جنگیں تباہی و بربادی لاتی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
ایران نے صیہونی ریاست پر میزائلوں کے حملے جاری رکھے۔ ایران نے پڑوسی خلیجی ممالک کو خبردارکیا ہے کہ امریکا کو حملے کے لیے اپنے زمین دینے پر وہ نشانہ بن سکتے ہیں جب کہ روس نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف جنگ میں امریکا ملوث ہوا تو یہ انتہائی خطرناک اقدام ہوگا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2024 کے دوران تنازعات میں 48 ہزار سے افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی،2023 اور 2024 علاقوں میں اکیس ہزار خواتین اور سولہ ہزار بچے مارے گئے جن میں اسی فی صد بچوں کی اموات اور ستر فی صد خواتین کی اموات صرف غزہ میں ریکارڈ کی گئیں۔
امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں متوقع شمولیت کے مشرق وسطیٰ پر اثرات ایک نہایت پیچیدہ اور حساس موضوع ہے جس کا جائزہ سیاسی، اقتصادی، سیکیورٹی اور سماجی اعتبار سے لینا ضروری ہے۔
مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں جغرافیائی، نسلی، مذہبی اور سیاسی پیچیدگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہاں امریکا کی مداخلت اور تعلقات کا ہر اقدام خطے کے امن و استحکام پرگہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کی حیثیت سے دو بڑی طاقتیں خطے کی سیاسی حرکیات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور امریکا کی ان ممالک میں جاری جنگ میں شمولیت، خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو، مختلف پیچیدگیوں اور تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
اگر امریکا حملہ کرتا ہے تو سب سے پہلے ایران کی داخلی سیاست، اقتصادیات اور علاقائی حکمت عملی متاثر ہوگی۔ ایران ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی خود مختاری اور علاقائی اثر و رسوخ کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ ایران، اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خدشے اور صدر ٹرمپ کی ایران سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دھمکی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آجا ئے گا ؟ کیونکہ ایران نے پہلے ہی خبردارکردیا ہے کہ کسی بھی تیسرے ملک کے ایران پر حملہ کے سنگین نتائج ہوں گے؟ درحقیقت امریکا، اسرائیل کو اسلحہ و بارود کی فراہمی کے حوالے سے سب سے اہم ملک ہے۔
پچھلے پونے دو برس سے اسرائیل کے لیے امریکا نے اپنے اسلحہ گوداموں کے منہ جس طرح کھول رکھے ہیں، یہ غیر معمولی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے تک چلے۔ اس صورت میں ان میں سے کئی تجزیہ کاروں کو اسرائیلی شہریوں کی امریکا اور یورپی ملکوں میں بڑی تعداد میں ممکنہ نقل مکانی کے لیے بھی ابھی سے فکر دامن گیر ہونے لگ چکی ہے۔ مگر ابھی اس کا ذکر زبانوں پر نہیں۔ پچھلے لگ بھگ دو برسوں سے امریکا کا اسلحہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کام آرہا ہے۔
امریکا نے مشرق وسطیٰ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مستقل فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 19سے زائد مقامات پر امریکا کے فوجی اڈے قائم ہیں جن میں تقریباً 40 سے 50 ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں، ان میں سے 8 مستقل فوجی اڈے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق، امریکی مستقل اڈوں میں بحرین، مصر، عراق، اردن،کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، باقی اڈے وقتی نوعیت یا اسٹرٹیجک مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
امریکا کی جنگ میں مداخلت یا شمولیت سے ایران میں سخت ردعمل پیدا ہو سکتا ہے، جو نہ صرف خطے میں کشیدگی کو بڑھائے گا بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان بھی نیا تصادم پیدا کرسکتا ہے۔ ایران کی حکومت اور اس کے حمایت یافتہ گروہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستحکم اور خود مختار سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ امریکا کی شمولیت ایران کے اندر قوم پرستی اور مزاحمت کے جذبے کو ہوا دے سکتی ہے، جس سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
اقتصادی طور پر، امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت خطے کی تیل اورگیس کی مارکیٹوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی معیشت بڑی حد تک توانائی کے وسائل پر منحصر ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی کشیدگی یا جنگ اقتصادی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ ایران کی معیشت پر امریکا کی پابندیاں سخت ہو سکتی ہیں، جس سے ایران کی تجارت متاثر ہوگی اور عالمی توانائی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔
