پہلگام واقعہ انٹیلی جنس ناکامی ، خطے میں پاکستان کا کردار اہم ہے،بھارتی سابق انٹیلی جنس چیف کابرملااعتراف
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے پہلگام واقعہ کو انٹیلی جنس ناکامی تسلیم کرتے ہوئےخطے کے استحکام میں پاکستان کا کردار اہم قرار دے دیا۔
ایک انٹرویومیں اے ایس دلت نے کہاکہ پہلگام واقعہ بھارت کی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ناکامی تھی، پہلگام میں جو ہوا وہ بہت برا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاس پہلگام حملے کے کوئی شواہد نہیں تھے، اے ایس دولت نے مضحکہ خیز اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ کئی بار واقعات کے ثبوت نہیں ملتے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز مار گرائے۔
سابق بھارتی انٹیلی جنس چیف نے کہا کہ ایران اسرائیل جنگ بندی میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر اور بھارت میں ہونے والے ہر واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا دیا جاتا ہے، مودی سرکار نے اپنے دور حکومت میں پاکستان مخالف بیانیے پر بھارتی عوام کی ذہن سازی کر دی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انٹیلی جنس کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
آبنائے ہرمز میں بھارتی کمپنی کا خالی آئل ٹینکر چین جانے والے تیل سے بھر ے آئل ٹینکر سے ٹکرا گیا، خطے میں مزید کشیدگی کا خطرہ
دنیا کی سب سے اہم تیل گزرگاہ آبنائے ہرمز کے قریب دو بڑے آئل ٹینکرز آپس میں ٹکرا گئے۔ ایڈالین اور فرنٹ ایگل کے درمیان یہ تصادم متحدہ عرب امارات کے ساحل سے تقریباً 15 ناٹیکل میل (28 کلومیٹر) دور خلیج عمان میں پیش آیا۔
برطانوی میری ٹائم سیکیورٹی مانیٹر نے کہا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی کے بیچ پیش آیا، تاہم یہ سیکیورٹی سے متعلق واقعہ نہیں ہے۔ایڈالین پر سوار 24 افراد کو متحدہ عرب امارات کی کوسٹ گارڈ نے بحفاظت نکال لیا۔
حکام کے مطابق، کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔فرنٹ ایگل بحری جہاز دو ملین بیرل عراقی خام تیل لے کر چین کی جانب رواں دواں تھا، جبکہ ایڈالین جو بھارت میں قائم کمپنی کی ملکیت ہے، خالی تھا اور مصر کے سویز کینال کی جانب جا رہی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ “سیکیورٹی سے متعلق نہیں” ہے، لیکن اس دوران الیکٹرانک مداخلت، بحری افواج کی نقل و حرکت میں اضافہ، اور خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی صورتحال کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے عندیے پہلے ہی موجود ہیں، جس کے بعد کئی جہاز پہلے ہی متبادل راستے اختیار کرنے لگے ہیں۔