اب امن ہو گا یا پھر ایران کے لیے سانحہ ، امریکی صدر کی تہران کو دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد قوم سے خطاب میں ایران کو متنبہ کیا ہے کہ اسے اب امن قائم کرنا ہوگا، ورنہ آئندہ حملے ایران کے لیے سانحہ ہوں گے۔
ٹرمپ نے تصدیق کی کہ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات، بشمول فورڈو، نطنز اور اصفہان پرحملے کیے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا نے سالوں تک ان ناموں کو سنا، جب ایران نے اس تباہ کن منصوبے کو تیار کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ آج رات میں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ یہ حملے بے حد کامیاب رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اب یا تو امن ہوگا یا ایران کے لیے وہ تباہی آئے گی جس کا ہم نے گزشتہ آٹھ دنوں میں مشاہدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں کئی دیگر اہداف باقی ہیں۔ آج رات کا حملہ ان سب میں سب سے مشکل اور شاید سب سے مہلک تھا۔ لیکن اگر امن جلدی نہ آیا تو ہم ان دیگر اہداف کو تیز رفتاری، مہارت اور درستگی کے ساتھ نشانہ بنائیں گے۔
ٹرمپ نے ایران کے سابق فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی نے ہزاروں افراد کی جان لی۔ میں نے طے کیا تھا کہ اس کا سلسلہ یہاں نہیں رکے گا، اور یہ جاری نہیں رہنے دیا جائے گا۔
صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں نے اس تباہ کن خطرے کو ختم کرنے کے لیے ایک ٹیم کے طور پر کام کیا۔
ٹرمپ کا خطاب تقریباً چار منٹ تک جاری رہا، جس میں انہوں نے ایران کے ساتھ مزید کشیدگی کے امکانات اور امریکہ کے عزم کا اظہار کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے ایران ایران کے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، سید عباس عراقچی
اپنے ایک ٹویٹ میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارتکاری کو رواج دے۔ اسلام ٹائمز۔ رواں شب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے ایک ٹویٹ پوسٹ کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ میں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے گزشتہ روز یورپی ساتھیوں کو ایک معقول اور قابل عمل تجویز پیش کی تا کہ آنے والے دنوں میں ایک غیر ضروری اور قابل پرہیز بحران سے بچا جا سکے۔ لیکن افسوس کہ اس تجویز کے مواد پر غور کرنے کے بجائے، ایران کو اب مختلف بہانوں اور واضح ٹال مٹول کا سامنا ہے، جن میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی شامل ہے کہ وزارت خارجہ پورے سیاسی نظام کی نمائندہ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ فرانسوی صدر "امانوئل میکرون" نے تسلیم کیا کہ میری تجویز معقول ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کاروں اور عالمی برادری کو یہ جان لینا چاہئے کہ مجھے اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل سمیت تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاید اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپی سفارتی نظام كو ہی كوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل مداخلت کرے اور تصادم کی جگہ سفارت کاری کو رواج دے۔ خطرہ اپنی انتہاء پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پہلے ہی اپنی ذمہ داری پوری کر چکا ہے۔
۱۔ ہم نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو ہمارے داخلی و بین الاقوامی وعدوں کے مطابق ہے۔ ہم نے ایران کی محفوظ ایٹمی تنصیبات پر غیر قانونی حملوں کے باوجود، آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کا نیا باب کھولا ہے۔
۲۔ ہم نے ایک تخلیقی، منصفانہ اور متوازن تجویز پیش کی ہے جو حقیقی خدشات کو دور کرتی ہے۔ جو فریقین کے لئے فائدہ مند ہے۔ اس تجویز پر فوری عمل ممکن ہے اور یہ اختلافات کے اہم نکات کو حل کر کے بحران کو روک سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہے، لیکن ایران یکطرفہ طور پر ان تجاویز پر عمل کی تمام ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