دوسری طرف، اسرائیل کی معیشت پر امریکا کی حمایت مزید مضبوط ہوگی، جس سے علاقائی اقتصادی عدم توازن بڑھ سکتا ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے امریکا کی شمولیت دونوں ممالک میں عسکری اور خفیہ اداروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرے گی، جس سے خطے میں عسکری موازنہ مزید سخت ہو سکتا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا احتمال بڑھ جائے گا اور اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی پر پڑے گا۔ مزید یہ کہ امریکا کی فوجی موجودگی خطے میں مختلف مسلح گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کو بھی متاثر کرے گی، جو اپنی جگہ پر ایک نیا عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔سماجی اور انسانی پہلوؤں پر بھی اس شمولیت کے اثرات اہم ہوں گے۔
ایران اور اسرائیل کے عوام میں امریکا کی مداخلت کو عمومی طور پر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس سے عوامی ردعمل، احتجاج اور سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ممکن ہے۔ خاص طور پر ایران میں امریکا کے خلاف عوامی نفرت اور جذباتی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے، جو خطے کی سیاسی صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ اسرائیل میں بھی امریکا کی شمولیت بعض اوقات مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے مسائل کو مزید اجاگر کر سکتی ہے۔
اگر ہم خطے کے دیگر ممالک کی نظر سے دیکھیں تو امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت سے عرب ممالک میں بھی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ممالک ایران کے ساتھ علاقائی تنازعات میں شامل ہیں اور امریکا کی مداخلت ان تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ عرب ممالک کے عوام میں بھی امریکا کی مداخلت کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے علاقائی استحکام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ترکیہ اور روس جیسے دیگر بڑے علاقائی کھلاڑی بھی اس صورتحال سے متاثر ہوں گے اور اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت مشرق وسطیٰ میں موجودہ سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی مسائل کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا سکتی ہے۔ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین باہمی احترام، مذاکرات اور سفارتی ذرایع کو ترجیح دیں تاکہ کسی بھی قسم کی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔
امریکا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں توازن اور حساسیت کا مظاہرہ کرے تاکہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام قائم کیا جا سکے۔ آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نازک موڑ ہے۔ اس سے خطے میں جنگ، امن کی کوششوں میں رکاوٹ اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکا، ایران، اسرائیل اور دیگر علاقائی کھلاڑی امن، مفاہمت اور تعاون کی فضا قائم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن اور ترقی ممکن ہو سکے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ سال گزشتہ میں ہونیوالے تنازعات میں ہلاکتوں کے حوالے سے درد انگیز ہے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جنگیں انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں جو لاکھوں لوگوں کی موت، معاشی تباہی اور سماجی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ جنگوں کی تباہ کاریاں صرف فوجوں تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ اس سے عام شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے، اس کا سب سے بڑا شکار ہوتے ہیں۔ صرف پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ہی کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
یہ اموات نہ صرف فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں، بلکہ قحط، بیماریاں اور ناقص طبی سہولیات بھی بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتی ہیں۔ جنگوں کے دوران ملکوں کے معاشی وسائل کو تباہ کردیا جاتا ہے، صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں، اور تجارت معطل ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔ کئی ممالک جنگوں کے بعد دہائیوں تک معاشی بحران کا شکار رہتے ہیں۔
