کوڑے کے انبار سے لیکر کوڑے کی کمی تک کا سفر چینی ماحولیاتی ترقی اور “دو پہاڑوں کے نظریے”کا عکاس ہے
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
کوڑے کے انبار سے لیکر کوڑے کی کمی تک کا سفر چینی ماحولیاتی ترقی اور “دو پہاڑوں کے نظریے”کا عکاس ہے
بیجنگ ()
2010 میں، چینی فلم ڈائریکٹر وانگ جیو لیانگ نے 83 منٹ کی ایک دستاویزی فلم “کوڑے کا محاصرہ” بنائی، جس میں بیجنگ کے اردگرد سینکڑوں کوڑے کے ڈھیروں کا دورہ کرکے شہر کو گھیرے ہوئے کوڑے کی سنگین صورتحال کو بے نقاب کیا گیا۔
ایک وقت تھا جب “کوڑا” چین کے بہت سے شہروں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ جا بجا لگے کوڑے کے انبار نہ صرف قیمتی زمین کو گھیرے ہوئے تھےبلکہ مٹی، پانی اور ہوا کو بھی شدید آلودہ کر رکھا تھا، جس سے ماحولیاتی نظام اور شہریوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہوگئے تھے۔ لیکن اب صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ایک دہائی کی ترقی کے بعد، چین میں کوڑے کو ٹھکانے لگانےکے انتظام میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ پہلے کوڑے کو “جلانے کی صلاحیت محدود تھی ” لیکن اب “جلانے کی صلاحیت وافر ہے لیکن کوڑا کم ” ہوگیا ہے۔ یہ چین کی کوڑے کے انتظام کی ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی اور پیداواری صلاحیت میں مسلسل بہتری کی عکاسی کرتا ہے، اور اس سے بھی زیادہ گہری چین کے رہنما شی جن پھنگ کی پیش کردہ ماحولیاتی پالیسی ہے —”دو پہاڑوں کا نظریہ یعنی سرسبز پہاڑ اور شفاف پانی سونے اور چاندی کے پہاڑ کے برابر انمول اثاثہ ہیں”کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ابتدائی طور پر غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار سے لے کر آج کوڑے جلانے والی جدید ترین ٹیکنالوجی تک، چین نے گزشتہ دہائی میں کوڑے کے انتظام کے شعبے میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ چین کے کوڑے جلانے والے پلانٹس دھوئیں کی صفائی کا جدید نظام استعمال کرتے ہیں جو ڈائی آکسین، بھاری دھاتوں جیسے خطرناک مادوں کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے، اور ان کے اخراج کے معیارات یورپی یونین کے اعلی معیارات سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ ذہانت پر مبنی انتظامی نظام کی مدد سے کوڑا جلانے والے پلانٹس درجہ حرارت کو درست طریقے سے کنٹرول کرسکتے ہیں اور توانائی کے استعمال کی کارکردگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ کچھ پلانٹس میں اضافی حرارت کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے توانائی کا درجہ وار استعمال ممکن ہوتا ہے اور کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی، کوڑے کے انتظام کے طریقے بھی متنوع ہوتے جارہے ہیں۔ بائیو ٹریٹمنٹ، پلازما گیسفیکیشن جیسی نئی ٹیکنالوجیز سامنے آئی ہیں اور بتدریج فروغ پا رہی ہیں، جس سے کوڑے کے انتظام کے راستے وسیع ہوئے ہیں اور جلانے کے واحد طریقے پر انحصار کم ہوا ہے۔
پالیسی کی ترغیب اور عوامی شرکت کے حوالے سے، کوڑے کی درجہ بندی کی پالیسی کے جامع نفاذ نے شاندار نتائج دیئے ہیں۔ 2019 میں شنگھائی نے پہلی بار گھریلو کوڑے کی لازمی درجہ بندی نافذ کی، جس کے بعد پورے ملک نے تیزی سے اس کی پیروی کی۔ کوڑے کی درجہ بندی بظاہر سادہ لگتی ہے، لیکن اس نے کوڑے کی ساخت اور انتظام کے طریقوں کو بنیادی طور پر بدل دیا ہے۔ ساتھ ہی، عوام میں ماحولیاتی بیداری کا بڑھتا ہوا احساس بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ آج کل، کوڑے کی درجہ بندی اور ماحولیات سے متعلق علم کمیونٹیز اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ رضاکار کمیونٹی کے شہریوں کو کوڑے کے مناسب انتظام میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں، اور اسکولوں میں بچوں کو ابتدا ہی سے ماحولیاتی تحفظ کا شعور دیا جاتا ہے۔ پورا معاشرہ ماحولیاتی تحفظ میں حصہ لینے کے جذبے سے سرشار ہے۔
کوڑے کے انتظام میں یہ ترقی چین کے رہنما شی جن پھنگ کے پیش کردہ ” سرسبز پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثہ ہیں ” کے “دو پہاڑوں کے نظریے” سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ نظریہ ماحولیات اور معیشت کے باہمی تعلق پر زور دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، اچھے ماحولیاتی نظام کے لیے کوڑے کے مؤثر اور ماحول دوست انتظام کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ کوڑے کے انتظام کی ٹیکنالوجی میں ترقی اور وسائل کی ری سائیکلنگ خود ایک معاشی ترقی ہے۔ کوڑے کی درجہ بندی سے دوبارہ قابل استعمال وسائل کا نظام کام کرنا شروع کرتا ہے ، جس میں گیلے کوڑے کو نامیاتی کھاد یا بائیو انرجی میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور کوڑے کو جلانے سے بجلی پیدا کرکے نہ صرف کوڑے کا مسئلہ حل ہوتا ہے بلکہ معاشی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ماحولیاتی فوائد کو معاشی اور سماجی فوائد میں تبدیل کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
