لاہور، معمولی تلخ کلامی پر 12 سالہ لڑکے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)صوبائی دارالحکومت لاہور میں معمولی تلخ کلامی پر 12سالہ لڑکے پر پٹرول چھڑ ک کر آگ لگا دی،لڑکے کواسپتال منتقل کر دیاگیا جہاں اس کا علاج جاری ہے،واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو اہلکار اور پولیس کی نفری موقع پر پہنچ گئی۔تفصیلات کے مطابق افسوسناک اور انسانیت سوزواقعہ لاہور کے علاقے پرانی انار کلی میں پیش آیا جہاں 12 سالہ لڑکے
اویس کو مبینہ طور پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔پولیس کے مطابق واقعہ معمولی تلخ کلامی کے بعد پیش آیاجس میں دو نوجوانوں نے اویس کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس پر پٹرول ڈال کر آگ لگا دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اویس اپنے بھائی کی جیولری شاپ پر موجود تھا جب یہ افسوسناک واقعہ پیش آیاجس کے بعداویس کو شدید زخمی حالت میں فوری طور پراسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ زیر علاج ہے۔پولیس نے زخمی اویس کے بھائی رجب کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کر آگ لگا دی پر پٹرول
پڑھیں:
دو سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے ایک بار پھر تباہ شدہ اسکولوں کا رخ کرنے لگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج اپنی برباد شدہ درسگاہوں کی جانب لوٹنے لگے ہیں، جہاں ایک بار پھر تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی ہے۔ جنگ بندی کے بعد تعلیم کی بحالی نے نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے دلوں میں بھی نئی اُمید پیدا کر دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی اُنروا نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں بعض اسکول جزوی طور پر دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جہاں بچے عارضی کلاس رومز میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں۔
اُنروا کے سربراہ فلپ لزارینی کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد طلبہ عارضی تعلیمی مراکز میں واپس آچکے ہیں، جبکہ تقریباً 3 لاکھ بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ادارے کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں تدریسی عمل بحال کر دیا گیا ہے، اگرچہ عمارت اب بھی تباہ شدہ ہے اور کمروں کی شدید قلت ہے۔
عرب میڈیا سے گفتگو میں 11 سالہ فلسطینی بچی وردہ نے کہا کہ “میں اب چھٹی جماعت میں ہوں، لیکن جنگ اور نقل مکانی نے میری دو سال کی تعلیم چھین لی۔” اُس نے بتایا کہ اسکول اب آہستہ آہستہ بحال ہو رہا ہے، اور جیسے ہی عمارت خالی ہوگی، کلاسز معمول کے مطابق جاری ہو سکیں گی۔
رپورٹ کے مطابق تدریس کے ابتدائی دنوں میں ایک ہی کمرے میں پچاس سے زائد طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں، نہ میزیں ہیں نہ کرسیاں، صرف زمین پر بیٹھ کر وہ نوٹ بک میں لکھنے پر مجبور ہیں۔
سخت حالات، محدود وسائل اور ادھڑی عمارتوں کے باوجود غزہ کے بچوں نے ہار نہ مانی۔ وہ علم کے ذریعے اپنی برباد دنیا کو ازسرِنو روشن کرنے کے عزم کے ساتھ اسکولوں کا رُخ کر رہے ہیں — اس اُمید کے ساتھ کہ شاید تعلیم ہی اُن کے مستقبل میں امن کی کرن بن سکے۔