مہمان خاص محترمہ رخسانہ جبین نے نئی نسل سے وابستہ شعراء کی شعری صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ابھرتے ہوئے شعراء سے مستقبل قریب میں بہت امید وابستہ ہے۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

کلچرل اکیڈمی کشمیر کیطرف سے سرینگر میں اردو مشاعرہ منعقد

اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کے اہتمام سے آج کانفرنس روم ٹیگور ہال سرینگر میں ایک اردو مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت کہنہ مشق شاعر رفیق راز  نے جبکہ ڈاکٹر نذیر آزاد بطور مہمان ذی وقار جبکہ محترمہ رخسانہ جبین بطور مہمان خاص ایوان صدارت میں موجود رہے۔ تقریب کے آغاز میں مدیر شیرازہ اردو محمد سلیم سالک نے مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا۔ مشاعرے میں احمد ارسلان، شیخ الطاف، عامر محی الدین، عقیل فاروق، آصف عطا اللہ، تسنیم الرحمن، ہجر مومن، اقبال حیات، جاذب جہانگی، ممتاز احمد ممتاز، عطیہ رفعت، وکیل احمد حیات، راشف عظمی، سید مرتضی بسمل، پرویز گلشن، راتھر روشن آرا، منتظر رسول، فاہی کشمیری، عمر عالم، عمر فیاض اور احمد سجاد نے اپنا کلام پیش کیا جسے حاضرین کی طرف سے پذیرائی اور داد و تحسین حاصل ہوئی۔ مشاعرے کے اختتام پر آخر ڈاکٹر نذیر آزاد نے شعر و ادب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور ابھرتے ہوئے شعراء کی حوصلہ افزائی کی۔

مہمان خاص محترمہ رخسانہ جبین نے نئی نسل سے وابستہ شعراء کی شعری صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ابھرتے ہوئے شعراء سے مستقبل قریب میں بہت امید وابستہ ہے۔ تقریب کے اختتام پر رفیق راز نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے تقریب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور شعر و ادب کے لوازمات اور باریکیوں پر جامع مگر پُرمغر اور بصیرت افروز گفتگو کی۔ تقریب میں سرکردہ ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں، اسکالرز اور طالب علموں کی کثیر تعداد نے شرکت کی جن ڈاکٹر جاوید رسول، شفیع احمد، مشتاق مہدی، قرت العین، اصغر رسول، ڈاکٹر عبد المجید بھدرواہی، شبیر حسین شبیر، ڈاکٹر مبارک لون، ایوب نعیم کرناہی، ناظم نذیر، عبدالرشید راہگیر، مشتاق کینی، عبدالواحد منہاس، ریحانہ شجر، غلام نبی شاہد شامل ہیں۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد اقبال لون نے انجام دئے۔ تقریب کے اختتام پر مدیر شیرازہ اردو محمد سلیم سالک نے شکریہ کی تحریک پیش کی۔.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تقریب کے

پڑھیں:

بھارت نے کشمیر پر حقائق چھپانے کے لیے 25 کتابوں پر پابندی لگادی

بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں علمی آزادی کو کچلنے اور کشمیر تنازعے کے حقائق چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جنہیں حکام نے بقول ان کے ’بھارت کی سالمیت کے لیے خطرہ‘ قرار دیا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام کشمیری آوازوں کو دبانے، بھارتی مظالم پر پردہ ڈالنے اور سخت سنسرشپ کے ذریعے خطے کی سچائی مٹانے کی منظم کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فنڈز کی کمی کے باعث خیبرپختونخوا میں پبلشرز نے تدریسی کتابوں کی چھپائی روک دی

آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ’مؤرخین اور اسکالروں کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی زندہ یادداشتیں مٹائی نہیں جا سکتیں۔ یہ اقدام ان عناصر کی کم علمی اور خوف کی عکاسی ہے جو ایسے آمرانہ اقدامات کے پیچھے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک جانب کتاب میلہ سجایا جا رہا ہے اور دوسری طرف سچ بولنے والی کتابیں ضبط کی جا رہی ہیں۔‘

حریت کانفرنس اور دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے اس فیصلے کو بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد کشمیری عوام کی جدوجہد، تکالیف اور تاریخ کو مٹانا ہے۔

سینیئر ماہر تعلیم پروفیسر اندرابی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں بلکہ بیانیے پر قبضے کی کوشش ہے۔ جب ریاست کتابوں سے ڈرتی ہے تو اس کی خود ساختہ سچائی کی بنیادیں ظاہر ہو جاتی ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسین کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ گھبراہٹ اس بات کی علامت ہے کہ وہ سچائی سے خائف ہے۔ سچائی نہ پابندی سے چھپتی ہے اور نہ ہی یادداشتیں مٹائی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کے ’نئے بانی‘ اور فہمیدہ ریاض کی ایک پرانی کتاب

