؤ دونوں کا جائزہ لینے کے لیے حالات پر گہری نظر رکھیں گے۔ اسی دوران ریاست بحران میں ایک متعلقہ کردار کے طور پر اپنی پوزیشن طے کرنے کے طریقے تلاش کرسکتی ہے۔ تاہم ریاستی حکمت عملی اور عوامی جذبات کے درمیان ایک بار پھر خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے لے کر غزہ میں اسرائیل کی بار بار کی بربریت تک، پاکستان کا سرکاری ردعمل محتاط رہا ہے جس نے خطے کے تمام بڑے کھلاڑیوں بشمول ایران، اسرائیل، امریکا اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی سیاست اور عوامی جذبات کے درمیان، کس حد تک مؤثر طریقے سے اس توازن کو سنبھالے گا۔
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1917273/crisis-management-balance
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جغرافیائی سیاست ایران اسرائیل دونوں ممالک تعلقات میں پاکستان کی پاکستان کے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کے طور پر کررہا ہے ایران کے کے ساتھ ہیں کہ اور اس کے لیے حال ہی کیا ہے کے بعد
پڑھیں:
معرکہ حق میں شکست کھانے والا بھارت پراکسی جنگ میں شدت لا رہا ہے: فیلڈ مارشل
راولپنڈی(ڈیلی پاکستان آن لائن) فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’فتنہ الخوارج‘ اور ’فتنہ الہندوستان‘ بھارت کی ناکام پراکسیز ہیں، معرکۂ حق میں شکست کھانے والا بھارت پراکسی وار میں شدت لا رہا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل نے منگل کو 16 ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکاء سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر انہوں نے پارلیمنٹیرینز، سول سوسائٹی کے نمائندگان، بیوروکریٹس، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور نوجوانوں پر مشتمل ایک متنوع گروہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آرمی دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمے اور بلوچستان کی سماجی و معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے جو کہ قومی یکجہتی اور اتحاد کے لیے ناگزیر ہے۔
نئے مالی سال کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان آج کیا جائے گا
فیلڈ مارشل نے بھارت کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی کھلی سرپرستی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت بلوچستان کے عوام کی گہری حب الوطنی کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ بھارت جو معرکۂ حق میں شکست کھا چکا ہے اب اپنی ناپاک سازشوں کو آگے بڑھانے کے لیے پراکسی جنگ تیز کر چکا ہے جن میں ’فتنہ الخوارج‘ اور ’فتنہ الہندوستان‘ جیسے عناصر بھارت کی ہائبرڈ وار کے مہرے بنے ہوئے ہیں، یہ تمام پراکسی گروہ بھی ان شاءاللہ اسی انجام اور رسوائی کا شکار ہوں گے جو انہیں معرکۂ حق میں ہوئی۔
بانی پی ٹی آئی کے اپنے بچوں کو پاکستان آنے سے روکنے پر خواجہ آصف کا ردِعمل
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گرد کسی مذہب، فرقے یا قومیت کو نہیں دیکھتے لہٰذا ان کے خلاف ایک متحد اور قومی ردعمل کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے اجتماعی قومی عزم کی اہمیت پر زور دیا تاکہ اس خطرے کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔
انہوں نے بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے مرکزی کردار پر روشنی ڈالی اور ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قومی سطح پر یکجہتی سے چلنے والے ترقیاتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بلوچستان کی ترقی کے ذریعے پاکستان کی مجموعی پیشرفت ممکن بنائی جا سکے۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟
فیلڈ مارشل نے علاقائی امن سے متعلق پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی بھی اندرونی یا بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر لحاظ سے تیار ہے اور قومی وقار کے تحفظ اور عوام کی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
سید عاصم منیر نے مزید کہا ہے کہ پاکستان علاقائی امن کے لیے پرعزم مگر ہر خطرے کا بھرپور جواب دینے کو تیار ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق نشست کے اختتام پر فیلڈ مارشل اور شرکاء کے مابین سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے شرکا کے سوالات کے تفصیلی جوابات بھی دیئے۔
قاضی حسین احمد نے کہا غلام حیدر وائیں کو منا لیں تو جمعیت کو ختم کرنے کیلئے تیار ہونگے، ایک دوسرے کی ضد میں اِصرار میری سمجھ سے بالا تر تھا
مزید :