امریکہ نے ایران پر جارحیت کی تو بحیرہ احمر میں اس کے جہازوں کو نشانہ بنائیں گے، یمن کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ السریع نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا کوئی بھی مشترکہ حملہ امت مسلمہ پر براہ راست جارحیت ہو گا، جس کا مقصد خطے پر صیہونی تسلط مسلط کرنا اور اس کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یمن نے اعلان کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں ایران کے خلاف فوجی جارحیت کی تو وہ بحر احمر میں امریکی بحری جہازوں اور جنگی کشتیوں کو نشانہ بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ السریع نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا کوئی بھی مشترکہ حملہ امت مسلمہ پر براہ راست جارحیت ہو گا، جس کا مقصد خطے پر صیہونی تسلط مسلط کرنا اور اس کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کو سلب کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمنی افواج خطے میں تمام فوجی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ملک کے دفاع کے لیے ضروری اقدامات کریں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ یمن کسی بھی برادر اسلامی ملک پر ہونے والے حملے کے خلاف خاموش تماشائی نہیں بنے گا۔ یحییٰ السریع نے مزید کہا یہ جنگ پوری امت کی جنگ ہے، ہم غزہ میں اپنے بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ہم ہر اس کا ساتھ دیں گے جو صیہونی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے، خواہ وہ اپنے دفاع میں ہو یا فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نوجوان امریکیوں نے خود کو اسرائیل سے دور کر لیا ہے, سابق صیہونی وزیراعظم
غاصب اسرائیلی رژیم کے سابق وزیراعظم نے اس قابض رژیم کی امریکہ میں موجود عوامی حمایت میں نمایاں کمی کے بارے غیر معمولی بیان جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکیوں کی نوجوان نسل، حتی کہ ریپبلکنز کی بھی، اب اسرائیل کیلئے پہلے جیسی ہمدردی نہیں رکھتی! اسلام ٹائمز۔ غاصب و سفاک صیہونی رژیم کے اندھے حامی امریکہ میں 10 دن گزارنے کے بعد جاری ہونے والے اپنے تازہ بیان میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے درمیان استوار تعلقات کو "نازک" قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے بیان میں نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں اسرائیل کی حیثیت کبھی بھی اتنی "کمزور" نہیں ہوئی جبکہ اس وقت اسرائیل، امریکیوں کی نظر میں ایک "مسترد شدہ ریاست" بن چکا ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے تاکید کی کہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی ایک طویل عرصے سے اسرائیل کے ساتھ نہیں رہی اور اب یہ صورتحال ریپبلکن پارٹی تک بھی پھیل چکی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے سابق وزیراعظم نے خبردار کیا کہ قدامت پسند گروہ، بشمول MAGA تحریک، بھی خود کو اسرائیل سے دور کر رہا ہے اور یہ کہ امریکیوں کی نوجوان نسل، حتی کہ ریپبلکنز کی بھی، اب اسرائیل کے لئے "کم ہمدرد" ہو چکی ہے۔
نفتالی بینیٹ نے غزہ کی پٹی پر مسلط کی جانے والی وسیع قحط کی صیہونی مہم کی کثیر جہتوں کی جانب بھی اشارہ کیا اور لکھا کہ اسے امریکی عوام اور موثر طبقے کی اکثریت نے ایک "حقیقت" کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ نفتالی بینیٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل اب امریکیوں کی نظر میں "امریکہ کے کاندھوں پر بھاری بوجھ" بن چکا ہے نیز یہ کہ امریکی یہودی کمیونٹی بھی اب (مبینہ طور پر) "یہود دشمنی کی وسیع لہر" کا سامنا کر رہی ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے غاصب صیہونی کابینہ پر معلومات و پروپیگنڈے کے شعبے میں عدم فعالیت کا الزام لگایا، اور "مربوط و طاقتور معلوماتی ہیڈ کوارٹر" کے فقدان پر سخت تنقید کی۔ نفتالی بینیٹ نے نیتن یاہو کی کابینہ کے کئی ایک وزراء کے معاندانہ رویے کی جانب بھی اشارہ کیا کہ جنہوں نے، نفتالی بینیٹ کے بقول، اپنے "تباہ کن الفاظ" کے ساتھ اسرائیلی فوج کی ساکھ کو "شدید نقصان" پہنچایا ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں بینیٹ نے خبردار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ یہ صورتحال عالمی سطح پر "اسرائیل کی عملیاتی آزادی" پر پابندیوں کا باعث بن سکتی ہے۔