انتہا پسندی اور عالمی طاقت بننے کی خام خیالی خود بھارت کیلیے سنگین خطرہ بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
مسلم دشمنی، ہندو انتہا پسندی اور عالمی طاقت بننے کی خام خیالی خود بھارت کے لیے سنگین خطرہ بن گئی ہے۔
مودی سرکار کی عالمی طاقت بننے کی خام خیالی، ہندوتوا قوم پرستی اور انتہا پسند سیاست خود بھارت کی نام نہاد جمہوری ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔
مودی سرکارکا ہندوتوا نظریہ بھارت کی سیکولر شناخت اور قومی ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کی متنازع سفارتی حکمت عملی نے بھارت کو عالمی محاذ پر تنہا کر دیا ہے۔
امریکی جریدے نے بھی مودی کی انتہا پسند پالیسیوں اور سفارتی ناکامیوں پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ فارن افیئرز کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار کی غیر جمہوری پالیسیوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھی اور اندرونی بدامنی میں شدت آئی، جس کے نتیجے میں بھارت کی جمہوری ساکھ شدید زوال کا شکار ہو چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاعی وسائل کی کمی اور سیاسی خلفشار کے باعث بھارت کا بیرونی اثر و رسوخ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت چین پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ امریکی بالادستی کو بھی چیلنج کرنا چاہتا ہے، جس سے واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت عالمی فورمز پر امریکی اثر و رسوخ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور متعدد پالیسیوں میں واشنگٹن کی مخالفت کرتا ہے۔ معاشی اور عسکری میدان میں چین نے بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔6 فیصد ترقی کے باوجود بھارت چین کے مقابلے میں ایشیا میں پیچھے رہے گا۔
فارن افیئرز کی رپورٹ کے مطابق ’میک اِن انڈیا‘کے تحت ناپید مصنوعات کی تیاری اور تحقیق میں سرمایہ کاری کی کمی بھارت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یوکرین جنگ کے باوجود بھارت نے روس و ایران جیسے مغرب مخالف ممالک سے قریبی تعلقات برقرار رکھ کر اسٹریٹیجک خودمختاری پر اصرار جاری رکھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی متعدد ممالک کے بارے میں متضاد خارجہ پالیسیوں سے امریکا سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسیوں نے بھارت کے جمہوری اداروں کو کمزور کر دیا ہے اور ملک کا سیکولر تشخص شدید بحران کا شکار ہے۔
اسی طرح ہندوتوا نظریہ بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں شدید تناؤ کا باعث بن رہا ہے۔ مودی سرکار میں آئینی تبدیلیوں کی وجہ سے بھارت کا سیکولر آئینی ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے اور ریاستی ادارے سیاسی مفادات کے ہتھیار بنائے جا چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو دبانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ مودی سرکار نے پارلیمنٹ اور عدلیہ جیسے جمہوری توازن کے اہم ستونوں کو بھی کمزور کر دیا ہے۔
فارن افیئرز کے مطابق بی جے پی نے پارلیمانی اکثریت عوامی مینڈیٹ سے نہیں بلکہ انتخابی نظام کی ساختی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر حاصل کی۔ ہندوتوا نظریے کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں اور سرکار و عوام کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ اس کا واضح ثبوت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ تقسیم سے بھارت کی اندرونی سلامتی اور عالمی اثر کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ بی جے پی کی پولرائزیشن پالیسیز بھارت کے پہلے سے کمزور اداروں کو مزید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مودی کی پولرائزیشن شمال مشرقی بھارت اور کشمیر میں بغاوتوں کو مزید بھڑکا سکتی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی پالیسیز پاکستان اور بنگلا دیش سے سفارتی تعلقات کو خراب کر رہی ہیں۔ غیر جمہوری بھارت ایک کمزور بھارت ہوگا، چوتھی بڑی معیشت ہونے کے باوجود معیارِ زندگی اور قومی طاقت میں چین، امریکا اور یورپ سے پیچھے رہے گا۔
فارن افیئرز کی رپورٹ کے مطابق بھارت جنوبی ایشیا میں بھی غالب طاقت بننے میں ناکام رہا، مشرق وسطیٰ و مشرقی ایشیا دونوں میں ناکامی بھارت کی کمزور حکمت عملی کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارت کی بناؤٹی معاشی ترقی اثرورسوخ بڑھانے میں ناکام، جمہوری زوال، کمزور ادارے اور ناکام سفارت کاری بڑی رکاوٹیں ہیں۔
