(سندھ بلڈنگ ) گلشن اقبال اسکیم 24 میں رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف شیخ اور بلڈنگ انسپکٹر عابد شاہ کی کھوڑو سسٹم کے تحت لوٹ کھسوٹ
13 ڈی پلاٹ نمبر A93،A121 پر کمرشل تعمیرات کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ، ذرائع
دکانیں اور کمرشل پورشن کی تعمیر جاری ہے ، خطیر رقم بٹورنے کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے
سندھ بلڈنگ کھوڑو سسٹم اسکیم 24 گلشن اقبال میں رہائشی پلاٹ کمرشل تعمیرات میں تبدیل اے ڈی آصف شیخ بی آئی عابد شاہ کی خطیر رقوم بٹورنے کے بعد 13 D پلاٹ نمبر A93 اور A121 پر کمرشل تعمیرات کی سرپرستی علاقے کے بنیادی مسائل میں اضافہ جرآت سروے بلڈنک افسران کے غیر قانونی دھندوں پر موقف لینے کی کوشش کی گئی رابطہ نہ ہو سکا۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں رائج کھوڑو سسٹم میں اسکیم 24 گلشن اقبال کے رہائشی پلاٹوں کو تیزی کے ساتھ کمرشل تعمیرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے جسکے باعث گیس بجلی پانی سیوریج اور پارکنگ جیسے بنیادی مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہیاور دلچسپ امر یہ ہے کہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی یہی وجہ ہے کہ افسران احتساب کے خوف سے لاپروا ہو کر ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ملکی محصولات کو بھاری نقصان پہنچانے میں مگن ہیںضلع شرقی کے علاقے گلشن اقبال کے بلاک 13D میں بھی خطیر رقوم بٹورنے کے بعد رہائشی پلاٹ A121 کمرشل پورشن یونٹ کی تیسری منزل تعمیر کی جارہی ہے جبکہ13D1 کے رہائشی پلاٹ نمبر A93 پر دکانیں اور کمرشل پورشن یونٹ کی تعمیرات اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف شیخ بلڈنگ انسپکٹر عابد شاہ کی سرپرستی میں جاری ہیں بلڈنگ افسران کے غیر قانونی دھندوں پر ڈی جی اسحاق کھوڑو سے موقف لینے کے لئے رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کمرشل تعمیرات رہائشی پلاٹ گلشن اقبال
پڑھیں:
چیف جسٹس کا قانونی معاونت کی نئی اسکیم اور عدالتی اصلاحات کا اعلان
اسلام آباد:انصاف تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک نئی قانونی معاونت اسکیم کا اعلان کیا جس کے تحت کوئی بھی سائل بغیر وکیل کے نہیں رہے گا، مالی طور پر غیرمستحق افراد کو تمام عدالتی سطحوں پر مجسٹریٹ عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک ریاست کی جانب سے مفت قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ برانچ رجسٹری پشاور میں خیبر پختونخوا کے وکلاء کے وفد سے ملاقات کی۔ وفد میں خیبر پختونخوا بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اور صوبے بھر کی 35 ضلعی بار ایسوسی ایشنز کے نمائندگان شامل تھے۔
چیف جسٹس نے وفد کو عدالتی اصلاحات کے بارے میں آگاہ کیا جو لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہو رہی ہیں۔ انھوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار بار نمائندگان کو کمیشن کا رکن بنایا گیا ہے تاکہ قانونی پالیسی سازی کے عمل میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
انھوں نے نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلوں سے بھی وفد کو آگاہ کیا جن میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر تشویش کا اظہار اورادارہ جاتی ردعمل کے لیے ایک کمیٹی کا قیام شامل ہے۔
ہائی کورٹس کو ضلعی عدلیہ پر بیرونی دباؤ کے تدارک کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت اور کمرشل لیٹیگیشن کاریڈورز اور ماڈل فوجداری ٹرائل کورٹس کا قیام تاکہ مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ممکن ہو، دیگر اقدامات میں 13 اقسام کے مقدمات کے لیے وقت کی حد مقرر کرنا، ڈبل ڈاکٹ کورٹ نظام کا پائلٹ، عدالت سے منسلک ثالثی، پروفیشنل ایکسیلنس انڈیکس کا نفاذ، ضلعی عدلیہ میں بھرتیوں اور تربیت کا معیار، بائیومیٹرک تصدیق، قیدیوں اور گواہوں کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری، مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے اخلاقی اصول اور عدالتی افسران کی فلاح و بہبود شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے پسماندہ اضلاع میں بنیادی عدالتی انفراسٹرکچر کی کمی، بالخصوص شمسی توانائی اور ڈیجیٹل رسائی کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا، چیف جسٹس سپریم کورٹ رجسٹری پشاور گئے اور دو اہم اجلاس کی صدارت کی اور پھر اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔
قبل ازیں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پشاور میں دس مقدمات پر سماعت کی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن لیلڈر عمر ایوب کی چیف جسٹس سے ملاقات نہیں ہوئی۔