Daily Ausaf:
2025-11-03@10:04:24 GMT

قرآن مجید صرف ماضی کی نہیں مستقبل کی بھی کتاب ہے

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

ایک بات جو ہم روا روی میں بسا اوقات کہہ دیتے ہیں، یہ ہے کہ مدارس میں قدیم تعلیم ہوتی ہے اور سکول کالج یونیورسٹی میں جدید تعلیم ہوتی ہے۔ بظاہر تناظر یہی ہے۔ مجھے جدید تعلیم سے انکار نہیں ہے، کالج یونیورسٹی کی تعلیم کا میں بھی قائل ہوں اور اسے قوم اور سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن اس تقابل میں قرآن و سنت کی تعلیم کو قدیم کہنے میں مجھے اشکال ہے۔ علماء بیٹھے ہیں، میں قدیم اور حادث کی بحث میں نہیں جا رہا، قدیم اور جدید کی بحث میں جا رہا ہوں۔ جہاں قدیم اور حادث کی بات ہو گی وہاں قرآن قدیم ہے، یہ ہمارا ایمان ہے۔ لیکن قدیم اور جدید کے حوالے سے میری زبان پر قرآن مجید کے لیے قدیم کا لفظ نہیں چڑھتا۔
قدیم اسے کہتے ہیں جس کا زمانہ گزر چکا ہو، اور جدید اسے کہتے ہیں جو اس کی جگہ نئی چیز آئے۔ کیا قرآن مجید کا زمانہ گزر گیا ہے؟ دیکھیں پاکستان میں تین دستور نافذ ہوئے: ۱۹۵۶ء کا، ۱۹۶۲ء کا، اور اب ۱۹۷۳ء کا ہے۔ پہلے دو ختم ہو گئے اس لیے قدیم دستور ہیں، اور ۱۹۷۳ء کا باقی ہے تو یہ موجودہ دستور ہے۔ تورات کو آپ قدیم کہہ لیں، انجیل کو قدیم کہہ لیں، زبور کو قدیم کہہ لیں، قرآن مجید قدیم نہیں ہے۔ قرآن مجید کل بھی تازہ تھا، آج بھی تازہ ہے، قیامت تک تازہ رہے گا۔ قرآن مجید جب صفا کی پہاڑی پر نازل ہونا شروع ہوا تھا، اس وقت سے لے کر جب قیامت سے پہلے آخری نشانی کے طور پر قرآن مجید کے اوراق سے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے، تب تک قرآن مجید کا زمانہ ہے، اس لیے قرآن مجید کو قدیم اور جدید کے حوالے سے قدیم کہنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔
میں اس سے ایک قدم آگے بڑھوں گا کہ اگر تقابل کرنا ہے تو تھوڑا سا تقابل مزید کر لیا جائے۔ میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا قائل ہوں اور اسے سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن کالج اور یونیورسٹی جو تعلیم دیتے ہیں وہ حال کی تعلیم ہے، جبکہ قرآن مجید مستقبل کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ ہمارے ہاں کالج میں جو سائنس آج پڑھائی جاتی ہے، کیا ایک سو سال پہلے یہی تھی ؟اور ایک سو سال بعد یہی ہو گی؟ یہ حال کی سائنس ہے۔ اسی طرح جو ریاضی پڑھائی جاتی ہے وہ حال کی ریاضی ہے۔ ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی ہے، سو سال پہلے کی ٹیکنالوجی اور تھی، آج کی ٹیکنالوجی اور ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ پچاس سال بعد بھی یہی ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی رہے گی۔ اس لیے اگر تقابل کرنا ہے تو آج ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے یہ حال کی تعلیم ہے، مستقبل میں اس تعلیم کا اس شکل میں باقی رہنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید آج سے ہزار سال پہلے بھی اسی شکل میں تھا، آج بھی اسی شکل میں ہے، اور اگر ہزار سال اور باقی ہیں، جو اللہ کو پتہ ہے، تو ہزار سال بعد بھی قرآن اسی شکل میں رہے گا۔
اس لیے قرآن مجید کے حوالے سے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ قدیم تعلیم نہیں ہے، یہ تو مستقبل کی تعلیم بھی ہے۔ اور اس بات کو آج کا عالمی دانشور بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پہلے بھی کئی بار یہ حوالہ دے چکا ہوں، آج بھی دوں گا، پاپائے روم نے کچھ عرصہ قبل ایک کمیٹی بنائی دنیا کے معاشی نظام کا جائزہ لینے کے لیے۔اس کمیٹی نے رپورٹ دی کہ دنیا کا موجودہ معاشی نظام زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے، اگر دنیا کو صحیح معنی میں کوئی معاشی نظام دینا ہے تو ان اصولوں کو اپنانا ہو گا جو قرآن بیان کرتا ہے۔ آج کی جدید عالمی دانش یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہماری مستقبل کی علمی، فکری، اخلاقی ، روحانی ضروریات اگر کہیں سے پوری ہو سکتی ہیں تو قرآن سے ہو سکتی ہیں۔ اس لیے قرآن مجید تو ایڈوانس سٹڈی ہے، یہ مدرسے مستقبل کی اور آنے والے دور کی ضروریات کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں پورے ایمان کے ساتھ کہتا ہوں کہ آنے والا دور قرآن مجید کا ہے۔ دنیا کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید کے اصولوں کی طرف آئے، سیاست میں بھی، معاشرت میں بھی، معیشت میں بھی، اخلاقیات میں بھی، اور روحانیات میں تو ہے ہی۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن مجید کو قدیم اور جدید کی تقسیم میں نہ ڈالیں، قرآن مجید ماضی کی کتاب بھی ہے، حال کی کتاب بھی ہے، اور مستقبل کی کتاب بھی ہے۔
مغربی دانشوروں سے جب کبھی بات کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ تمہیں تو مدرسے کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جس تعلیم کی ضرورت مغرب آج محسوس کرنے لگا ہے، اس کا تسلسل کون قائم رکھے ہوئے ہے؟ کیا آج عیسائی بائبل پڑھا رہے ہیں سکول یونیورسٹی میں؟ انجیل یا تورات پڑھائی جا رہی ہے؟ قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے اور ان شاء اللہ یہ دنیا کی گلوبل سوسائٹی کے فکری، علمی، دینی، روحانی، اخلاقی تقاضے پورے کرے گا ۔
دوسری بات یہ کہ دنیا کے بہت سے لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ دین اس لیے باقی ہے کہ مدرسہ باقی ہے۔ اسی لیے وہ مدرسے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ اس کو محدود کرو، دباؤ میں رکھو، بلکہ ہو سکے تو بند ہی کر دو۔ یہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ مغرب ایک بات سمجھے بیٹھا ہے کہ اس مادر پدر آزاد سوسائٹی کے دور میں دنیا پر غلبے کے راستے میں رکاوٹ صرف دین ہے۔ جب تک یہ دین باقی ہے کم از کم مسلم سوسائٹی میں تو مغرب کا فکری اور ثقافتی غلبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا بریکر ہے۔ دوسرا ان کے ذہن میں یہ ہے کہ دین باقی ہے مدرسے کی وجہ سے، اس لیے دین کو سوسائٹی سے بے دخل کرنے کے لیے مدرسے کو قابو کرو۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قدیم اور جدید قرا ن مجید کے مستقبل کی کی تعلیم جاتی ہے شکل میں نہیں ہے میں بھی کو قدیم باقی ہے حال کی اس لیے کے لیے بھی ہے

