پاکستان انڈیا جنگ بند کرانے میں امریکا کا اہم کردار تھا، شاہد خان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سابق امریکی پالیسی ایڈوائزر شاہد خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی پیشرفت ہے اور پاکستان کے حق میں بہت زیادہ جاتی ہے، اس وقت سولو سپر پاور جس کی طرف سب دیکھتے ہیں وہ یقیناً امریکا ہے،کچھ ماہ پہلے جب صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالی تو تاثر تھا کہ امریکا اور انڈیا کے تعلقات بہت بہتر ہوں گے کیونکہ بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدرکے درمیان ذاتی تعلقات ہیں مگر یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ امریکی صدر کی طرف سے جو لنچ تھا، اس سے پہلے اس قسم کی کوئی پیشرفت امریکی تاریخ میں نہیں ہوئی کہ کسی ملک کے آرمی چیف کو صدر ذاتی طور پر بلائے اور اس کو اسٹیٹ گیسٹ کا پروٹوکول دیا جائے ، یہ ریاست پاکستان کے لیے اور پاکستانی عوام کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان انڈیا جنگ بند کرانے میں یقیناً امریکا کا بہت بڑا کردار تھا۔
ماہر بین الاقوامی امور سلمی ملک نے کہا کہ ایران تو گفتگو کیلیے تیار ہے اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ بات چیت کر بھی رہا ہے، مگر بدقسمتی سے اسرائیل کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی امریکا کا موڈ ہے ، ان کی شرائط پر اگر ایران جنگ بندی کا اعلان کرتا ہے توپھر بات ٹھیک ہے ورنہ یہ جنگ چلتی رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس جنگ میں امریکا اتنا ہی ملوث ہے جتنا اسرائیل ہے،ماہر بین الاقوامی امور احمر بلال صوفی نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں ایسی کوئی پرویڑن نہیں ہے کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے یا پانی کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اگر اس قسم کی ٹریٹی نہ بھی ہو تو بین الاقوامی قانون میں اپر رپیرین کے پاس پانی کا رخ کسی بھی طریقے سے موڑنے کے کوئی رائٹس نہیں ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
پاکستان کی ریاست صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا چاہتی ہے،، ذوالفقار بھٹو جونیئر
اپنے پیغام میں ذوالفقار بھٹو جونیئر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی طرف سے چند بیانات جاری ہوئے، لیکن اس کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، حال ہی میں غزہ کے حق میں ہونے والے ایک احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی مذہبی تنظیم آئی، نہ کوئی شہری تنظیم، لوگ تھک چکے ہیں، بور ہو چکے ہیں۔ فنکار اور سماجی کارکن ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے ایک پُرجوش اور جذباتی ویڈیو پیغام میں فلسطینی عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے عملی مدد کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے پیغام میں ذوالفقار بھٹو جونیئر نے ریاستی رویے کو مدھم ردعمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام بھی فلسطینیوں کی اذیت سے بے حس ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ فلسطین میں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ یہ قحط قدرتی نہیں، انسانوں کا پیدا کردہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر محصور فلسطینیوں کی طرف سے شیئر کردہ مناظر مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور یہ مناظر اتنے دردناک اور بے ساختہ ہیں کہ ان سے نظریں ہٹانا ممکن نہیں۔ بھٹو جونیئر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی طرف سے چند بیانات جاری ہوئے، لیکن اس کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، حال ہی میں غزہ کے حق میں ہونے والے ایک احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی مذہبی تنظیم آئی، نہ کوئی شہری تنظیم، لوگ تھک چکے ہیں، بور ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ پاکستانی فلسطین کے حق میں اپنی زبان استعمال کیوں نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نعرے بھی انگریزی یا عربی میں لگائے جاتے ہیں، اردو کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب یو اے ای، سعودی عرب اور بحرین جیسی ساری مسلم ریاستیں فلسطین کو چھوڑ چکی ہیں، تو ہمارے جیسے ملک کیوں خاموش ہیں؟۔ ذوالفقار بھٹو جونیئر نے الزام لگایا کہ پاکستان کی ریاست صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا چاہتی ہے، اس لیے اپنے لوگوں کو فلسطین کے لیے کھڑا ہونے سے روکا جا رہا ہے۔