Express News:
2025-09-19@22:26:22 GMT

جنگیں تباہی و بربادی لاتی ہیں

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

ایران نے صیہونی ریاست پر میزائلوں کے حملے جاری رکھے۔ ایران نے پڑوسی خلیجی ممالک کو خبردارکیا ہے کہ امریکا کو حملے کے لیے اپنے زمین دینے پر وہ نشانہ بن سکتے ہیں جب کہ روس نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف جنگ میں امریکا ملوث ہوا تو یہ انتہائی خطرناک اقدام ہوگا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2024 کے دوران تنازعات میں 48 ہزار سے افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی،2023 اور 2024 علاقوں میں اکیس ہزار خواتین اور سولہ ہزار بچے مارے گئے جن میں اسی فی صد بچوں کی اموات اور ستر فی صد خواتین کی اموات صرف غزہ میں ریکارڈ کی گئیں۔

 امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں متوقع شمولیت کے مشرق وسطیٰ پر اثرات ایک نہایت پیچیدہ اور حساس موضوع ہے جس کا جائزہ سیاسی، اقتصادی، سیکیورٹی اور سماجی اعتبار سے لینا ضروری ہے۔

مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں جغرافیائی، نسلی، مذہبی اور سیاسی پیچیدگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہاں امریکا کی مداخلت اور تعلقات کا ہر اقدام خطے کے امن و استحکام پرگہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کی حیثیت سے دو بڑی طاقتیں خطے کی سیاسی حرکیات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور امریکا کی ان ممالک میں جاری جنگ میں شمولیت، خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو، مختلف پیچیدگیوں اور تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔

اگر امریکا حملہ کرتا ہے تو سب سے پہلے ایران کی داخلی سیاست، اقتصادیات اور علاقائی حکمت عملی متاثر ہوگی۔ ایران ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنی خود مختاری اور علاقائی اثر و رسوخ کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ ایران، اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خدشے اور صدر ٹرمپ کی ایران سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دھمکی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں آجا ئے گا ؟ کیونکہ ایران نے پہلے ہی خبردارکردیا ہے کہ کسی بھی تیسرے ملک کے ایران پر حملہ کے سنگین نتائج ہوں گے؟ درحقیقت امریکا، اسرائیل کو اسلحہ و بارود کی فراہمی کے حوالے سے سب سے اہم ملک ہے۔

پچھلے پونے دو برس سے اسرائیل کے لیے امریکا نے اپنے اسلحہ گوداموں کے منہ جس طرح کھول رکھے ہیں، یہ غیر معمولی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے تک چلے۔ اس صورت میں ان میں سے کئی تجزیہ کاروں کو اسرائیلی شہریوں کی امریکا اور یورپی ملکوں میں بڑی تعداد میں ممکنہ نقل مکانی کے لیے بھی ابھی سے فکر دامن گیر ہونے لگ چکی ہے۔ مگر ابھی اس کا ذکر زبانوں پر نہیں۔ پچھلے لگ بھگ دو برسوں سے امریکا کا اسلحہ بحیرہ احمر میں حوثیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کام آرہا ہے۔

امریکا نے مشرق وسطیٰ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مستقل فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 19سے زائد مقامات پر امریکا کے فوجی اڈے قائم ہیں جن میں تقریباً 40 سے 50 ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں، ان میں سے 8 مستقل فوجی اڈے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق، امریکی مستقل اڈوں میں بحرین، مصر، عراق، اردن،کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، باقی اڈے وقتی نوعیت یا اسٹرٹیجک مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

امریکا کی جنگ میں مداخلت یا شمولیت سے ایران میں سخت ردعمل پیدا ہو سکتا ہے، جو نہ صرف خطے میں کشیدگی کو بڑھائے گا بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان بھی نیا تصادم پیدا کرسکتا ہے۔ ایران کی حکومت اور اس کے حمایت یافتہ گروہ مشرق وسطیٰ میں ایک مستحکم اور خود مختار سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ امریکا کی شمولیت ایران کے اندر قوم پرستی اور مزاحمت کے جذبے کو ہوا دے سکتی ہے، جس سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔

اقتصادی طور پر، امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت خطے کی تیل اورگیس کی مارکیٹوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی معیشت بڑی حد تک توانائی کے وسائل پر منحصر ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی کشیدگی یا جنگ اقتصادی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ ایران کی معیشت پر امریکا کی پابندیاں سخت ہو سکتی ہیں، جس سے ایران کی تجارت متاثر ہوگی اور عالمی توانائی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔

