Jasarat News:
2025-06-20@06:33:28 GMT

رہنما اور قوموں کے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقبال نے کہا ہے
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ
اقبال کے اس شعر کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا خسارہ
اقبال کے اس شعر کے فرق کا سبب یہ ہے کہ قومیں اپنے رہنمائوں کی طرح ہوتی ہیں۔ رہنما عظیم ہوتے ہیں تو قومیں بھی عظیم بن جاتی ہیں۔ رہنما حقیر ہوں تو قومیں بھی حقیر بن جاتی ہیں۔ چنانچہ رہنما یا تو ملت کے مقدر کا ’’ستارہ‘‘ ہوتے ہیں یا ’’خسارہ‘‘۔ انسان کی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔
کہنے کو سیدنا عمرؓ ایک فرد ہی تھے مگر سیدنا عمرؓ نے مسلم سلطنت کو عظیم سے عظیم تر بنا دیا۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز یعنی قیصر و کسریٰ کو منہ کے بل گرایا۔ سیدنا عمرؓ کے عہد میں فوج کا باضابطہ ادارہ وجود میں آیا۔ سیدنا عمرؓ نے خفیہ اداروں کی بنیاد رکھی۔ ان کے زمانے میں ریاست کے ہر شہری کا وظیفہ مقرر ہوا۔ سیدنا عمرؓ نے کئی نئے شہر آباد کیے۔ انہوں نے پولیس کے ادارے کی بنیاد رکھی۔ سیدنا عمرؓ نے 50 سے زیادہ کام ایسے کیے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی سلطنت ملوکیت میں بھی بدلی تو بھی مسلمانوں نے کہیں ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ کہیں تین سو سال تک حکومت کی۔
عمر بن عبدالعزیز سیدنا عمرؓ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا عہد حکومت 717 سے 720 تک رہا مگر انہوں نے صرف تین برسوں میں ایسے شاندار کارنامے انجام دیے کہ تاریخ انہیں پانچویں خلیفہ کے طور پر یاد کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے عہد میں غیر منصفانہ محصولات کا خاتمہ کیا، انہوں نے عوامی فنڈز کا سلسلہ بحال کیا اور لوگوں کی نجی املاک انہیں واپس کیں۔ ان کی مالی اصلاحات نے غربت کا خاتمہ کردیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے محصولات کے نظام میں ایسی اصلاحات کیں کہ غیر مسلم مسلمانوں کے برابر ہوگئے۔ جب حکام نے قبول اسلام کی وجہ سے محصولات میں کمی کی شکایت کی تو عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا کہ ان کا مقصد لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا ہے نہ کہ ٹیکس جمع کرنا۔ انہوں نے تعلیم کی حوصلہ افزائی کی۔ اساتذہ کے وظائف مقرر کیے۔ انہوں نے مردوں ہی میں نہیں خواتین اور بچوں میں بھی علم کو فروغ دیا۔ عمر بن عبدالعزیز خود عالم تھے اور علما کو عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے احادیث کے تلف ہونے کے خیال سے احادیث کو جمع کرنے کا حکم دیا۔ ابوبکر بن محمد بن ہزم اور ابن شہاب الزہری جیسے علما نے احادیث کو مرتب کیا۔ عمر بن عبدالعزیز غیر مسلمانوں پر مہربان تھے۔ انہوں نے ان کے حقوق اور املاک کو بحال کیا۔ وہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے جو انصاف اور مساوات کے سلسلے میں ان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے عوامی فلاح کے بے شمار کام کرائے۔ انہوں نے سڑکیں بنوائیں، نہریں تعمیر کرائیں، مسافروں کے لیے سرائے تعمیر کرائیں۔ انہوں نے شہریوں کے لیے شفاخانے بنوائے، انہوں نے ریاستی حکام کو عوام کے سامنے جواب دہ بنایا۔ انہوں نے ریاستی جبر اور شکایات کا ازالہ کیا۔ انہوں نے انتظامیہ میں اصلاحات کیں۔ بدعنوان عہدیداروں کی جگہ ایماندار اور انصاف پسند افراد کو مقرر کیا۔ انہوں نے ایک شوریٰ تشکیل دی تا کہ انہیں حکمرانی کے سلسلے میں رہنمائی ملتی رہے۔
اس تناظر میں موجودہ عالم اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آج مسلم دنیا کے بادشاہ ہوں یا سیاسی رہنما یا جرنیل ہر فرد ملت کے مقدر کا خسارہ بنا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں کا رقبہ ایک کروڑ مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے پاس دنیا کا 60 فی صد تیل ہے۔ 65 فی صد گیس ہے۔ مسلمانوں کی عالمی آبادی ایک ارب 80 کروڑ ہے۔ مگر عالمی بساط پر مسلمانوں کا کوئی وزن نہیں۔ مسلمانوں کا بوسنیا ہرزیگورینا میں قتل عام ہوا۔ مسلمانوں کو گروزنی میں مارا گیا۔ سنکیانگ میں مارا جارہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔ مسلمان غزہ میں قتل ہورہے ہیں۔ اب ایران اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ بدھ ازم میں چیونٹی کو مارنا بھی جرم ہے مگر میانمر کے بدھسٹوں نے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ لیکن مسلمانوں کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ یہ جو کچھ ہے عالم اسلام کے بادشاہوں، سیاسی رہنمائوں اور جرنیلوں کی ناپاکی کا حاصل ہے۔ کہنے کو سعودی عرب کے شاہ فیصل بھی ایک بادشاہ ہی تھے مگر وہ امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک دن امریکا کے سفیر کو ناشتے پر مدعو کیا۔ انہوں نے صحرا میں خیمہ لگایا اور امریکی سفیر کو کھجوریں اور قہوہ پیش کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے فرمایا کہ ہم عربوں کی زندگی اتنی سادہ ہے کہ ان کے لیے کھجوریں اور قہوہ کافی ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر سے کہا کہ تم ہمیں تیل کے کنوئوں پر قبضے کی دھمکی دیتے ہو۔ اس سے پہلے کہ تم ہمارے تیل کے کنوئوں پر قبضہ کرو ہم خود ہی تیل کے کنوئوں کو آگ لگا دیں گے۔ لیکن ذرا سوچیے ایسا ہوا تو امریکا اور یورپ کی معیشت کا کیا بنے گا۔ آج امریکا کے اشارے پر اسرائیل غزہ میں 56 ہزار فلسطینیوں کو قتل کرچکا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی زخمی ہیں مگر عالم عرب میں امریکا اور اسرائیل کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ عالم اسلام کا کوئی حکمران ایسا نہیں جس کا کوئی خدا ہو۔ جس کا کوئی رسول ہو۔ جس کی کوئی امت ہو۔ جس کی کوئی اسلامی تاریخ ہو۔ جس کی کوئی اسلامی تہذیب ہو۔ جس کی کوئی قوم ہو۔
قیادت اور رہنمائوں کے کمالات صرف مسلم دنیا تک محدود نہیں۔ روس میں کارل مارکس کے نظریات کی بنیاد پر لینن نے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا سوویت یونین کے نام سے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی۔ اس سوشلسٹ انقلاب میں 80 لاکھ لوگ مارے گئے مگر لینن نے ایک ایسی ریاست قائم کی جس میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔ اس ریاست میں کوئی شخص بے گھر نہیں تھا۔ کوئی شخص بیروزگار نہیں تھا۔ اس ریاست میں اسکول سے یونیورسٹی تک کی تعلیم مفت تھی۔ کوئی بیمار پڑتا تھا تو ریاست اس کا مفت علاج کرتی تھی۔ اس ریاست میں ہر شخص اخبار اور ادبی کتب کے مطالعے کا عادی تھا۔ اس ریاست کے سب سے بڑے اخبار پرودا کی اشاعت دو کروڑ یومیہ سے زیادہ تھی۔ ریاست میں اخبار، رسائل اور کتب انتہائی سستی تھیں۔ ریاست میں کوئی بھکاری تھا نہ ریاست میں کہیں جسم فروشی موجود تھی۔
چین آج سے 75 سال پہلے ایشیا کا ’’مردِ بیمار‘‘ تھا مگر چین کی قسمت دو رہنمائوں نے بدل ڈالی۔ چین کی قسمت بدلنے والے پہلے رہنما مائو زے تنگ تھے۔ انہوں نے چین میں کمیونسٹ انقلاب برپا کرکے افیون کھانے والی قوم کو ’’بیدار مغز‘‘ قوم بنادیا۔ چین کے دوسرے رہنما جنہوں نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنایا ڈینگ زیائو پنگ تھے۔ ان کا مشہور مقولہ ہے کہ جب تک بلی چوہے پکڑ رہی ہے اس کے رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ انہوں نے سوشلسٹ چین کو سرمایہ دارانہ معیشت کا تحفہ دیا۔ آج چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا تخمینہ 4 ہزار ارب ڈالر ہے۔ چین نے صرف 40 سال میں 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ آج ایک ارب 35 کروڑ کے چین میں کوئی بیروزگار نہیں۔ کوئی بھکاری نہیں۔
ایک وقت تھا کہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی قوت تھا۔ اس کا فلسفہ اور ادب پورے یورپ پر اثر انداز تھا مگر پھر جرمنی کو ہٹلر جیسا گھٹیا رہنما میسر آگیا۔ اس نے قوم کو جرمن قوم پرستی کے نشے میں بدمست کر کے پورے یورپ سے لڑا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری جنگ عظیم میں پورا جرمنی تباہ ہوگیا اور آج جرمن قوم اس بات پر شرمندہ ہے کہ کبھی اس کا رہنما ہٹلر تھا۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان میں مہاجروں کی علامت مولانا اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت، مولانا مودودی، شبلی نعمانی اور علی میاں ندوی جیسے علما تھے۔ میر، غالب اور اکبر الٰہ آبادی جیسے شاعر تھے۔ محمد حسن عسکری اور سلیم احمد جیسے نقاد اور دانش ور تھے۔ پروفیسر غفور اور سید منور حسن جیسے سیاسی رہنما تھے لیکن الطاف حسین اور ان کی سیاست نے مہاجروں کو دہشت گرد اور بھتا خور بنادیا۔ مہاجر نوجوانوں کو نقل کرنے والوں میں ڈھال دیا۔ الطاف حسین نے مہاجروں سے ان کی تہذیب، علم، ذہانت اور محنت کی عادت چھین لی۔ الطاف حسین نے مہاجروں کو نعرہ دیا۔ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں کا مسلمانوں کے جس کی کوئی کے مقدر کا ریاست میں اس ریاست سے زیادہ انہوں نے کی بنیاد کا کوئی میں بھی

