اے سپہ سالارِ وطن! کیا آپ کو قوم کی بیٹی یاد ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمیں خبر ملی ہے کہ امریکا کی فصیلوں میں ایک دروازہ کھلا، اور اْس دروازے سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قافلہ داخل ہوا۔ وہی امریکا جس نے کبھی ہمارے وزیراعظم کے فون تک نہ اٹھائے، آج اس کا صدر آپ سے ملاقات کو اعزاز کہہ رہا ہے اور ہمیں خوشی ہوئی… بے حد خوشی۔
لیکن اے سردار! یہ خوشی تاریخ کی تھکن سے نکلی ہے اور اس کے پیچھے بہت سے سوال، خدشے، زخم اور امیدیں چھپی ہیں۔ ماضی کی گرد اْڑتی ہے… اور ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم نے وعدے سنے، وفاداری نبھائی، لیکن 1965 کی جنگ میں ہم تنہا تھے، 1971 میں ہمارا بازو کاٹ دیا گیا، افغان جہاد کے بعد ہمیں پْشیمانیوں کی دھول ملی، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے بچوں کی قبریں اور دنیا کی طعنہ زنی، پھر FATF آیا، ڈرون حملے ہوئے اور پریسلر کی چھری چلی۔
تو سوال ہے سردار… کیا یہ تاریخ دہرانے کا آغاز تو نہیں؟ کیا امریکا کی یہ گرم جوشی کسی نئے سرد طوفان کی تمہید تو نہیں؟ کیا بھارت کو تھپکی اور پاکستان کو تسلی… ایک پرانی چال تو نہیں؟ ہم جانتے ہیں آپ باخبر ہیں مگر قوم بھی باشعور ہو چکی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ امریکا کے پاس دوست نہیں، صرف مفادات ہوتے ہیں۔ قوم آپ پر فخر کرتی ہے کہ آپ نے میدان میں، دل میں، وردی میں، ہر جگہ قرآن، سنت اور وطن کی عزت کو ترجیح دی۔ مگر اے سپہ سالار! اک سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ شاہنواز فاروقی کا شعر ہے
’’نظام زیست کی حرمت بحال کرتے رہو
کوئی بھی بزم ہو اْٹھ کر سوال کرتے رہو‘‘
وہ اک سوال ہے… جو کہ بہت نازک… اور بہت پرانا۔ جب آپ نے ٹرمپ سے مصافحہ کیا تو کیا آپ کے دل میں ایک بیٹی کی قید کی کسک بھی جاگی؟ کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام، جو مشرف کی غلامانہ سوچ اور سرد مہری کی بھینٹ چڑھی، جسے 86 سال کی سزا ملی صرف اس لیے کہ وہ قرآن سے محبت کرتی تھی۔ کیا اس بیٹی کا ذکر، اس خاندان کا دکھ، اس قوم کا زخم… آپ کے الفاظ میں ڈھلا؟
اے محافظ وطن! قوم کی آنکھ نم ہے… امید زندہ ہے… قوم کو معلوم ہے کہ آپ وفا کے قائل ہیں، آپ کے سینے میں وہ دل دھڑکتا ہے جو سجدے میں جھکتا ہے، تو ہمیں امید ہے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے پہلی بار کسی نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہو گی۔ لیکن اے سپہ سالار…
ہم پاکستانی صرف یقین سے مطمئن نہیں، ہمیں خبر بھی چاہیے، مرہم بھی، اور جواب بھی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وقت حکمت و جرأت کا ہے، اور قوم دعاگو ہے کہ آپ کا ہر قدم، ہر بات، ہر ملاقات، جذبہ جہاد، عزتِ ملت، اور غیرتِ قوم کا علم بردار ہو۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ یہ جو فتوحات ہم دیکھ رہے ہیں، یہ صرف توپ، ٹینک یا تعلق کی بدولت نہیں، یہ ایمان، تقویٰ، اور جہاد کے ثمرات ہیں۔ تو اس وقت ہمیں صرف جشن نہیں بلکہ بیداری، احتیاط اور توازن کی ضرورت ہے۔ اور آخر میں فقط ایک دعا: ’’اے اللہ! ہمیں ایسے رہنما دے جو دشمن سے ڈرے نہیں، اور دوست کو پہچانے، ہمیں ایسی حکمت دے جو غیرت کے ساتھ جڑی ہو، اور ایسی فتح دے جو صرف میدان میں نہیں، بلکہ قید خانوں، محروم دلوں، اور مظلوم بیٹیوں کے لیے ہو۔ آمین۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے کہ ا
پڑھیں:
بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت
بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت WhatsAppFacebookTwitter 0 4 August, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