جنگ کی تباہی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد پناہ کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جس سے مہاجرین کے بحران پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جنگ میں کوئی نہیں جیت سکتا، اس میں سب ہار جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کسی کا نقصان کم اورکسی کا زیادہ ہوتا ہے جنگ عالمی سرمایہ داری نظام کے کاروباری مافیا کے مفادات کا کھیل ہے۔ اس وقت دنیا میں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
آج اس خوفناک صورت حال میں تمام بڑی طاقتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا کو تیسری اور نیوکلیئر ایٹمی جنگ سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، وگرنہ تیسری عالمی جنگ انسانیت اور کرہ ارض کی تباہی کا باعث بنے گی اور یہ انسانیت کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا اور شاید یہی عالمی جنگ دنیا کے لیے قیامت بن جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا کی مداخلت ہو سکتا ہے کی شمولیت پر امریکا عالمی جنگ کہ امریکا ایران کی کا باعث سکتی ہے کسی بھی پیدا ہو کو مزید کے لیے
پڑھیں:
ایران کا میزائل وار :نظر نہ آنے والی تباہی نے اسرائیل کو بے بس کر دیا، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب: وہ نظر نہ آنے والی تباہی جس نے اسرائیل کی مضبوط دفاعی لائنوں کو لمحوں میں چکرا کر رکھ دیا، ایران کے میزائل حملے کا سب سے خطرناک پہلو بن کر سامنے آئی، میزائلوں کے زمین سے ٹکرانے پر پیدا ہونے والی دھماکے کی لہر اتنی شدید تھی کہ اسرائیل کے جدید دفاعی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا، اس مہلک لہر نے نہ صرف عمارتوں، گاڑیوں اور دیگر تنصیبات کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنی زبردست رفتار اور دباؤ سے انسانی جانوں کے لیے بھی سنگین خطرہ بن گئی۔
ایران کے اس غیر متوقع وار نے خطے میں جاری کشیدگی کو نئی سطح پر پہنچا دیا ہے اور اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ کے دوران عام تاثر یہ ہے کہ سب سے بڑا خطرہ میزائل کے دھماکے یا اس کے ٹکڑوں سے ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل مہلک اثر دھماکے کی لہر سے ہوتا ہے، جو میزائل سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
دھماکے کی یہ لہر جو میزائل کے زمین سے ٹکرانے پر پیدا ہوتی ہے، آواز کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے حرکت کرتی ہے، اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ انسان کے اندرونی اعضا کو چیر پھاڑ سکتی ہے، ہڈیاں توڑ سکتی ہے اور شدید زخموں کا باعث بن سکتی ہے، چاہے کوئی شخص میزائل کی زد میں نہ بھی آیا ہو۔
دھماکے کی لہر کیا ہوتی ہے؟
یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جب کوئی میزائل یا کوئی اور دھماکہ خیز مواد زمین یا فضا میں پھٹتا ہے تو اس کے نتیجے میں زبردست توانائی خارج ہوتی ہے، یہ توانائی ارد گرد کی ہوا کو انتہائی قوت سے دھکیلتی ہے اور ایک دباؤ کی لہر بناتی ہے جو تمام سمتوں میں آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔
یہ لہر 2000 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے حرکت کرتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شےچاہے انسان ہو، عمارت، گاڑی یا درخت کو تباہ کر سکتی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص دھماکے کے مرکز کے قریب موجود ہو تو محض اس لہر کی رفتار اور دباؤ کی شدت سے شدید زخمی ہو سکتا ہے۔
یہ لہر دائرے کی شکل میں چاروں طرف پھیلتی ہے اور جتنا کوئی دھماکے کے مرکز کے قریب ہوگا، اتنا ہی اس پر اس کے اثرات شدید ہوں گے۔ فاصلے کے ساتھ اس کی شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
دھماکے کی لہر سے ہونے والی چوٹیں
دھماکے کی لہر سے کان کے پردے پھٹ سکتے ہیں، سننے کی صلاحیت عارضی یا مستقل طور پر ختم ہو سکتی ہے، ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں اور جسم کے اندرونی اعضا کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اگر کوئی شخص دھماکے کے مرکز کے بہت قریب ہو تو اس کی پھیپھڑوں کی جھلیاں پھٹ سکتی ہیں یا وہ مکمل طور پر ناکارہ ہو سکتے ہیں اور شدید اندرونی خون بہنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
خیال رہےکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ساتویں روز میں داخل ہو چکی ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر میزائل حملے جاری ہیں حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے “بلا شرط ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کیا ہے، ایران نے کسی بھی دباؤ میں مذاکرات یا امن کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