Daily Ausaf:
2025-08-04@09:15:54 GMT

قرآن مجید صرف ماضی کی نہیں مستقبل کی بھی کتاب ہے

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

ایک بات جو ہم روا روی میں بسا اوقات کہہ دیتے ہیں، یہ ہے کہ مدارس میں قدیم تعلیم ہوتی ہے اور سکول کالج یونیورسٹی میں جدید تعلیم ہوتی ہے۔ بظاہر تناظر یہی ہے۔ مجھے جدید تعلیم سے انکار نہیں ہے، کالج یونیورسٹی کی تعلیم کا میں بھی قائل ہوں اور اسے قوم اور سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن اس تقابل میں قرآن و سنت کی تعلیم کو قدیم کہنے میں مجھے اشکال ہے۔ علماء بیٹھے ہیں، میں قدیم اور حادث کی بحث میں نہیں جا رہا، قدیم اور جدید کی بحث میں جا رہا ہوں۔ جہاں قدیم اور حادث کی بات ہو گی وہاں قرآن قدیم ہے، یہ ہمارا ایمان ہے۔ لیکن قدیم اور جدید کے حوالے سے میری زبان پر قرآن مجید کے لیے قدیم کا لفظ نہیں چڑھتا۔
قدیم اسے کہتے ہیں جس کا زمانہ گزر چکا ہو، اور جدید اسے کہتے ہیں جو اس کی جگہ نئی چیز آئے۔ کیا قرآن مجید کا زمانہ گزر گیا ہے؟ دیکھیں پاکستان میں تین دستور نافذ ہوئے: ۱۹۵۶ء کا، ۱۹۶۲ء کا، اور اب ۱۹۷۳ء کا ہے۔ پہلے دو ختم ہو گئے اس لیے قدیم دستور ہیں، اور ۱۹۷۳ء کا باقی ہے تو یہ موجودہ دستور ہے۔ تورات کو آپ قدیم کہہ لیں، انجیل کو قدیم کہہ لیں، زبور کو قدیم کہہ لیں، قرآن مجید قدیم نہیں ہے۔ قرآن مجید کل بھی تازہ تھا، آج بھی تازہ ہے، قیامت تک تازہ رہے گا۔ قرآن مجید جب صفا کی پہاڑی پر نازل ہونا شروع ہوا تھا، اس وقت سے لے کر جب قیامت سے پہلے آخری نشانی کے طور پر قرآن مجید کے اوراق سے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے، تب تک قرآن مجید کا زمانہ ہے، اس لیے قرآن مجید کو قدیم اور جدید کے حوالے سے قدیم کہنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔
میں اس سے ایک قدم آگے بڑھوں گا کہ اگر تقابل کرنا ہے تو تھوڑا سا تقابل مزید کر لیا جائے۔ میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا قائل ہوں اور اسے سوسائٹی کی ضرورت سمجھتا ہوں، لیکن کالج اور یونیورسٹی جو تعلیم دیتے ہیں وہ حال کی تعلیم ہے، جبکہ قرآن مجید مستقبل کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ ہمارے ہاں کالج میں جو سائنس آج پڑھائی جاتی ہے، کیا ایک سو سال پہلے یہی تھی ؟اور ایک سو سال بعد یہی ہو گی؟ یہ حال کی سائنس ہے۔ اسی طرح جو ریاضی پڑھائی جاتی ہے وہ حال کی ریاضی ہے۔ ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی ہے، سو سال پہلے کی ٹیکنالوجی اور تھی، آج کی ٹیکنالوجی اور ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ پچاس سال بعد بھی یہی ٹیکنالوجی پڑھائی جاتی رہے گی۔ اس لیے اگر تقابل کرنا ہے تو آج ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے یہ حال کی تعلیم ہے، مستقبل میں اس تعلیم کا اس شکل میں باقی رہنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید آج سے ہزار سال پہلے بھی اسی شکل میں تھا، آج بھی اسی شکل میں ہے، اور اگر ہزار سال اور باقی ہیں، جو اللہ کو پتہ ہے، تو ہزار سال بعد بھی قرآن اسی شکل میں رہے گا۔
