Al Qamar Online:
2025-06-20@16:11:02 GMT

فہد شیخ نے فہد مصطفیٰ کی سب سے بڑی خامی بتا دی

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

پاکستان شوبز کے میزبان اور اداکار فہد شیخ نے ساتھی اداکار فہد مصطفیٰ کی سب سے بڑی خامی کا انکشاف کردیا۔ 

حال ہی میں ایک پروگرام میں دورانِ گفتگو فہد شیخ نے پاکستان کے نامور اداکار فہد مصطفیٰ سے متعلق گفتگو کی اور انہیں اپنا پسندیدہ اداکار اور حقیقی سُپر اسٹار قرار دیا۔

فہد شیخ نے شو میں فہد مصطفیٰ کی ایک بڑی خامی کا ذکر بھی کیا۔ ان کے مطابق، "فہد بھائی جب غصے میں آتے ہیں تو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔”

https://www.

instagram.com/reel/DLDXAwVtDvq/?utm_source=ig_web_copy_linkigsh=MzRlODBiNWFlZA==

انہوں نے مزید بتایا کہ فہد مصطفیٰ نے ایک بار انہیں مشورہ دیا تھا کہ "اگر کبھی غصہ آئے تو 24 گھنٹے کچھ نہ کہو اور خاموشی اختیار کرو، پھر فیصلہ کرو”۔ تاہم فہد شیخ نے واضح کیا کہ فہد مصطفیٰ خود اس مشورے پر عمل نہیں کرتے اور غصے پر 24 سیکنڈز بھی قابو نہیں کرپاتے۔

 

TagsShowbiz News Urdu

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: فہد شیخ نے فہد مصطفی

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟

یہ خاصا مشکل کام ہے لیکن اگر چند لمحوں کے لیے آپ خود کو کسی بھی قسم کی مذہبی، علاقائی، نسلی، لسانی ، ثقافتی تعصب سے آزاد ہو کر ایران اسرائیل جنگ کی طرف نظر دوڑائیں، اس کا پوری غیر جانبداری سے جائزہ لینے کی کوشش کریں، تو کیا نتیجہ نکلے گا؟

فرض کریں کہ آپ پاکستان کے باسی نہیں، اردو پڑھنے، بولنے، سمجھنے والے نہیں، کسی دوردراز کے  ملک سے تعلق ہے، انٹرنیٹ پر آپ اس حوالے سے معلومات جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تھوڑی دیر ہی میں آپ کس نتیجے پر پہنچیں گے؟

میں نے یہ ایکسرسائز کرنے کی کوشش کی، میرے سامنے جنگ کا ایک ایسا نقشہ آیا جس کے فریق واضح تھے۔ ایک طرف نہایت متکبر، رعونت کانمونہ، ظالم، سفاک اور انتہائی درجے کا سنگدل ملک ہے جس نے ابھی حال ہی میں غزہ کے نہتے عوام پر قیامت ڈھا دی، جو ہزاروں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی اموات اور لاکھوں کی بھوک پیاس، تکلیف اور کرب کا باعث بنا۔ حالیہ جنگ بھی جس نے ایران پر مسلط کی، تمام عالمی قوانین کے پرخچے اڑا دیے، ہر قسم کی اخلاقی دلیل اٹھا کر دور پھینک دی اور بے پناہ وحشیانہ قوت کے ساتھ تہران اور دیگر ایرانی شہروں پر ٹوٹ پڑا۔ چن چن کر ہر اس شخص کو نشانہ بنایاجس سے مزاحمت کی معمولی سی امید بھی ہوسکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وہ واقعی چیمپیئن تھا

مقابلے میں جو ملک یعنی ایران ہے، اپنے غیر جانبدارانہ جائزے میں اس کی ماضی کی بعض پالیسیاں مجھے غلط اور متنازع لگیں، اپنے پڑوسی ممالک میں پراکسیز کھڑی کرنا، بعض ممالک میں پراکسی وارز کرنا اور اپنے قومی مفادات کی خاطر کئی بار اخلاقی ضابطے نظرانداز کر دینا، اندرون ملک اختلاف رائے اور ریفارم کے پرامن ایجنڈے والوں کو بھی برداشت نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب مگر اس کا ماضی تھا اور اسے اس ماضی کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ اس کے دشمن نے صرف اس لیے  نشانہ بنایا کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو مڈل ایسٹ کے کئی دیگر ممالک کی طرح سرنڈر کرنے یا کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں۔ جو سر اٹھا کر زندہ رہنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ مضبوط عسکری قوت بننے کا خواہشمند ہے، جو شائد اسی مقصد کے لیے نیوکلیئر قوت بھی چاہتا ہے۔ ایران کو صرف اسی لیے نشانہ بنایا جا رہا کہ یہ ایک عزت دار اور خوددار ملک کے طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے۔