دوسری طرف، اسرائیل کی معیشت پر امریکا کی حمایت مزید مضبوط ہوگی، جس سے علاقائی اقتصادی عدم توازن بڑھ سکتا ہے۔ سیکیورٹی کے حوالے سے امریکا کی شمولیت دونوں ممالک میں عسکری اور خفیہ اداروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرے گی، جس سے خطے میں عسکری موازنہ مزید سخت ہو سکتا ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا احتمال بڑھ جائے گا اور اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ کی سلامتی پر پڑے گا۔ مزید یہ کہ امریکا کی فوجی موجودگی خطے میں مختلف مسلح گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کو بھی متاثر کرے گی، جو اپنی جگہ پر ایک نیا عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔سماجی اور انسانی پہلوؤں پر بھی اس شمولیت کے اثرات اہم ہوں گے۔

ایران اور اسرائیل کے عوام میں امریکا کی مداخلت کو عمومی طور پر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس سے عوامی ردعمل، احتجاج اور سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ممکن ہے۔ خاص طور پر ایران میں امریکا کے خلاف عوامی نفرت اور جذباتی ردعمل پیدا ہو سکتا ہے، جو خطے کی سیاسی صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ اسرائیل میں بھی امریکا کی شمولیت بعض اوقات مقامی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے مسائل کو مزید اجاگر کر سکتی ہے۔

اگر ہم خطے کے دیگر ممالک کی نظر سے دیکھیں تو امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت سے عرب ممالک میں بھی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ممالک ایران کے ساتھ علاقائی تنازعات میں شامل ہیں اور امریکا کی مداخلت ان تنازعات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ عرب ممالک کے عوام میں بھی امریکا کی مداخلت کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے علاقائی استحکام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ترکیہ اور روس جیسے دیگر بڑے علاقائی کھلاڑی بھی اس صورتحال سے متاثر ہوں گے اور اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت مشرق وسطیٰ میں موجودہ سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی مسائل کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا سکتی ہے۔ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین باہمی احترام، مذاکرات اور سفارتی ذرایع کو ترجیح دیں تاکہ کسی بھی قسم کی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔

امریکا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں توازن اور حساسیت کا مظاہرہ کرے تاکہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام قائم کیا جا سکے۔ آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکا کی ایران اور اسرائیل جنگ میں شمولیت مشرق وسطیٰ کے لیے ایک نازک موڑ ہے۔ اس سے خطے میں جنگ، امن کی کوششوں میں رکاوٹ اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکا، ایران، اسرائیل اور دیگر علاقائی کھلاڑی امن، مفاہمت اور تعاون کی فضا قائم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن اور ترقی ممکن ہو سکے۔

 دوسری جانب اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ سال گزشتہ میں ہونیوالے تنازعات میں ہلاکتوں کے حوالے سے درد انگیز ہے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جنگیں انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں جو لاکھوں لوگوں کی موت، معاشی تباہی اور سماجی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ جنگوں کی تباہ کاریاں صرف فوجوں تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ اس سے عام شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے، اس کا سب سے بڑا شکار ہوتے ہیں۔ صرف پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں ہی کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔

یہ اموات نہ صرف فوجی کارروائیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں، بلکہ قحط، بیماریاں اور ناقص طبی سہولیات بھی بڑی تعداد میں اموات کا باعث بنتی ہیں۔ جنگوں کے دوران ملکوں کے معاشی وسائل کو تباہ کردیا جاتا ہے، صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں، اور تجارت معطل ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔ کئی ممالک جنگوں کے بعد دہائیوں تک معاشی بحران کا شکار رہتے ہیں۔

جنگ کی تباہی کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد پناہ کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں، جس سے مہاجرین کے بحران پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جنگ میں کوئی نہیں جیت سکتا، اس میں سب ہار جاتے ہیں۔ فرق یہ ہے کسی کا نقصان کم اورکسی کا زیادہ ہوتا ہے جنگ عالمی سرمایہ داری نظام کے کاروباری مافیا کے مفادات کا کھیل ہے۔ اس وقت دنیا میں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

