پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا کر رہا ہے، گرمی کی شدید لہر، سیلاب، اور فصلوں کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل ملک کی زراعت اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختلف پالیسیاں متعارف کرائی ہیں، لیکن بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے جیسے اقدامات ان پالیسیوں کی افادیت پر سوالیہ نشان ہیں۔

حالیہ بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں 24 فیصد کی کمی کی گئی ہے، جو کہ ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں تشویش کا باعث ہے، یہ کمی اس وقت کی گئی ہے جب ملک ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے، جو زراعت اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ 26-2025 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص فنڈز 3.

5 ارب روپے سے 2.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں رواں مالی سال کے دوران 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو نہ صرف معیشت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خوراک، کسانوں کی آمدن اور دیہی معیشت کے لیے بھی تشویشناک اشارہ ہے۔

ماہرین کی جانب سے یہ کمی بنیادی طور پر فصلوں کی پیداوار میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی قلت، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں اضافے، اور حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے۔

 

ماہرین کے مطابق اگر زرعی شعبے کو فوری سہارا نہ دیا گیا تو پاکستان کی خوراک میں خود کفالت مزید متاثر ہوگی۔

تونسہ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار حافظ محمد حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس مرتبہ اپنی 40 ایکڑ اراضی پر گندم کاشت نہیں کی کیونکہ گندم کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ ایک برس میں شدید مالی نقصان ہوا ہے۔

حافظ محمد حسین کے مطابق گندم کی کاشت کے لیے درکار تمام لوازمات انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں، جس میں کھاد، بیج، اسپرے، ڈیزل، ٹریکٹر وغیرہ شامل ہے۔ ’کسان اپنی فصل پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، حکومت نے کسان کو اس کا پورا معاوضہ نہیں دیا، اور اب کی بار  گندم کی قیمت میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے معاشی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ رواں برس کسانوں نے بہت کم گندم کاشت کی، یہی وجہ ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 65 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔

’محکمہ زراعت اور محکمہ آبپاشی گندم کاشت کرنے میں بہت زیادہ ناکام ہوا ہے، کسان کو اب نہ صرف ان پر بلکہ حکومت پر بھی اعتماد نہیں رہا کہ وہ گندم، چنا،گنا یا کپاس کاشت کریں تو انہیں فائدہ ہوگا۔‘

حافظ محمد حسین کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر کسان کاشتکاری کے بجائے اب جانوروں کی پرورش یا پھر سبزیوں کی کاشت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ چاول، گنا، چنا کاشت کر نے کا ان کو فائدہ نہیں ہے کیونکہ انہیں ان اجناس کی مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔

پاکستان کی زراعت ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہی ہے، 2024 میں گرمی کی لہروں اور غیر متوقع بارشوں نے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا، جس سے کسانوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو زراعت کے شعبے میں مؤثر پالیسیاں متعارف کرانا ہوں گی۔

ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہر زراعت ڈاکٹر محمد اشفاق نے اس حوالے سے بتایا کہ زراعت کے شعبے میں 13 فیصد کمی صرف موسمیاتی، مہنگائی یا تکنیکی وجوہات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ درحقیقت پالیسی کی ناکامی کی ایک علامت ہے۔

’گندم جیسی اسٹریٹیجک فصل میں تقریباً 9 فیصد کمی اس وقت ایک سنگین مسئلہ بن گئی جب کسانوں کو نہ صرف ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملی، بلکہ سرکاری خریداری کا عمل بھی متنازع ہو گیا۔‘

ڈاکٹر محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ اس سال کسان گندم لے کر گوداموں کے باہر لائنوں میں کھڑے رہے، لیکن یا تو باربرداری کے بہانے سے انہیں روکا گیا یا پھر درآمد شدہ گندم کی موجودگی کو جواز بنا کر ان کی فصل نہیں خریدی گئی، یہ صرف ناانصافی نہیں، بلکہ کسانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا عمل ہے۔

’جب کسان کو اس کی محنت کا صلہ نہ ملے، تو وہ آئندہ سال گندم اگانے سے گریز کرے گا، نتیجتاً، ہم غذائی تحفظ کے ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زرعی شعبہ محض بجٹ یا سروے اور تحقیقی رپورٹوں تک محدود رہ جائے گا۔‘

واضح رہے کہ کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد ، گنے میں 3.9 فیصد، چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر محمد اشفاق کے مطابق حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں اور بجٹ میں مختص فنڈز میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ سے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کی مؤثریت پر سوالیہ نشان ہے۔

’حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ کرے اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کرے تاکہ عوام کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے ترغیب دی جا سکے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ 26-2025 میں ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز شامل کی گئی تھی۔ اس تجویز کے مطابق ہائبرڈ گاڑیوں پر جو پہلے 8.5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس  کے تحت تھیں، ان پر یکساں طور پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرتے ہوئے کہا گیا یے کہ اس اقدام کا مقصد پیٹرول، ڈیزل، ہائبرڈ اور الیکٹرک تمام اقسام پر ٹیکس میں یکسانیت برقرار رکھنا ہے۔