یہ وہ نکتہ ہے جس نے سب کچھ واضح کر دیا۔ یہ صاف سمجھ آ گئی کہ اس جنگ میں ظالم کون ہے، مظلوم کون؟ کس کی حمایت کرنی چاہیے اور کس کی غیر مشروط مذمت۔

یوں یہ بات تو  طے ہوئی کہ بطور ایک تجزیہ کار، ایک لکھاری میری ہمدردی اور اخلاقی حمایت کس کے ساتھ ہونی چاہیے؟ اب اگلا سوال یہ ہے کہ اس جنگ کا منطقی اور فطری نتیجہ کیا نکلے گا؟

یہاں 2 باتیں تو واضح ہوچکی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسرائیل نے اس حملے سے پہلے طویل منصوبہ بندی اور گہرے سوچ بچار سے کام لیا۔ کئی برسوں تک وہ ایران کے اندر اپنا نیٹ ورک بنانے میں لگا رہا، اہم ایرانی اداروں میں غدار ڈھونڈ کر انہیں اپنا ایجنٹ بنایا، موجودہ حکومتی سیٹ اپ (رجیم) سے ناراض لوگوں سے رابطے استوار کیے، انہیں اپنا مخبر بنایا۔ شدت پسند گروہوں کو بھی آن بورڈ کیا۔ اسرائیل نے ایرانی ریاستی اورحکومتی سیٹ اپ کے بارے میں ہر ممکن طریقے سے انفارمیشن اکھٹی کی جن میں ہنی ٹریپ بھی شامل ہوسکتا ہے۔

بعض سوشل میڈیا رپورٹس میں ایسی جیوش خواتین کے نام بھی آئے جو نومسلم ہونے کا تاثر دے کر ایران کے حق میں بین الاقوامی جریدوں میں بلاگ، کالمز لکھتی رہیں اور یوں  انہیں ایرانی حکومتی اشرافیہ میں سرایت کرنے کا موقعہ ملا۔ ممکن ہے وہ رپورٹس درست نہ ہوں۔ مبالغہ ہو،مگر بہرحال سپائی ورلڈ میں ہنی ٹریپ ایک عام سی چیز ہے، خاص کر جہاں کسی قسم کی مذہبی یا اخلاقی بندش موجود نہ ہو۔

مزید پڑھیے: کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟

اپنی ان کلاسیفائیڈ معلومات، اطلاعات اور تہران و دیگر شہروں میں موجود اپنے نیٹ ورک کی  مدد سے اسرائیل نے جنگ کے پہلے دن قیامت ڈھا دی۔ پوری ملٹری قیادت، پاسداران انقلاب کے مرکزی نظم اور کئی اہم نیوکلیئر سائنس دانوں کو شہید کر دیا۔ یہ کام زیادہ تر اندر کے غداروں کی مدد سے کیا گیا۔ ان تمام اہم شخصیات کے خفیہ ٹھکانوں پر پرفیکٹ ٹائمنگ کے ساتھ موثر وار کیے گئے۔ ایران کا شدید نقصان ہوا۔ دراصل جن لوگوں نے یہ جنگ لڑنی تھی، جن کے پاس پورا پلان تھا، لیڈ کرنے کی صلاحیت اور تجربہ بھی، وہ سب پہلے دن ہی نشانہ بنا دیے گئے۔ اس کے بعد بھی اسرائیل کی پوری کوشش رہی کہ رہبر انقلاب سید علی خامنہ ائی کے ایک ایک کر کے تمام قریبی ساتھیوں کو ہٹ کیا جائے، اس میں وہ کامیاب بھی رہا۔

اس پورے منظرنامے  میں دوسری یہ بات پتا چل  رہی ہے کہ اسرائیلی اپنی تمام تر چالاکیوں، ہوشیاریوں اور جاسوسی کے باوجود ایران کو بالکل نہیں سمجھتے ۔ ایک طرف تو انفارمیشن کا یہ عالم کہ اسرائیلی ایجنٹوں کو اتنے اہم اور ہائی پروفائل لوگوں کے تمام تر ٹھکانوں اور نجی معلومات کی خبر تھی، دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو ایسا عقل وفہم سے عاری اور بے وقوف شخص ہے کہ وہ ایرانی عوام سے اپیل کر رہا ہے کہ وہ ایرانی اسلامی حکومت کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ اسے ایرانی قوم کی نفسیات، کلچر ، مزاج اور تیور کا ہرگز اندازہ نہیں ہے۔ اسے یہ پتا نہیں کہ کوئی اچھی بھلی تحریک یا تنظیم بھی اگر اسرائیلی سپورٹ سے آنے کی کوشش کرے تو وہ فوری طور پر صفر ہوجائے گی اور ایرانی قوم اسے بے رحمی سے مسترد کر دیں گے۔