پڑھیں:

بارش کے کتنے امکانات؟ محکمہ موسمیات نے اہم خبر دیدی

پنجاب کے مختلف شہروں سمیت لاہور میں بھی حبس اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

نجی ٹی وی کے مطابق لاہور شہر میں موسم خشک، گرم اور حبس زدہ ہوتا جا رہا ہے، جس کے باعث شہریوں کو شدید گرمی کا سامنا ہے۔ اگرچہ درجہ حرارت میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم حبس کی کیفیت کے باعث گرمی کی شدت میں کمی محسوس نہیں ہو رہی اور ماحول مزید تکلیف دہ بنتا جا رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران لاہور کا موسم گرم اور خشک رہے گا جبکہ بارش کے امکانات نہایت کم ہیں۔ شہر کا کم سے کم درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ہے، جو گرمی کی شدت کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں مسلمانوں کی مقدس املاک کو نشانہ بنانے کی منظم مہم جاری
  • بارش کے کتنے امکانات؟ محکمہ موسمیات نے اہم خبر دیدی
  • لاہور میں حبس اور گرمی کی شدت میں اضافہ، بارش کے کتنے امکانات ہیں؟
  • بدامنی کی انتہا
  • یقین ہے پاکستان ہمارے مفادات کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھائےگا، ایران
  • ایران اسرائیل جنگ، پٹرول بحران کا خدشہ ہے، حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں. عمرایوب
  • شہبازشریف اورمجھ میں کوئی فرق نہیں،وزیراعظم کوئی بھی ہو،ہم ایک ہیں،نوازشریف
  • اسرائیل۔ایران جنگ میں امریکی شمولیت کے کیا امکانات ہیں؟
  • چین اور کرغیزستان کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات ہیں، چینی صدر