پڑھیں:

دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ دعا ہے کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پہلی سے چوتھی جماعت تک عائشہ باوانی اسکول میں پڑھا ہوں، باوانی فیملی کی تعلیم میں بہت کاوشیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبعلم اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں،کل کو کوئی بھی ملک کا وزیر بن سکتا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم سب سے پیچھے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے فقط روزگار مہیا کرنےکے لیے نہیں بلکہ مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل کی جنگ ہے جو لیبارٹریز کے اندر لڑی جا رہی ہے، نئی ایجادات ہونی چاہئیں تاکہ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرسکیں، او لیول اے لیول کو بڑھاوا دیا ہے اس سے ہماری روٹس خراب ہوگئی ہیں۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ میرے بچپن میں کراچی ترقی یافتہ اور روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا، دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے۔ 

متعلقہ مضامین

  • دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • حیدرآباد: امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ زوم پر جبکہ صوبائی جنرل سیکرٹری محمد یوسف، امیر جماعت اسلامی حیدرآباد حافظ طاہر مجید، ضلعی جنرل سیکرٹری محمد حنیف شیخ مرکز تبلیغ اسلام میں اجتماع ارکان سے خطاب کررہے ہیں
  • بُک شیلف
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب
  • تعلیم یافتہ نوجوان ملک و قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
  • بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا: حافظ نعیم الرحمن