یہی اسرائیلی وزیراعظم اور اس کے پشت پناہ امریکی صدر ٹرمپ تہران کے لوگوں کو دھمکا رہے ہیں کہ وہ تہران چھوڑ دیں ورنہ تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ ان دونوں کو ہرگز اندازہ نہیں کہ ایسی دھمکیوں سے ایرانی قوم ڈر کر شہر نہیں خالی کرے گی۔ وہ نہیں جانتے کہ ایران میں شہادت کے ساتھ ایک خاص قسم کا رومانٹسزم وابستہ ہے، دنیا کے ہر مسلم معاشرے میں ویسے یہی جذبہ ہے۔ ایرانی قوم ، معاشرت اور ثقافت میں کربلا کے استعارے گھلے ملے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ان عظیم الشان کرداروں کو وہاں رول ماڈل بنایا جاتا اور انہی کے نقش قدم پر اپنی شہادت کی آرزو پالی جاتی ہے۔

اسرائیلیوں اور امریکی منصوبہ سازوں کویہ بھی علم نہیں کہ افغانستان، لبییا، عراق، شام اور ایران میں بہت فرق ہے۔ ان چاروں ممالک کی اپنی فالٹ لائنز تھیں، وہاں نسلی، لسانی ،قبائلی، مسلکی اختلافات اور مسائل موجود تھے۔ اسی وجہ سے وہاں خانہ جنگی ہوئی، مختلف مسلح گروپس بنے اور پھر امریکی یا یورپی حملے کے  نتیجے میں جب حکومتی رجیم مسمار ہوئی تو متبادل قوتیں موجود تھیں۔ لیبیا جیسے ممالک میں جہاں اختلافات زیادہ تھے، وہاں خانہ جنگی ہو گئی۔

ایران اس کے برعکس ایک زیادہ منظم، یکجا اور شدید قوم پرست کے جذبات سے لبریز قوم ہے۔ وہاں کی بہت بڑی غالب اکثریت ایک ہی زبان بولنے والی، ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والی ہے۔

ایک اور نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ ایرانی عوام کی غیر معمولی اکثریت شیعہ  مجتہدین کی تقلید کرتی ہے۔ یہ شام، لیبیا، افغانستان اور مصر وغیرہ میں نہیں تھا۔ سید علی خامنہ ای صرف رہبر انقلاب نہیں بلکہ وہ مرجع تقلید ہیں، کئی  ملین شیعہ انہیں بطور مجتہد فالو کرتے اور ان کی ہدایات یا فتوے پر عمل کرنا ان کے لیے لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ ایرانی شیعہ علما اور مجتہدین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو کسی اسرائیل نواز گروپ یا شاہ ایران کے مجہول بیٹے کے حامیوں کے حق میں فتویٰ دے۔

ایرانی حکومتی نظام اور سسٹم میں خامیاں ہوں گی، مگر ایرانی قوم بہت آگے جا چکی ہے، اب ان پر پھر سے مردود سمجھے جانے والے شاہ کے خاندان کو مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تجربہ تو افغانستان میں بھی نہیں چلایا جا سکا تھا۔ ظاہر شاہ کو وہاں مسلط کرنے میں امریکی ناکام رہے۔ ایران میں رجیم چینج جب بھی آئی وہ اپنے فطری طریقے سے آئے گی، یوں بزور طاقت اسے مسلط کرنا بہت مشکل ہے۔

اس لیے مجھے ذاتی طور پر ایران میں رجیم چینج آسان نہیں لگ رہی، یہ ایک بعید ازقیاس آپشن ہے۔ ایران کا اصل ٹیسٹ کیس اسرائیلی فضائی حملوں کی مزاحمت کرنا اور اپنے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو برقرار رکھنا ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیلی خاص طور سے رہبر کی وفادار اور قریبی پاسداران انقلاب اور ان کے ذیلی دستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اسرائیل کا مقصد ایرانی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا، مالی اور عسکری اعتبار سے کمزور کرنے کے ساتھ نیوکلیئر آپشن کو سرے سے ختم کر دینا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے حملوں میں شدت لے آئے گا۔ ہم نے غزہ میں دیکھا ہے کہ اسرائیلی اپنے مقاصد کے لیے اندھے ہوجاتے ہیں، نہتے عوام کی ہلاکتیں اور بے پناہ تباہی بھی انہیں نرم نہیں کرسکتی۔ ان کے دل پتھر اور آنکھیں بے رحم ہوچکی ہیں۔