پابندی کا شکار ہونے والی کتابوں میں کئی معروف بھارتی، کشمیری اور بین الاقوامی مصنفین کی تحریریں شامل ہیں، جن میں درج ذیل اہم عنوانات نمایاں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالجبار گوکھامی کی کتاب Kashmir’s Right to Secede کشمیر کے حقِ خود ارادیت کو اصولی اور قانونی زاویوں سے دیکھتی ہے، جب کہ رخا چودھری کی تصنیف Kashmir – Towards Insurgency وادی میں مزاحمتی تحریک کے آغاز اور اسباب پر تحقیق پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر سمنترہ بوس کی معروف تصنیف The Crisis in Kashmir موجودہ بحران کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہے، جب کہ ان کی ایک اور کتاب Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace میں تنازعے کی جڑوں اور ممکنہ حل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اے جی نورانی کی کتاب The Kashmir Dispute تاریخی و قانونی نکات پر مبنی ایک جامع تصنیف ہے، جبکہ بین الاقوامی مصنفہ وکٹوریا شوفیلڈ کی Kashmir in Conflict کشمیر کی تاریخ اور تنازعے کو مفصل انداز میں بیان کرتی ہے۔ ڈاکٹر رادھا کمار کی Paradise at War میں وادی کے خوبصورت لیکن جنگ زدہ چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے، اور بشارت پیر کی ذاتی تجربات پر مبنی کتاب Curfewed Night قارئین کو زمینی حقائق سے روشناس کراتی ہے۔

خالد بشیر احمد کی Kashmir: Exposing the Myth Behind the Narrative بھارتی بیانیے کو چیلنج کرتی ہے، جبکہ اے ایس دولت کی Kashmir: The Vajpayee Years واجپائی دور میں کشمیر پالیسی کا تنقیدی جائزہ پیش کرتی ہے۔ ڈی این پنیگراہی کی Jammu and Kashmir: The Cold War and The West بین الاقوامی سیاسی تناظر میں مسئلہ کشمیر پر تحقیق کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آپ پڑھنے والے بنیں کتابیں ہم فراہم کریں گے، کراچی میں علم کی شمع جلائے رکھنے کا منفرد انداز

ارون دھتی رائے، پنکج مشرا اور دیگر مصنفین کی مشترکہ کتاب Kashmir: The Case for Freedom کشمیر کی آزادی کا مقدمہ پیش کرتی ہے، جبکہ السٹر لیمب کی Kashmir – A Disputed Legacy مسئلے کی تاریخی جڑوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ حفصہ کنجوال کی دو تحقیقی کتب Kashmir and the Politics of India اور The Making of Modern Kashmir بھارت کی کشمیر پالیسیوں اور ریاستی تشکیل کا گہرا تجزیہ پیش کرتی ہیں۔

آثر بتول کی Kashmir – A Case of Freedom کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے، جب کہ نوینیتا چڈھا بہیرا کی Demystifying Kashmir میں مسئلے سے جڑے مغالطوں کو دور کیا گیا ہے۔ آثر ضیا کی Women, War, and the Making of Kashmir میں کشمیری خواتین کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے، اور رادھیکا گپتا کی Memories of Loss and Dreams of the Nation کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔

سمار قاضی کی Violent Resistance وادی میں عسکریت اور فوجی اثرات کا مطالعہ کرتی ہے، جبکہ انگنا چیٹرجی کی Human Rights Violations in Kashmir انسانی حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل میں پیش کرتی ہے۔ محمد یوسف سراف کی Jammu and Kashmir: A Political History ریاست کی سیاسی تاریخ کا جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔

عائشہ جلال کی Lines of Occupation میں سرحدوں اور تقسیم کے اثرات پر بحث کی گئی ہے، جبکہ ڈاکٹر شمشاد احمد کی Kashmir: Scars and Silence وادی کے زخموں اور خاموشی کی علامت ہے۔ آخر میں، ڈاکٹر آفاق کی Truth and Reconciliation in Kashmir میں کشمیر میں سچائی اور مفاہمت کی کوششوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کتابوں کو بین کر کے بھارت نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بیانیہ کی جنگ جیتنے کے لیے سچ اور علم کو دبانے پر آمادہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بھارت پابندی کتابیں مقبوضہ کشمیر نریندر مودی

متعلقہ مضامین

  • آزادی کا جوش: چودھری شجاعت حسین کی قوم کو بڑھ چڑھ کر جشن منانے کی نصیحت
  • جماعت اسلامی پاکستان کا لاہور میں اجتماع عام منعقد کرنے کا اعلان
  • بھارت: کشمیر میں پچیس کتابوں پر پابندی اور دکانوں پر چھاپے
  • بھارت نے کشمیر پر حقائق چھپانے کے لیے 25 کتابوں پر پابندی لگادی
  • وزیراعظم شہباز شریف 31 اگست کو چین روانہ ہوں گے، بیجنگ میں اہم سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہوگی
  • قطر فرار کی کوشش ناکام، اشتہاری ملزم کراچی ایئرپورٹ پر دھر لیا گیا
  • تنازع جموں و کشمیر کا منصفانہ حل
  • ٰاے پی این ایس-پی اے اے مشترکہ کمیٹی کا پہلا اجلاس اے پی این ایس ہاؤس کراچی میں منعقدٰ
  • ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور حبس رہنے کا امکان
  • گلوکارہ آئمہ بیگ نے خاموشی سے نکاح کر لیا، تقریب کینیڈا میں منعقد ہوئی