مودی سرکار کی آمریت زدہ پالیسیاں بھارت کی قومی یکجہتی اور خطے کے امن کے لیےسنگین خطرہ بن چکی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار کی سنگین خطرہ بن فارن افیئرز رپورٹ میں گیا ہے کہ کے مطابق بھارت کی دیا ہے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پاکستان کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوست یا دشمن؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-03-6
وجیہ احمد صدیقی
جیسا کہ خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ اچانک یوٹرن لے لیں گے اور یہی ہوا پہلے تو وہ پاکستان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب صدر ٹرمپ کے حالیہ سی بی ایس ’’60 منٹس‘‘ انٹرویو میں پاکستان پر جوہری ہتھیاروں کے خفیہ زیر زمین تجربات کے الزامات عالمی منظرنامے پر پاکستان کی جوہری پالیسی اور اس کے عالمی تعلقات کو ایک نئی بحث کے دائرے میں لے آئے ہیں۔ اس تجزیے میں صدر ٹرمپ کے رویے کی تبدیلی کی وجوہات، امریکی بھارت یکجہتی کے امکانات، پاکستان کے جوہری پروگرام کی دفاعی نوعیت، اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کا رویہ اور اس کی ممکنہ وجوہات صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر الزامات اور ان کا امریکا کے 33 سالہ جوہری تجربات کی پابندی کو ختم کرنے کے حق میں بیانیہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں ان کی بھارت کے قریب ہونے کی صورت حال نے ایک قسم کی امریکی کے بھارت کی طرف جھکاؤ کی نشاندہی کی ہے۔ بھارت اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئے، خاص طور پر تجارتی، دفاعی اور سیکورٹی تعاون میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے خلاف امریکا کی جانب سے سخت بیانات سامنے آتے ہیں۔ جیو پولیٹیکل تبدیلیاں، کچھ اس طرح سے سامنے آئی ہیں کہ مصنوعی طور پر بھارت کو خطے کی ایک علاقائی طاقت ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اسے چین کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکے۔ جبکہ معاشی طور پر بھارت کی ایک ارب آبادی میں 85 کروڑ افراد ایسے ہیں جن کو بھارتی حکومت ماہانہ پانچ کلو راشن دیتی ہے۔ بھارت پاکستان اور چین سے مقابلے کے لیے ان 85 کروڑ افراد کا پیٹ کاٹ کر خطے کی طاقت بننے کی کوشش میں مصروف ہے اور امریکا صرف چین کے ساتھ مخاصمت میں بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے بھارت میں مسلسل کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اس کے اپنے اندر کئی ریاستیں اس سے آزاد ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ امریکا کو ان ریاستوں کی آزادی کے لیے کوشش کرنا چاہیے نہ کہ بھارت کو مصنوعی طور پر چین کے سامنے کھڑا کرنے کی۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن میں امریکا کی حکمت عملی کا مرکزی کردار ہونے کے باعث ٹرمپ کا یہ موقف ایسی پیچیدگیوں کا مظہر ہے۔ علاوہ ازیں، امریکی اندرونی سیاسی کلچر بھی بعض اوقات سخت قومی سلامتی کے بیانات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس سے اس قسم کے بیانات کا نظریہ مزید تقویت پاتا ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی اور مزاحمت کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ 1974 میں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد سے پاکستان نے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو گہری سنجیدگی سے لیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار عالمی اداروں کو قائل کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ یہ پروگرام ایک جامع قانونی اور ادارہ جاتی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے، جس میں جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور استعمال کی سخت ترین شرائط شامل ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاعی اسلحہ کی حفاظت کے لیے جدید ترین سیکورٹی میکانزم نافذ کیے ہوئے ہیں، تاکہ جوہری ہتھیاروں کا غلط استعمال یا دہشت گردوں کے ہاتھ لگنا ممکن نہ ہو۔ اس حوالے سے پاکستان کی شفافیت اور ذمے داری کی عالمی سطح پر بھی تعریف کی جاتی ہے۔ عالمی تناظر اور پاکستان کی سفارتی حکمت عملی پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی پاسداری کو اہمیت دی ہے اور اپنی جوہری صلاحیتوں کو صرف دفاعی موقف کے طور پر پیش کیا ہے۔ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششیں قابل قدر ہیں، جس میں مسلسل بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی یہ حکمت عملی خطے میں طاقت کے نازک توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہے۔ عالمی سطح پر امریکی موقف کے برخلاف پاکستان نے اپنی جوہری صلاحیت کو مسلم دنیا کے دفاع اور علاقائی سلامتی کے لیے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر دیکھا ہے۔ وزیر خارجہ اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بھی یہ واضح کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی ہے۔ پاکستان نے کئی مواقع پر مشترکہ مسلم عالمی سیکورٹی فورس کے قیام کا اصولی اظہار کیا ہے، جو امن کی خاطر کام کر سکے۔ پاکستان کے اگلے اقدامات اس پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور دفاع کے حق کو مضبوطی سے بیان کرے۔ اس کے لیے چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
شفافیت اور اعتماد سازی: پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھائے اور اپنی جوہری صلاحیتوں پر شفافیت کا مظاہرہ کرے تاکہ عالمی برادری کا اعتماد حاصل ہو۔ دفاعی تعلقات کو مستحکم کرنا: پاکستان کو اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہوئے سیاسی و سفارتی محاذ پر اپنے موقف کی حمایت کرنی چاہیے۔ عالمی سفارتی مہم: منفی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مؤثر سفارتی اور میڈیا مہمات چلانی ہوں گی تاکہ اپنی پالیسیوں اور دفاعی پوزیشن کی وضاحت ہو سکے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری تو پاکستان چاہتا ہے؛ خطے میں دیرپا امن کے لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات کی بھی ضرورت ہے لیکن یہ تنہا صرف پاکستان کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ بھارت کو بھی غیر سنجیدہ رویہ چھوڑ کر سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینی ہوگی وہ پاکستان پر مسلسل دہشت گردی کا الزام لگا کر اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھارت کی نااہلی کا بھی جائزہ لینا ہوگا مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے بھارت لے کر آیا تھا۔ لیکن ایک طویل عرصہ گزر نے کے بعد بھی بھارت کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادی دینے کو تیار نہیں۔ دنیا گواہ ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگاتا رہا ہے یہ اس کا غیر سنجیدہ رویہ ہے ایسی صورتحال میں بھارت سے مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں جب اس کا رویہ ہی جارحانہ اور جاہلانہ ہے۔ لہٰذا خطے میں امن قائم کرنے کی تنہا ذمے داری پاکستان پر نہیں ہے بلکہ اس کی 100 فی صد ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے حالیہ بیانات نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا چیلنج پیدا کیا ہے، جو نہ صرف دو طرفہ تعلقات بلکہ جنوبی ایشیا کے استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ خطے میں امن کا باعث نہیں بنے گا اور نہیں امریکا کے مفاد میں بھی ہے کہ وہ اس خطے میں جانبدارانہ رویہ اختیار کرے۔ پاکستان نے دفاعی طور پر امریکی امداد پر انحصار کم سے کم کر دیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ یہ رویہ اختیار کریں گے تو پاکستان ایک آزاد ملک ہے وہ اپنی خارجہ پالیسی بنانے میں بھی آزاد ہے۔ پھر وہ اپنے مفاد میں جو فیصلہ کرے بہتر ہوگا لیکن وہ فیصلہ ضروری نہیں کہ امریکی مفادات کے حق میں بھی ہو۔ دوسری جانب پاکستان کے عالمی جیوپولیٹیکل مفادات کی روشنی میں پاکستان کو اپنے دفاعی نظام کی مضبوطی اور سفارتی حکمت عملی پر کام بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر دفاعی ہے اور اس کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ جارحیت۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ اعتماد قائم کرے اور اپنے دفاع کی پالیسی کو موثر طریقے سے پیش کرے تاکہ کسی قسم کے غلط فہمی یا الزام تراشی کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ مضمون پاکستان کے موقف کی وضاحت اور عالمی اسٹیج پر اس کی دفاعی حکمت عملی کی تشہیر کے لیے ایک مضبوط اور منطقی دستاویز کا کردار ادا کرے گا، جو خطے میں امن اور استحکام کے لیے ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