مجھے یوں لگ رہا ہے کہ امریکی اس معاملے میں مداخلت کر سکتے ہیں، مگر امریکی طیارے ایرانی شخصیات پر بمباری یا حملوں میں شامل نہیں ہوں گی۔ یہ کام وہ اسرائیل پر چھوڑ دیں گے۔ امریکا آخری مرحلے میں تب شامل ہوگا جب اسرائیل معاملات کو فنش نہیں کر پائے گا۔ تب امریکی اپنے بی باون بمباراور دیگر طیاروں سے ان ایرانی نیوکلیئر اڈوں کو نشانہ بنائیں گے جو بہت گہرائی میں ہیں اور جہاں اسرائیلی میزائل یا بم نہیں پہنچ پا رہے۔ یاد رکھیں کہ ایران کے خلاف جنگ سوچ سمجھ کر چھیڑی گئی ہے اور اسے ایک خاص انجام تک ضرور پہنچایا جائے گا۔

اس پورے منصوبے کو ایرانی قوت برداشت اور ایرانی میزائل حملے ہی بدل یا روک سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے پاس کس قدر مزید میزائل موجود ہیں اور کیا اس کے  میزائل لانچر امریکی تباہ کن بمباری کی تاب بھی لا سکیں گے؟ جتنے شدید ایران حملے کرے گا، اتنا ہی اسرائیل امریکا پر دباؤ ڈالے گا کہ جنگ میں شامل ہو کر ایرانی میزائل حملے کی استعداد کم یا بہت محدود کر دے۔

امریکا کو ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ بظاہر تو شاید کوئی نہیں۔ چین اور روس کھل کر ایران کی مدد کرنے کی پوزیشن اور موڈ میں نہیں لگ رہے۔ پاکستان اور ترکی کو شدید تشویش ہوگی کہ ایران کی موجودہ رجیم کی جگہ کوئی پرو اسرائیل حکومت ایران میں نہ بنے، مگر یہ دونوں ممالک بھی ایرانیوں کی عسکری مدد نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں: پاک افغان تعلقات: ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت

ایران کے پاس آپشنز بہت کم رہ گئی ہیں۔ فیصلہ ایک ہی رہ گیا ہے، مزاحمت کی شاندار مثال قائم کرتے ہوئے آخری دم تک لڑتے رہنا اور پھر عزت کی موت پانا یا پھر اپنے پچھلے مؤقف سے ہٹ کر قدرے نیچے جھک کر نیوکلیئر ڈیل کرنا۔ یہ کام آسان نہیں۔ ایران مذاکرات اور نیوکلیئر ڈیل پر آمادہ ہے مگر وہ فیس سیونگ چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے اسرائیل اور امریکا ایسا نہیں ہونے دیں گے۔  بہرحال یہ تو ہوا ہے کہ ایرانی مزاحمت نے مسلم امہ میں بہت سوں کو مسخر کر دیا ہے اور اسے آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت کی لافانی قوتیں ہر چیز پر غالب آ جاتی ہیں اور تاریخ میں بہت سے ایسے مواقع اور مثالیں موجود ہیں جب کرشمے تخلیق ہوئے۔ اللہ کرے کہ اس بار بھی ایسا ہو۔ ایرانی میزائل حملے کی استعداد اور قوت برقرار رہے، اسرائیل کا نقصان شدیدتر ہو اور اللہ کرے ممکنہ امریکی مداخلت کا وہی حشر ہو جو 4،5 عشرے قبل صدر کارٹر کے دور میں امریکی مشن کا ہوا تھا یعنی رسوا کن ناکامی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اسرائیل امریکا ایران ایران اسرائیل کشیدگی

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ مزید بڑھی تو کسی کے قابو میں نہیں رہے گی؛ سربراہ اقوام متحدہ
  • ایران اسرائیل جنگ مزید بڑھی تو کسی کے قابو میں نہیں رہے گی،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
  • ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟
  • پاکستان ریلوے حادثات پر قابو پانے میں ناکام، رواں برس پیش آنے والے حادثات کے اعداد وشمار جاری
  • مصطفیٰ عامر قتل؛ عبوری چالان میں ملزم ارمغان صحافی پر حملے میں قصوروار قرار
  • خوف کا بت ٹوٹ چکا
  • کراچی، شاپنگ مال میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا، دکانداروں کو بھاری نقصان کا سامنا
  • کراچی: شاپنگ مال میں اچانک خوفناک آگ، عمارت شعلوں کی لپیٹ میں
  • کراچی کے ملینیئم مال میں خوفناک آتشزدگی، فائر بریگیڈ کی بھرپور کارروائی