اس لیے قرآن مجید کے حوالے سے میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ قدیم تعلیم نہیں ہے، یہ تو مستقبل کی تعلیم بھی ہے۔ اور اس بات کو آج کا عالمی دانشور بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پہلے بھی کئی بار یہ حوالہ دے چکا ہوں، آج بھی دوں گا، پاپائے روم نے کچھ عرصہ قبل ایک کمیٹی بنائی دنیا کے معاشی نظام کا جائزہ لینے کے لیے۔اس کمیٹی نے رپورٹ دی کہ دنیا کا موجودہ معاشی نظام زیادہ دیر چلنے والا نہیں ہے، اگر دنیا کو صحیح معنی میں کوئی معاشی نظام دینا ہے تو ان اصولوں کو اپنانا ہو گا جو قرآن بیان کرتا ہے۔ آج کی جدید عالمی دانش یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہماری مستقبل کی علمی، فکری، اخلاقی ، روحانی ضروریات اگر کہیں سے پوری ہو سکتی ہیں تو قرآن سے ہو سکتی ہیں۔ اس لیے قرآن مجید تو ایڈوانس سٹڈی ہے، یہ مدرسے مستقبل کی اور آنے والے دور کی ضروریات کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میں پورے ایمان کے ساتھ کہتا ہوں کہ آنے والا دور قرآن مجید کا ہے۔ دنیا کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ قرآن مجید کے اصولوں کی طرف آئے، سیاست میں بھی، معاشرت میں بھی، معیشت میں بھی، اخلاقیات میں بھی، اور روحانیات میں تو ہے ہی۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن مجید کو قدیم اور جدید کی تقسیم میں نہ ڈالیں، قرآن مجید ماضی کی کتاب بھی ہے، حال کی کتاب بھی ہے، اور مستقبل کی کتاب بھی ہے۔
مغربی دانشوروں سے جب کبھی بات کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ تمہیں تو مدرسے کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ جس تعلیم کی ضرورت مغرب آج محسوس کرنے لگا ہے، اس کا تسلسل کون قائم رکھے ہوئے ہے؟ کیا آج عیسائی بائبل پڑھا رہے ہیں سکول یونیورسٹی میں؟ انجیل یا تورات پڑھائی جا رہی ہے؟ قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے اور ان شاء اللہ یہ دنیا کی گلوبل سوسائٹی کے فکری، علمی، دینی، روحانی، اخلاقی تقاضے پورے کرے گا ۔
دوسری بات یہ کہ دنیا کے بہت سے لوگ اس مغالطے میں ہیں کہ دین اس لیے باقی ہے کہ مدرسہ باقی ہے۔ اسی لیے وہ مدرسے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ اس کو محدود کرو، دباؤ میں رکھو، بلکہ ہو سکے تو بند ہی کر دو۔ یہ کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں؟ مغرب ایک بات سمجھے بیٹھا ہے کہ اس مادر پدر آزاد سوسائٹی کے دور میں دنیا پر غلبے کے راستے میں رکاوٹ صرف دین ہے۔ جب تک یہ دین باقی ہے کم از کم مسلم سوسائٹی میں تو مغرب کا فکری اور ثقافتی غلبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا بریکر ہے۔ دوسرا ان کے ذہن میں یہ ہے کہ دین باقی ہے مدرسے کی وجہ سے، اس لیے دین کو سوسائٹی سے بے دخل کرنے کے لیے مدرسے کو قابو کرو۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قدیم اور جدید قرا ن مجید کے مستقبل کی کی تعلیم جاتی ہے شکل میں نہیں ہے میں بھی کو قدیم باقی ہے حال کی اس لیے کے لیے بھی ہے