آج اس خوفناک صورت حال میں تمام بڑی طاقتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا کو تیسری اور نیوکلیئر ایٹمی جنگ سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، وگرنہ تیسری عالمی جنگ انسانیت اور کرہ ارض کی تباہی کا باعث بنے گی اور یہ انسانیت کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا اور شاید یہی عالمی جنگ دنیا کے لیے قیامت بن جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کی مداخلت ہو سکتا ہے کی شمولیت پر امریکا عالمی جنگ کہ امریکا ایران کی کا باعث سکتی ہے کسی بھی پیدا ہو کو مزید کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی

بین الاقوامی امور کے ماہر حمد حسن العربی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اب تک کتنے معاشی معاہدے اور اُن پر کیا پیشرفت ہوئی؟

وی نیوز کے پروگرام ’سیاست اور صحافت‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پائے جانے والا معاہدہ ’ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا‘ اور یہ گلوبل جیو پالیٹکس کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ورلڈ آرڈر تبدیل ہورہا ہے اور دنیا طاقت کے ایک مرکز سے ہٹ کر طاقت کے زیادہ مراکز کی طرف جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران پرانے معاہدے ختم ہوجاتے ہیں اور نئے گٹھ جوڑ اور معاہدے طے پاتے ہیں اور یہی سب کچھ پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی ہوا تھا کہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹی اور نئے معاہدے اور بارڈر بنے۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے کبھی بھی مڈل ایسٹ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں نہیں تھا اور اسی طرح یورپ سارے کا سارا پہلے کبھی اکٹھا نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپی یونین کا وجود ہوا اور تمام ملک اکٹھے ہوگئے، ادھر مڈل ایست الگ الگ ریاستوں میں بٹ گیا۔

’یورپ بکھرنے اور اسلامی ممالک ایک ہونے جا رہے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ اب دنیا ملٹی پولرِٹی کی طرف جارہی ہے اس تبدیلی کا  اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یورپ پھر سے ٹوٹنے اور مسلم ممالک ایک ہونے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان سعودی عرب کا ہر فورم پر بھرپور ساتھ دے گا: وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد کو یقین دہانی

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسلم اتحاد نیتن یاہو کی مڈل ایسٹ میں بڑے پیمانے پر مداخلت کی بدولت وجود میں آئے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے سابق امریکی صدر نے بھی کہا تھا کہ نیتن یاہو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مڈل ایسٹ میں جنگوں پر جنگیں کر رہا ہے۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مڈل ایسٹ کو پہلے سلطنت برطانیہ اور بعد میں امریکا کہتا تھا کہ ہم آپ کو سیکیورٹی فراہم کریں گے آپ اسلحے کی فکر نہ کریں لیکن جب اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں مختلف ملکوں پر حملے کرنا شروع کیے تو ان تمام ممالک کی سیکیورٹی گارنٹی پر سوال اٹھے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران سعودی عرب نے اپنی سالمیت کو مقدم سمجھتے ہوئے اپنی سیکیورٹی کے لیے یہ فیصلہ کیا اور اپنے بھائی ملک پاکستان سے معاہدہ کرلیا۔

وی نیوز کے سوال کے جواب میں احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ نیا نہیں اس پر بات چیت اس وقت ہی شروع ہوچکی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔

مزید پڑھیں: صحرا کو کیسے قابل کاشت بنائیں؟ پاکستان سعودی عرب سے مدد لینے کا خواہاں

عربوں کو اس وقت ہی اپنی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہوچکی تھی اور کچھ ماحول بھی ایسا ہوچکا تھا کہ یہ معاہدہ ہونا ہی تھا کیونکہ پاکستان نے معرکہ حق اور آپرشن بنیان مرصوص کے ذریعے اپنی دھاک بٹھا دی تھی۔

’یہ ٹاپ لیول معاہدہ ہے، گزشتہ معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں لائے گئے

انہوں نے کہا کہ جو پاکستان اور سعودیہ کے پرانے دفاعی معاہدے تھے وہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آتے تھے لیکن ابھی جو معاہدہ طے پایا ہے ٹاپ لیول کا معاہدہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ بات اہم ہے کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان معاہدے اس طرح منظر عام پر نہیں آئے تھے جو ابھی ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی اس طرح کا ہائی آرڈر معاہدہ کبھی بھی کسی ملک کے درمیان نہیں ہوا کہ ایک ملک کے کسی شہر پر حملہ دوسرے ملک کے شہر پر حملہ تصور کیا جائے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاہدہ سعودی عرب تک محدود نہیں رہے گا، باقی ممالک بھی اسی معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے سائے تلے جمع ہوں گے اور یہ معاہدہ مسلم اتحاد کے حقیقی سفر کی طرف بڑھنے کی شروعات ہے۔