ایک ایسی دنیا میں جہاں نایاب جانوروں کو بچانے کی مہمات اور جانوروں پر ظلم کے خلاف احتجاج چند گھنٹوں میں عالمی حمایت حاصل کر لیتے ہیں، وہاں مسلمانوں کے بے رحم قتلِ عام پر مسلسل خاموشی ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکی ہے—چاہے وہ 1990 کی دہائی میں بوسنیا ہو یا آج کا غزہ۔ وہی معاشرے جو جانوروں کے حقوق کے لیے اخلاقی جوش و جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، وہ اس وقت بے حس دکھائی دیتے ہیں جب مسلمانوں کی لاشیں گرتی ہیں، ان کے شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں، یا ان کی عورتیں فریاد کرتی ہیں۔ یہ منافقت محض سطحی نہیں رہی؛ یہ ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ دہرا معیار اتنا رچ بس چکا ہے کہ اب نہ ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے نہ شرمندگی پیدا کرتا ہے۔
یورپ اور مغرب میں انسانی حقوق کے علمبردار فوراً متحرک ہو جاتے ہیں جب کوئی وہیل ساحل پر آ کر پھنس جائے، کسی کتے پر ظلم ہو جائے، یا کسی سرکس میں ہاتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ لیکن جب مسلمان مردوں کو بغیر کسی عدالتی عمل کے قتل کر دیا جاتا ہے، بچوں کے جسم بمباری سے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں، یا عورتیں منظم ظلم و جبر کا شکار بنتی ہیں، تو ساری دنیا کی یہ اخلاقی آوازیں یکایک خاموش ہو جاتی ہیں۔ یہی چُنیدہ ہمدردی عالمی انسانی حقوق کی عمارت میں چھپی سب سے گہری دراڑ کو بے نقاب کرتی ہے۔
اپریل 1992 سے دسمبر 1995 کے درمیان بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی تاریخ کے تاریک ترین ابواب میں شمار ہوتے ہیں۔ یوگوسلاویہ کے انہدام کے بعد، سرب قوم پرست افواج نے بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف”نسلی تطہیر”کی ایک منظم مہم کا آغاز کیا۔ پریئیڈور، فوچا، زوور نِک، اور سب سے بڑھ کر سریبرینیتسا جیسے شہر قتل گاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ ایک لاکھ سے زائد بوسنیائی باشندوں کو قتل کیا گیا—جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جولائی 1995 میں سریبرینیتسا کے بدنامِ زمانہ قتل عام میں 8,372 سے زائد مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا، وہ بھی اُس وقت جب وہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فوج کے تحفظ میں تھے۔ وہاں تعینات ڈچ اقوامِ متحدہ کی فورس، جو نہایت ناقص وسائل کی حامل اور سیاسی طور پر پابند تھی، بے بسی سے اس قتلِ عام کو دیکھتی رہی۔
لیکن ظلم صرف قتل و غارت تک محدود نہیں تھا۔ اندازاً پچاس ہزار خواتین، جنہیں اومارسکا اور ترنوپولجے جیسے عقوبت خانوں میں قید رکھا گیا، جنسی زیادتی اور جنسی غلامی کا نشانہ بنیں—یہ سب جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ واقعات کسی انفرادی بگاڑ کا نتیجہ نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر ایک قوم کو مٹانے کی منظم حکمت عملی تھی۔ اس کے باوجود، اُس وقت کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے نسل کشی کہنے سے گریز کیا، اور کئی برسوں تک اسے محض خانہ جنگی قرار دیتی رہیں۔ اقوامِ متحدہ نے قراردادیں منظور کیں، نیٹو نے مداخلت پر بحث کی، مگر خونریزی جاری رہی، یہاں تک کہ بوسنیا ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
اب ذرا نظر ڈالیں غزہ پر۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ حالیہ تاریخ میں فلسطینی عوام پر ہونے والا سب سے طویل اور خونی حملہ بن چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق، 2025 کے وسط تک 38,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں—جن میں 70 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ 80,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری صرف حماس کے انفراسٹرکچر تک محدود نہیں رہی، بلکہ اسپتالوں، اسکولوں، اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں اور رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ صرف ”الاحلی بپٹسٹ اسپتال” پر حملے میں تقریباً 500 افراد شہید ہوئے۔ رفح کراسنگ، جو کہ غزہ کی واحد امدادی اور انخلائی راہداری ہے، کو کئی بار بمباری کا نشانہ بنایا گیا، جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی امداد کو موت کے خطرے میں بدل دیا۔