پڑھیں:

’شہزادی مارگریٹ فیٹل الکحل سنڈروم کا شکار تھیں، شاہی سوانح عمری نے نئی بحث چھیڑ دی

برطانوی شہزادی مارگریٹ کی زندگی پر مبنی ایک نئی کتاب نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ’پرنسس مارگریٹ اینڈ دی کرس، این انکوائری اِنٹو اے رائل لائف‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس تصنیف میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شہزادی مارگریٹ پیدائشی طور پر فیٹل الکحل سنڈروم (ایف اے ایس) کا شکار تھیں، جو مبینہ طور پر ان کی والدہ، کوئن مدر کے حمل کے دوران شراب نوشی کا نتیجہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شہزادے جارج کی سالگرہ، شہزادی شارلٹ کو بھی اہم ذمہ داری مل گئی

یہ دعویٰ پلٹزر پرائز کی نامزد بایوگرافر میریل سیکریسٹ نے کیا ہے۔ کتاب میں شہزادی مارگریٹ کی مزاجی بے اعتدالیاں، جسمانی نشوونما میں کمی، سیکھنے میں مشکلات اور مستقل دردِ شقیقہ جیسے مسائل کو ایف اے ایس کی ممکنہ علامات کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ادھر شہزادی مارگریٹ کی ایک قریبی دوست نے کتاب کے مندرجات کو عجیب و غریب اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ شہزادی کی ساری شخصیت صرف اس بنیاد پر بیان کی جائے کہ ان کی والدہ نے حمل کے دوران شراب پی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہزادی ایک ذہین، خوش مزاج اور باوقار خاتون تھیں جن کے دلچسپیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا اور وہ ماں اور نانی بھی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بیلجیئم کی شہزادی کی جانب سے پرنس ہیری کی حمایت، کنگ چارلس سے صلح کی کوششوں پر تبصرہ

کتاب پر تنقید صرف قریبی حلقے تک محدود نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا صارفین نے بھی شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ معروف بایوگرافر اور صحافی کرسٹوفر ولسن نے ایکس پر لکھا کہ یہ ایک پاگل پن پر مبنی نظریہ ہے جس کی کوئی شہادت موجود نہیں اور اسے کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔

ایک شاہی مداح نے تبصرہ کیا کہ یہ شرمناک دعویٰ ہے، شہزادی مارگریٹ نہایت باوقار، دلکش اور زندہ دل شخصیت کی مالک تھیں، ان کے چہرے پر ایف اے ایس ڈی کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اردن کی شہزادی کا یہاں ننھے مہمان کی آمد، شاہ و ملکہ استقبال کے لیے اسپتال پہنچ گئے

کتاب میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ ملکہ مدر کا تعلق اسکاٹ لینڈ کے اعلیٰ طبقے کے بوئز لیون خاندان سے تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شراب نوشی میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ 1930 کی دہائی میں جب شہزادی مارگریٹ کا حمل تھا، اس وقت حاملہ خواتین کو شراب سے پرہیز کرنے کے متعلق کوئی باضابطہ طبی ہدایت موجود نہیں تھی۔

فیٹل الکحل سنڈروم ایک ایسا طبی مسئلہ ہے جو دورانِ حمل ماں کے شراب نوشی کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے اثرات بچے پر پوری زندگی باقی رہ سکتے ہیں۔ کلیو لینڈ کلینک کے مطابق، یہ جسمانی و ذہنی نشوونما میں رکاوٹ اور رویوں میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بایوگرافی برطانوی شہزادی شراب فیٹل الکحل سنڈروم مارگریٹ

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے عالمی نظریات کا تہذیبی فرق اور انسانیت کا مستقبل
  • تعلیم خیرات نہیں،قوم کا آئینی حق ہے، حکومت ٹیکس لیتی ہے مگربنیادی حق دینے کو تیار نہیں،حافظ نعیم الرحمان
  • ’اہلیہ کیخلاف نازیبا الفاظ پر شہزادہ ہیری نے بھائی کو مکّا جڑ دیا‘، نئی کتاب میں دعویٰ
  • کتاب ہدایت
  • کتابیں جھانکتی ہیں!
  • اخبارات اور سوشل میڈیا
  • پڑھی لکھی شہری لڑکیاں جلد شادی سے کیوں گریزاں ہیں؟
  • ’شہزادی مارگریٹ فیٹل الکحل سنڈروم کا شکار تھیں، شاہی سوانح عمری نے نئی بحث چھیڑ دی
  • مستقبل کے معماروں کو سلام: ہیروزِ پاکستان کو قوم کا خراجِ تحسین
  • چین کی معیشت کا مستقبل روشن ہے ، نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن