غزہ میں خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع ہجوم پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ، 51 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسرائیل کی طرف سے غزہ میں راشن حاصل کرنے کے لیے جمع ہونے والے ہجوم ہر فائرنگ سے 51 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے فائرنگ اس وقت کی جب غزہ کے علاقے خان یونس میں لوگوں کی بڑی تعداد اسرائیلی اور امریکی خوراک کی تقسیم کے مراکز تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے اس سے قبل بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر خوراک اور امداد تقسیم کی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آرہے ہیں تاہم اسرائیلی فوج انہیں ‘انتباہی فائرنگ’ قرار دیتی ہے۔
غزہ میں امداد تقسیم کرنے کے یہ مراکز ایک نجی کمپنی، غزہ ہیومینٹری فاؤنڈیشن (GHF) کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں جسے امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے تاہم اقوام متحدہ سمیت دیگر غیرجانبدار اداروں نے اس تنظیم کے ذریعے امداد کی تقسیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مئی کے آخر سے اب تک غزہ میں امدادی مراکز سے مدد حاصل کرنے کے دوران 300 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 2 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
مارچ کے مہینے سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں اشیائے خورونوش کی فراہمی محدود ہے اور فلسطینی خاندانوں کو خوراک کی شدید قلت اور غذائی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ مہینے سے کچھ امداد غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی تاہم اس دوران امداد لینے کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر فائرنگ کے متعدد واقعات بھی پیش آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امدای سامان خان یونس خوراک کی قلت غزہ فائرنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امدای سامان خان یونس خوراک کی قلت فائرنگ کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
انسانی حقوق کا خون آلود طنز
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
جس وقت آسمان سے پیراشوٹس کے ذریعے غزہ میں انسانی امداد فراہم کی جا رہی تھی تو بھوکے فلسطینی تیزی سے گرتے ہوئے پیکٹس کی جانب بھاگتے تھے۔ افراد کی بھیڑ اور امدادی سامان کی قلت کے باعث میڈیا کے کیمرے آخرالزمان والے مناظر ریکارڈ کر رہے تھے۔ اخبار گارجین کے رپورٹر نے امداد کی فراہمی مکمل ہو جانے کے بعد کچھ فلسطینی شہریوں سے انٹرویو لیا۔ محمد المساری ایک کمزور لیکن پختہ عزم کا مالک فلسطینی شہری تھا۔ اس نے کہا: "اس قسم کی امداد رسانی بہت ہی خطرناک ہے اور اپنے عزیزواقارب کی وجہ سے اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوں۔" اس نے مزید کہا: "جب میرے بھانجے مجھ سے کہتے ہیں کہ ماموں ہمیں بھوک لگی ہے تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔" اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے غزہ میں امداد رسانی سرگرمیاں ختم کر دینے کے بعد فلسطینیوں کی بڑی تعداد اپنی جان گنوا بیٹھی ہے۔
عالمی دباو پر پسپائی
غاصب صیہونی رژیم اپنی فوجی ڈاکٹرائن کے تناظر میں حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز کے مکمل خاتمے کے بغیر غزہ سے نکلنے کو اپنی شکست تصور کرتی ہے۔ دوحہ میں کئی دور مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد حماس کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ جنگ بندی نہیں چاہتی اور حتی اس کے لیے اپنے یرغمالیوں کی جان کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں نیتن یاہو بھی اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حماس کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ لہذا تل ابیب نے غزہ میں امداد کی فراہمی روک کر بھوک اور قحط کے ذریعے فلسطینی عوام پر دباو ڈالنے کا فیصلہ کیا تاکہ شاید اس طرح حماس کو اس کے انقلابی اہداف سے دستبردار ہونے پر مجبور کر سکے۔ لیکن جب غزہ میں بھوکے بچوں کی ابتر صورتحال عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بننے لگی تو صیہونی رژیم اور اس کے حامی عالمی دباو کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں فضا سے امداد رسانی کے ذریعے فیس سیونگ کی کوشش شروع ہو گئی۔
سمندر میں ایک قطرہ
اقوام متحدہ میں انسانی امداد کے ذمہ دار ٹام فیلچر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: "اتوار کے دن غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے تناظر میں جو کچھ انجام پایا ہے وہ وہاں موجود انسانی المیے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور ایک سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "یہ انسانی امداد صرف ایک آغاز تھا اور اس سے اہل غزہ کی ضروریات بالکل پوری نہیں ہوتیں۔" انہوں نے کہا کہ جب غزہ میں 42 روزہ جنگ بندی ہوئی تھی تو اس دوران 600 سے 700 کے درمیان امدادی سامان سے لدے ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہوتے تھے لیکن کل صرف 120 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری طرف الجزیرہ چینل نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 43 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ ان میں سے 9 فلسطینی امداد وصول کرتے وقت صیہونی فوجیوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے ہیں۔
غزہ میں اعلانیہ نسل کشی
غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کی دو بڑی تنظیموں "یتسلیم" اور "ڈاکٹرز فار ہیومن رائٹس" نے اپنی سرکاری رپورٹس میں اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کے حامی مغربی ممالک قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ان مجرمانہ اقدامات کی روک تھام کے ذمہ دار ہیں۔ انسانی حقوق کی ان دو تنظیموں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران صیہونی فوج نے صرف فلسطینی ہونے کی خاطر غزہ میں عام شہریوں کو براہ راست حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور وسیع پیمانے پر انفرااسٹرکچر تباہ کر کے شہری علاقوں کو ناقابل ازالہ نقصان پہنچایا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی انسانی حقوق کی دسیوں عالمی تنظیمیں غزہ میں صیہونی فوج کے جنگی جرائم کی تصدیق کر چکی ہیں۔
فلسطینی بچے، صیہونی محاصرے کا اصل نشانہ
ایسے وقت جب بین الاقوامی تنظیمیں یکے پس از دیگرے فلسطینی بچوں کی بھوک اور غذائی قلت کے بارے میں وارننگ جاری کر رہے ہیں، لیکن غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کے خلاف مجرمانہ محاصرہ بدستور جاری ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والا بحران شدید حد تک خطرناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی آسمان کے ذریعے انتہائی محدود پیمانے پر امدادی سامان کی فراہمی شروع کی گئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بقول صرف گذشتہ ماہ میں غزہ میں بھوک کے باعث 63 اموات واقع ہوئی ہیں جن میں 24 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ اس ادارے نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر پانچ بچوں میں سے یک شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سرکاری بیانیے میں آیا ہے: "یہ بحران پوری طرح متوقع تھا کیونکہ گذشتہ چند سالوں سے غزہ کا محاصرہ جاری تھا اور عمدی طور پر غذائی اشیاء اور ادویہ جات کی ترسیل روکی گئی تھی۔ اس وجہ سے بڑی تعداد میں فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔" اس رپورٹ کی روشنی میں غزہ میں خاموش موت کے سائے چھائے ہوئے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم ہر قسم کی انسانی امداد غزہ پہنچنے سے روک رہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی غزہ میں شدید بحران کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 90 ہزار بچے اور خواتین غذائی قلت کے باعث خطرے میں ہیں اور انہیں فوری علاج کی ضرورت ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت ہوا ہے جب اکثر مغربی ذرائع ابلاغ غزہ میں بحرانی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور یوں عالمی رائے عامہ کی نظروں سے غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ محاصرے اور جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