موسمیاتی امور کے ماہر محمد عثمان علی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہائبرڈ گاڑیوں پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی کے بالکل منافی ہے، پاکستان پہلے ہی دنیا کے اُن 10 ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہو، شدید گرمی کی لہر ہو یا غیر متوقع بارشیں اور سیلاب۔

’ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو ٹیکس مراعات دے رہی ہیں، پاکستان میں ان پر مزید ٹیکس عائد کرنا نہ صرف ماحولیاتی پالیسی کی ناکامی ہے بلکہ مستقبل کے لیے خطرناک رجحان بھی ہے۔‘

محمد عثمان کے مطابق یہ ہائبرڈ گاڑیاں نہ صرف ایندھن کی بچت کرتی ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی نمایاں کمی لاتی ہیں، موسمیاتی بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہمیں ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو صاف توانائی اور پائیدار ذرائع آمد و رفت کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ اُن پر مالی بوجھ ڈال کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

’ویسے بجٹ کے بعد حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی، کیونکہ بجٹ میں حکومت نے ہائبرڈ گاڑیوں پر اچھا خاصا ٹیکس لگایا، دوسری جانب کلائمیٹ فنڈز پر کٹوتی کی گئی اور پھر حکومت کہتی ہے کہ وہ ماحولیاتی دوست اقدامات کرنا چاہتی ہے، حکومت کیا کرنا چاہتی ہے، شاید وہ یہ بات خود بھی نہیں جانتی۔‘

سابق وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی، ملک امین اسلم نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بجٹ میں کٹوتیاں نہ صرف تحقیق اور ڈیٹا پر مبنی ترجیحات کو متاثر کریں گی بلکہ ماحولیاتی لچک کے لیے دستیاب فنڈز پر عملدرآمد یعنی ’پروجیکٹائزیشن‘ بھی متاثر ہو گی۔

واضح رہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سالانہ تقریباً 400 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

محمد توحید ماہر شہری منصوبہ بندی و جغرافیہ دان نے بتایا کہ 2025 کے وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز میں 24 فیصد کمی سے پاکستان جیسے ماحولیاتی خطرات سے دوچار ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

’اس کمی کے نتیجے میں ہیٹ ویوز، سیلاب، پانی کی قلت، گرین کور میں کمی اور زرعی بحران جیسے مسائل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقات کے لیے۔ شجرکاری، واٹر مینجمنٹ، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت اور فلڈ ریزیلینٹ انفراسٹرکچر جیسے اہم منصوبے متاثر ہوں گے۔‘

ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں پاکستان کے بین الاقوامی وعدے بھی خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں کیونکہ فنڈز کی کمی حکومتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کی تنزلی کا اشارہ دیتی ہے، جو نجی اور غیر سرکاری شعبے کی دلچسپی کو بھی کم کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد چاول چنا حافظ محمد حسین کسان گنا گندم ماحولیاتی آلودگی محمد توحید محمد عثمان ہائبرڈ گاڑیاں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چاول حافظ محمد حسین ماحولیاتی آلودگی محمد توحید ہائبرڈ گاڑیاں ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس کے لیے مختص فنڈز میں ماحولیاتی تحفظ کے اور ہائبرڈ گاڑیوں حافظ محمد حسین کی پیداوار میں پر ٹیکس میں کرتے ہوئے زراعت اور حکومت کی متاثر ہو فیصد کمی کے مطابق بتایا کہ رہے ہیں گندم کی رہے کہ رہا ہے کی گئی

پڑھیں:

زمین کا انتباہ ؛  2025ء میں بدلتا ہوا موسم اور ہماری ذمے داریاں

زمین کی کوکھ سے اُٹھنے والی کراہیں، برفانی چوٹیاں جو تیزی سے پگھل رہی ہیں، جنگلات کی آگ جو انسان کے گناہوں کا دھواں آسمان تک پہنچا رہی ہے، اور سمندر جو اپنی حدیں پار کر رہے ہیں یہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مستقبل کا اندیشہ نہیں بلکہ موجودہ عہد کا سنگین بحران بن چکا ہے۔

2025 میں دنیا ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف تحقیقاتی مقالوں یا ماحولیاتی کانفرنسوں کا موضوع بننے کے بجائے انسانی بقا کے بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس سال کے پہلے چھے ماہ میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے، جو اقوام متحدہ کی بین الحکومتی رپورٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کے خطرناک حد سمجھے جانے والے ہدف کو چھو رہا ہے۔

یورپ، امریکا، بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی خطے اس سال 50 سے 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی شدید گرمی کی لپیٹ میں آئے۔ صرف بھارت میں مئی 2025 کے دوران ہیٹ ویو کے باعث 1,200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کینیڈا اور یونان کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا، جب کہ امریکا کی کیلیفورنیا ریاست میں 2025 کی گرمی کے موسم کو تاریخ کا سب سے خشک اور گرم قرار دیا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے بڑا بوجھ ترقی پذیر ممالک اٹھا رہے ہیں، جو عالمی آلودگی میں کم حصہ رکھنے کے باوجود شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان کی مثال اس کی زندہ دلیل ہے۔ ہم دنیا کی کل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 0.8 فی صد کے شریک ہیں، مگر ماحولیاتی آفات سے متاثرہ اولین دس ممالک میں شامل ہیں۔ جرمن واچ (Germanwatch) کی گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ دہائی میں 150 سے زائد ماحولیاتی سانحات کا سامنا کر چکا ہے۔

