ایران سے وطن واپس پہنچنے والے 709 پاکستانی کیا کہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
ایران اور اسرائیل کے مابین جاری جھڑپوں کے باعث ایران میں پھنسے پاکستانی زائرین اور طلبہ کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ انتظامیہ کے مطابق 709 پاکستانی شہری تفتان کے راستے سے بحفاظت کوئٹہ پہنچ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق میں پھنسے 415 پاکستانی زائرین کی وطن واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا، پاکستانی سفارتخانہ بغداد
واپس آنے والوں میں 207 طالب علم اور 502 زائرین شامل ہیں جو اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد ایران میں غیر یقینی صورتحال کے باعث پھنس کر رہ گئے تھے۔
ان تمام افراد کی واپسی بلوچستان حکومت، وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی بروقت کوآرڈینیشن کے باعث ممکن ہوئی۔
حکام کے مطابق واپس لائے گئے افراد کا مکمل اندراج، اسکریننگ اور ابتدائی طبی معائنہ سرحد پر کیا گیا اور پھر انہیں کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔
مزید پڑھیے: عراق سے خصوصی پروازوں کے ذریعے 268 پاکستانی زائرین ملک واپس پہنچ گئے، وزارت خارجہ
وطن واپس پہنچنے والے زائرین اور طلبہ نےحکومت پاکستان، سیکیورٹی اداروں اور سرحدی حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں ان کی وطن واپسی یقینی بنانا ایک بہت بڑا ریلیف ہے۔ مزید تفصیل جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران میں پاکستانی زائرین ایران میں پاکستانی طلبہ پاکستانی زائرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران میں پاکستانی زائرین ایران میں پاکستانی طلبہ پاکستانی زائرین پاکستانی زائرین ایران میں وطن واپس
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