’اس معاہدے پر 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی‘

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے بعد 2 ممالک کو بہت تکلیف پہنچی ہے جن میں سے ایک اسرائیل اور دوسرا بھارت ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستان سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیا معنی رکھتے ہیں؟

احمد حسن العربی نے کہا کہ یہ معاہدہ جنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ کو روکنے کے لیے ہے، معاہدے کا مقصد امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس معاہدے کے نکات خفیہ ہی رہیں تو بہتر ہیں کیونکہ اسرائیل سمیت دیگر ملکوں نے بھی اپنے معاہدے خفیہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے احمد حسن نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پیش آنے والے معاہدے کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے عوام بہت خوش ہیں اور دنیا بھر کا میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو یہ معاہدہ کسی لسانی یا ثقافتی یا تاریخی بنیادوں پر نہیں طے پایا بلکہ اسلام کی بنیادوں پر طے پایا۔

’دیگر ممالک بھی پاکستان سے دفاعی معاہدے کریں گے‘

احمد حسن العربی نے کہا کہ سعودیہ کے اس اقدام کے بعد دیگر ممالک بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے پیش نظر اس سے معاہدے کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اکانومی کافی سالوں سے گراوٹ کا شکار ہے لیکن جیو اکانومی کبھی بھی جیو اسٹریٹجک سے اوپر نہیں جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بڑے ممالک ہیں امریکا، روس اور چین ان سب نے جیو اسٹریٹجی کی بدولت ہی دنیا میں اپنی ڈھاک بٹھائی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق

احمد حسن العربی نے کہا کہ ہم سب کے سامنے ہے کہ سعودی عرب کے پاس بہترین اکانومی ہے اور ہمارے پاس بہترین دفاعی صلاحیت ہے تو دونوں مل کر بہترین حکمت عملی کے تحت اس پر کام کرسکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی اکانومی بہت اوپر چلی جائے گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں احمد العربی نے کہا کہ بڑے تھنک ٹینکس اس حوالے سے بات کرچکے ہیں کہ 21ویں صدی مشرق والوں کی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاور شفٹ ہورہی ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہیے کہ 21ویں صدی مشرق کی صدی ہوگی۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ میری رائے کے مطابق اگلے 10 سال بعد اس ملک کا مستقبل بہت اچھا ہوگا جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اپنا پول سیٹ کرلے گا اور اس وقت قدرتی طور پر پاکستان کے لیے حالات خوشگوار دکھائی دے رہے ہیں اور پاکستان ان تینوں ملکوں کے درمیان اپنی جگہ بخوبی بنا رہا ہے۔

’بہترین ملٹری ڈپلومیسی نوجوانوں کا مستقبل محفوظ بنارہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ یہ بات یہاں بہت اہم ہے کہ پاکستان کی ملٹری ڈپلومیسی اس وقت بہترین حکمت عملی کے تحت پاکستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تاریخی دفاعی معاہدہ کی تفصیلات

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسی طرح پاکستان اپنے تعلقات مزید مضبوط کرتا رہا تو اگلے 10سالوں سے پہلے ہی پاکستان اس مقام پر ہوگا کہ جس کی رائے اور ہاں یا نہ طاقتور حلقوں میں مقدم ہوگی۔

احمد حسن العربی نے کہا کہ ’اگلے 10سالوں کے دوران پاکستان کا شمار دنیا کے ان 3،4 ملکوں میں ہوگا جن کی بات کہنے سے دنیا کے فیصلے ہوتے ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد حسن العربی پاکستان پاکستان اور سعودی عرب دفاعی معاہدہ سعودی عرب

متعلقہ مضامین

  • امن اور انسانیت دشمن امریکا!
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • چاہ بہار پورٹ پابندی: بھارت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
  • امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، چاہ بہار استثنیٰ ختم
  • پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے پر بات اسرائیل کے ایران پر حملوں کے وقت ہوئی، احمد حسن العربی
  • ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
  • مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
  • مشرق وسطی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے ،شہباز شریف
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • پاکستان کی کسی کو پروا نہیں، انا پر جنگیں بڑی جا رہی ہیں: گنڈاپور