مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے اب تک 22 ہزار 983 خواتین بیوہ ہوئیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متنازعہ علاقے میں گزشتہ 37سال کے دوران تقریبا 2500خواتین کو نیم بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاںگیا ہے کیونکہ ان کے شوہروں کو بھارتی فوج اور پولیس نے گرفتاری کے بعد غائب کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں بیوہ خواتین کا دن منایا جا رہا ہے، کشمیری خواتین کو بھارتی فوجیوں اور ایجنسیوں کی طرف سے مسلسل مظالم کا سامنا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی مسلسل ریاستی دہشت گردی سے جنوری 1989ء سے اب تک 22 ہزار 983خواتین بیوہ ہوئیں جن کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست شہید کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متنازعہ علاقے میں گزشتہ 37سال کے دوران تقریبا 2500خواتین کو نیم بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کیاںگیا ہے کیونکہ ان کے شوہروں کو بھارتی فوج اور پولیس نے گرفتاری کے بعد غائب کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سی خواتین ذہنی تنائو کی وجہ سے فوت ہو گئی ہیں۔ یہ دن کشمیری بیوائوں اور نیم بیوائوں کو درپیش مشکلات کی یاددہانی ہے اور دنیا کو ان کی مشکلات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گمشدہ افراد کے والدین کی تنظیم”ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس ایپئرڈ پرسنز” اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1989ء سے اب تک 8 ہزار کے قریب شہری بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تحویل میں غائب کر دیے گئے ہیں۔برپورٹ میں کہا گیا کہ یہ نیم بیوہ خواتین اپنے شوہروں کو تلاش کرنے کے لئے کئی سالوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج اور پیراملٹر فورسز کے کیمپوں کے چکر کاٹ رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2001ء سے آج تک 688 خواتین کو فورسز کے اہلکاروں نے شہید کیا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خواتین کو اور پولیس کو بھارتی شوہروں کو
پڑھیں:
پاکستان میں ہر 45 منٹ میں ایک ماں حمل یا زچگی سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث جان بحق ہوجاتی ہے۔،پاپولیشن فنڈ رپورٹ
اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان میں ہر 45 منٹ میں ایک ماں حمل یا زچگی سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث جان بحق ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں ہر تین میں سے دو خواتین اپنی تولیدی صحت کے فیصلے کرنے کے اختیار سے محروم ہیں
دنیا کی آبادی کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ2025 میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے خواتین اور لڑکیاں اب بھی اپنے بچوں کی تعدادکے بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے صرف ایک عورت کو اپنی تولیدی صحت سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔” بدلتی دنیا میں تولیدی خودمختاری” کے عنوان سے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ 2025 کے مطابق دنیا بھر میں بے شمار جوڑوں کو اپنی مرضی کی فیملی تشکیل دینے میں متعدد سماجی، معاشی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کی 67 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ 15 سے 19 سال کی عمر کی ہر 1000 لڑکیوں میں سے 41 لڑکیاں ماں بن چکی ہوتی ہیں، جبکہ 18 فیصد سے زائد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی ہو جاتی ہے۔• 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں سے صرف 32 فیصد جدید مانع حمل طریقے استعمال کرتی ہیں، جبکہ 16 فیصد سے زائد خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی سہولت میسر نہیں۔
یو این ایف پی اے اور یو گوو کی طرف سے چودہ ممالک کے ایک بین الاقوامی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک فرد کا خیال ہے کہ اس کے بچوں کی تعداد اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوگی۔ اس کی بڑی وجوہات میں معاشی دباؤ، روزگار کی غیر یقینی صورتحال، رہائش کے مسائل، دنیا کی حالت پر خدشات، اور موزوں شریکِ حیات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ 50 فیصد سے زائد افراد نے بچوں کی پیدائش میں معاشی مسائل کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔پاکستان میں یو این ایف پی کی نمائندہ ڈاکٹر لوائے شبانے نے کہا:”ہر فرد اور ہر جوڑے کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کے بارے میں آزادانہ فیصلے کر سکیں، اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ مناسب نظام اور پالیسیوں کے ذریعے اس فیصلے کو لوگوں کے لیے آسان بنائے۔ آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔تولیدی خودمختاری، معیاری تعلیم، روزگار کے مواقع، اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کے ذریعے انسانی سرمائے میں اضافہ پاکستان کے پائیدار مستقبل کی بنیاد بن سکتا ہے “۔