“دو پہاڑوں کا نظریہ” کوڑے کے انتظام و انصرام جیسے ماحولیاتی کاموں کے لیے رہنمائی اور طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے۔ معاشرتی اقدار کے لحاظ سے یہ عوام کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ماحولیات کا تحفظ دراصل پیداواری صلاحیت کا تحفظ ہے، اور ماحول کی بہتر ترقی کا ذریعہ ہے۔ اس طرح وہ ماحول کو نقصان پہنچا کر معاشی ترقی کے روایتی طریقوں کو ترک کرتے ہیں۔ طریقہ کار کے لحاظ سے، یہ حکومت، کاروباری اداروں اور عوام کو کوڑے کی مقدار میں کمی، درجہ بندی اور سائنسی طریقے سے انتظام جیسے اقدامات پر مشترکہ طور پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ معاشی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔
تاحال، چین میں کوڑے جلانے والے پلانٹس کی تعداد 1000 سے تجاوز کرچکی ہے۔ نہ صرف بیجنگ، شنگھائی، گوانگ چو اور شینزین جیسے بڑے شہر، بلکہ چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ کاؤنٹی سطح کے علاقوں میں بھی کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں کوڑے جلانے کی صلاحیت 16 گنا بڑھ چکی ہے، جس کی وجہ سے اوپر بیان کی گئی صورتحال—یعنی کوڑے جلانے کی صلاحیت زیادہ ہونے کی وجہ سے “جلانے کے لیے کوڑے کی کمی”کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
“کوڑے کے محاصرے” سے “جلانے کے لیے کوڑے کی کمی” تک کا سفر چین میں کوڑے کے انتظام و انصرام کی زبردست ترقی کی علامت ہے، اور یہ “دو پہاڑوں کے نظریے” کی عملی تصدیق بھی ہے۔ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے، اس نظریے پر عمل پیرا رہتے ہوئے چین ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں مزید شاندار کامیابیاں حاصل کرے گا، معیشت اور ماحولیات کے درمیان ہم آہنگی قائم کرے گا، اور عالمی پائیدار ترقی کے لیے چینی دانش اور چینی حل کی مزید خدمات پیش کرے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کوڑے کی درجہ بندی جلانے کی صلاحیت ماحولیاتی تحفظ کوڑے کے انتظام کوڑے کی کمی انتظام کے میں کوڑے ترقی اور کرتا ہے کوڑے کو کے لیے چین کے
پڑھیں:
کوئٹہ کے نوجوان ہائیکر ماحولیاتی تحفظ کے سفیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹہ میں ہائیکرز کی درجنوں ٹیمیں ہیں، جو پہاڑوں پر بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے گڑھے کھودتی ہیں، شجرکاری کرتی ہیں اور جنگلی پرندوں اور درختوں کے لیے پانی کا بندوبست کرتی ہیں۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہائیکرز اپنا شوق پورا کرنے کے ساتھ خدمتِ خلق میں بھی پیش پیش ہیں اور اونچے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے ساتھ شجر کاری، جنگلی حیات کے تحفظ اور بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیمز بھی بنا رہے ہیں۔ کوئٹہ میں نوجوانوں کے لیے دیگر سرگرمیاں زیادہ میسر نہ ہونے سے کافی تعداد میں نوجوان ہائیکنگ کا شوق رکھتے ہیں۔ کوہ سلیمان رینج میں گھرے کوئٹہ کے چاروں اطراف میں کوہ زرغون، کوہ تکتو، کوہ چلتن اور کوہ مہردار واقع ہیں۔ ان تمام پہاڑیوں پر ہائیکنگ کے لیے سینکڑوں ٹریکس موجود ہیں۔ شہر سے قریب مری آباد میں پہاڑی پر پیدل اور سائیکلوں کے لیے بھی ٹریک تعمیر کیا گیا ہے اور ان چوٹیوں سے رات کے وقت کوئٹہ شہر کے انتہائی حسین مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔کوئٹہ میں ہائیکرز کی درجنوں ٹیمیں ہیں جو اجتماعی اور کچھ انفرادی طور فلاحی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مستونگ سے تعلق رکھنے ایک نوجوان کئی دہائیوں سے ان چوٹیوں پر شجر کاری کرتے اور کئی فٹ بلندی پر پانی پہنچاتے ہیں، جہاں ایک عام شخص بغیر کسی سامان کے آسانی سے پہنچ بھی نہیں سکتا۔کوئٹہ کے ہائیکرز ان پہاڑی چوٹیوں کو سرسبز کر رہے ہیں، جن میں ایک چوٹی چلتن پہاڑ کی بھی ہے۔ یہ چوٹی تین ہزار میٹر سے بلند ہے اور اس کے اطراف میں موسم انتہائی ٹھنڈا رہتا ہے اور سب سے پہلے برف باری بھی یہاں ہوتی ہے۔ دو سال قبل حکومت نے ان پہاڑی علاقوں میں زیتون کے درخت لگانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک کوئی اقدام نظر نہیں آ رہے۔ حکومت اگر ان نوجوانوں کو زیتون کے درخت فراہم کرے تو ان پہاڑی چوٹیوں کو نہ صرف سرسبز کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے معاشی طور پر فائدہ اٹھانے کے ساتھ سیاحت میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