سال 2025 کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کے جنوبی علاقے، خصوصاً سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان، شدید گرمی اور خشک سالی کا شکار رہے۔ دریائے سندھ اور چناب کی سطح آب میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح نازک حد تک نیچے جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے بلکہ شہروں کو بھی پانی اور بجلی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

زرعی شعبہ، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنے جیسی بنیادی فصلیں یا تو وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھپھوندی، گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ماحولیاتی بحران صرف درجہ حرارت یا پانی کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ صحت عامہ پر بھی اس کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک، ملیریا، ڈینگی اور سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خصوصاً شہری علاقوں میں جہاں درختوں کی کمی، ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی اور آبادی کا دباؤ ان مسائل کو مزید گھمبیر بناتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ افراد صرف آلودہ ہوا کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔

حکومتی سطح پر کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے گئے ہیں۔ ’’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ‘‘، کلین اینڈ گرین پاکستان مہم، اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی جیسے پروگرامز ماحول دوست وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو گرین ٹرانسپورٹ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وفاقی حکومت نے ’’کلائمیٹ ایکشن بل 2025 ‘‘ پر بحث کا آغاز بھی کیا ہے، جس میں کاربن ایمیشن کی حد بندی، صنعتی آلودگی پر سخت ضوابط، اور گرین انرجی کے فروغ جیسے نکات شامل ہیں۔

تاہم ان منصوبوں پر عمل درآمد میں سنجیدگی، رفتار اور شفافیت کا فقدان ہے۔ بہت سے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہیں یا ان پر عمل اتنا سست ہے کہ نتائج حاصل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال، صنعتی فضلہ، اور شہری فضائی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑے شہر، خصوصاً لاہور، سال کے بیشتر حصے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عوامی شعور کی کمی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ عام شہری نہ تو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، اور نہ ہی اپنی روزمرہ زندگی میں ماحول دوست عادات اپنانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تعلیم کو ابھی تک سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا، اور میڈیا پر بھی اس حوالے سے مسلسل آگاہی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔

مگر تمام تر مایوسی کے باوجود، امید کے کچھ دیے اب بھی روشن ہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے درمیان ماحولیاتی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ مختلف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ’’گرین کلب‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماحول دوست مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور نجی ادارے کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی، جیسے سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز، کی تنصیب میں اضافہ ہورہا ہے، اور ماحول دوست طرزِزندگی کو فروغ دینے کے رجحان میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔

مگر یہ سب کچھ اُس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم بحیثیت قوم اس مسئلے کو اپنی اجتماعی ذمے داری تسلیم نہ کریں۔ جب تک شہری بجلی، پانی، پلاسٹک اور قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط نہیں کریں گے، جب تک تعلیمی ادارے ماحول دوست نسل تیار نہیں کریں گے اور جب تک حکمران طبقہ محض اعلانات کی بجائے عمل کو ترجیح نہیں دے گا، اُس وقت تک کلائمٹ چینج صرف رپورٹوں کا موضوع رہے گا، حل کا نہیں۔

اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو صرف ’’چیلینج‘‘ نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی قومی، اخلاقی اور انسانی ذمے داری مانتے ہوئے فوری، دیرپا اور جامع اقدامات کریں۔ ورنہ یہ زمین، جو کبھی ہمارے خوابوں کی جنت تھی، کل ہماری غفلت کی دوزخ بن جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت سے ٹیکنالوجی کی جنگ جیت لی، نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں سے لیس کرنا وقت کا تقاضا ہے، شزا فاطمہ
  • امریکی منڈی میں پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد ٹیکس
  • تعلیم خیرات نہیں،قوم کا آئینی حق ہے، حکومت ٹیکس لیتی ہے مگربنیادی حق دینے کو تیار نہیں،حافظ نعیم الرحمان
  • پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دوسرا ٹی ٹوئنٹی؛ گرین شرٹس کا ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • کسان اتحاد کا گندم کی سرکاری قیمت پر 11 اگست سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • سندھ میں 28 برس بعد چائلڈ لیبر پر سروے، ہوش رُبا انکشافات سامنے آگئے
  • صدر مملکت آصف علی زرداری سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ملاقات، صوبے کی ترقی اور امن و امان پر گفتگو
  • زمین کا انتباہ ؛  2025ء میں بدلتا ہوا موسم اور ہماری ذمے داریاں
  • حکومت پنجاب کا سوا 2 ارب کی لاگت سے گرین کوریڈور منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ
  • حکومت پنجاب کا ریلوے کے اشتراک سے گرین کوریڈور منصوبہ شروع کرنیکا فیصلہ