اور اس تمام تباہی کے باوجود، آج تک کوئی مؤثر بین الاقوامی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی۔ بوسنیا کی طرح، اقوامِ متحدہ نے محض مذمت کی، اپیلیں کیں، اور ناکام رہی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز تو کیا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں طاقتور ممالک کی ویٹو پاور نے کسی بھی عملی دباؤ یا اقدام کو روک دیا ہے۔
لیکن اس سے بھی زیادہ شرمناک اور نظرانداز کرنا مشکل بات خود مسلم دنیا کی پراسرار خاموشی ہے۔ پچاس سے زائد ممالک، بے پناہ دولت اور سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود مسلم دنیا عمومی طور پر بے عملی کا شکار رہی ہے۔ یہ خاموشی اندرونی نااتفاقی، مغربی معیشتوں پر انحصار، سفارتی تنہائی کے خوف، اور سیاسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ بہت سے مسلم ممالک داخلی بحرانوں میں الجھے ہوئے ہیں یا وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے گریزاں ہیں—ایسی طاقتیں جو ان کی حکومتوں کو سیکیورٹی، امداد اور بین الاقوامی سطح پر قبولیت فراہم کرتی ہیں۔ بعض ممالک تو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے ہیں یا معاشی مفادات کے بدلے غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کر چکے ہیں۔ ان کی خاموشی بے بسی کی نہیں، بلکہ مفاہمت اور مفاد پرستی کی ہے—ضمیر کے بجائے آرام کو چننے کی خاموشی۔
تنظیمِ تعاونِ اسلامی، جو تقریباً دو ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے، نے بیانات جاری کیے، کانفرنسیں منعقد کیں، اور قراردادیں پیش کیں—لیکن یہ سب کچھ کسی متحدہ سفارتی یا اقتصادی دباؤ میں تبدیل نہ ہو سکا۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں مسلمان نہ صرف بیرونی جارحیت کا شکار ہوئے، بلکہ اپنے ہی بھائیوں کی طرف سے حقیقی اور بہادری پر مبنی یکجہتی کے فقدان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
یہ مماثلتیں نہایت واضح ہیں۔ بوسنیا اور غزہ دونوں میں جارح قوتوں کو عالمی تذبذب، بااثر لابیوں کو ناراض کرنے کے خوف، یا اسلاموفوبیا کی گہری جڑوں نے کھل کر جگہ دی۔ بوسنیا میں سرب قوم پرستی کو بے لگام چھوڑ دیا گیا، جبکہ غزہ میں صیہونی توسیع پسندی کو ”سلامتی” کے بہانے کے پیچھے چھپنے کا موقع دیا گیا۔ دونوں صورتوں میں خود مسلم شناخت کو ایک خطرہ بنا کر پیش کیا گیا—انسانیت سے عاری، قانونی حیثیت سے محروم، اور شیطانی رنگ میں رنگا ہوا۔
ظلم پر مزید ظلم یہ ہے کہ جنگوں کے بعد حقائق کو دھندلایا جاتا ہے۔ بوسنیا کی تباہی کے بعد اسے ”ڈیٹن معاہدے” کے حوالے کیا گیا، جس نے نسلی تقسیم کو مستقل شکل دی اور جارحیت کرنے والوں کو زمین دے کر انعام دیا۔ بین الاقوامی برادری نے امداد تو بھیجی، لیکن انصاف نہیں۔ غزہ کو بھی شاید کبھی تعمیر نو کے لیے فنڈز مل جائیں، لیکن اُس کی سیاسی آواز کی قیمت پر۔ مرنے والے واپس نہیں آئیں گے۔ یتیم بچے بھولیں گے نہیں۔ اور دنیا بے حسی سے آگے بڑھ جائے گی—بغیر کسی ندامت اور بغیر کسی تبدیلی کے۔
تو ہمارے پاس بچتا کیا ہے؟ جب مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے تو عالمی خاموشی کا ایک تسلسل۔ ایک ایسا نظامِ بین الاقوامی قانون جو انصاف کو چُن کر لاگو کرتا ہے۔ ایک ایسا میڈیا بیانیہ جو مزاحمت کو ”دہشت گردی” اور بمباری کو ”اپنی دفاع” کا نام دیتا ہے۔ ہمارے پاس یہ تلخ حقیقت بچتی ہے کہ عالمی نظام کی نظر میں—اور افسوسناک طور پر بعض مسلم حکمرانوں کی نگاہ میں بھی—ایک مسلمان کی جان کی قیمت مغرب میں ایک جانور سے بھی کم ہے۔
جب ہم غزہ کے ملبے اور بوسنیا کی قبروں کو دیکھتے ہیں، تو ہم صرف ماضی اور حال کے سانحات کو نہیں دیکھ رہے—بلکہ ہم جدید تہذیب کی ناکامی کو دیکھ رہے ہیں۔ قوموں کو صرف بم اور گولیاں تباہ نہیں کرتیں—بلکہ اُن لوگوں کی خاموشی تباہ کرتی ہے جو انہیں روک سکتے تھے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرتمنا بھاٹیا نے کوہلی اور عبدالرزاق سے تعلقات کی خبروں پر خاموشی توڑ دی “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” آبادی اور ماحولیاتی آلودگی حلال اور حرام کے درمیان ختم ہونے والی لکیر جب ہمدردی براعظموں کو عبور کرتی ہے جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم