چین-جنوبی ایشیا ایکسپو میں مہندی کے خوبصورت نقوش نے شرکا ٔ کے دل جیت لیے WhatsAppFacebookTwitter 0 24 June, 2025 سب نیوز

کونمنگ (شِنہوا) چین کے جنوب مغربی صوبےیون نان کے دارالحکومت کونمنگ میں موسم گرما کے دوران کونمنگ دیان چھی بین الاقوامی کنونشن و نمائش مرکز میں لوگوں کا ہجوم امڈآیا۔چائنہ-جنوبی ایشیا ایکسپو کے جاری نویں ایڈیشن میں مہندی کے تجربے نے روایتی اور نفیس ہاتھوں کی نقش و نگاری کا فن پیش کیا،اس نے پاکستان کے نیشنل پویلین کے ایک حصے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کیا۔اس مہندی کو ٹیٹو مہندی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ ایک روایتی جسمانی فن ہے جو بھارت، پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں بے حد مقبول ہے۔

یہ خوش بختی، خوشی اور نیک شگون کی علامت سمجھی جاتی ہے، خاص طور پر شادیوں جیسی بڑی تقاریب میں اس کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے جہاں دلہنیں اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر نفیس نقش و نگار سجا کر خوشحال زندگی کی امیدوں کا اظہار کرتی ہیں۔پاکستان نیشنل پویلین کے ایک مخصوص حصے میں ایک مہندی آرٹسٹ نے بڑی نفاست سے کھلتے ہوئے کنول کا پھول مہمان کے بازو پر نقش کیا۔آرٹسٹ نے نرم لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ثقافت میں کنول کا پھول صفائی اور روحانیت کی علامت ہے اور خوشگوار زندگی کی امیدوں کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔قریب ہی شہری اور سیاح دلچسپی سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، کچھ خود پیچدار بیلیں بنانے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ دیگر نے آرٹسٹ کی رہنمائی میں اپنے جسم پر خوبصورت مور یا خوش قسمتی کی علامت ہاتھی کے نقوش بنوائے۔جب یہ مہندی کے پودے سے تیار کیے جا نے والا قدرتی مہندی کا پیسٹ کو نمنگ کے شہر یوں کے ہا تھوں پر سجے گا تو اس کا اثر سات سے پندرہ دن تک بر قرار رہے گا۔پاکستانی پویلین کے منتظمین اقبال احمد ڈار اور ان کی بیوی لی ویروئی مصروف ماحول میں گھومتے ہوئے پاکستانی مصنوعات کی فروخت اور اس کے حوالے سے دیگر خصو صیات بیان کر رہے تھے،

نمائش میں برسوں کی شرکت کے تجربے کے ساتھ اقبال نے مہندی کے تجربے کے حوالے سے اپنے وژن کا بھی اظہار کیا۔ڈار نے کہا کہ مہندی کا فن بھارت، بنگلہ دیش، اور پاکستان میں ایک ثقافتی علامت ہے جو ہمارے تہواروں اور شادیوں کی خوشیوں اور خوش بختی کو ساتھ لے کر چلتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سیاح نہ صرف ہماری خاص اشیاء خریدیں بلکہ پاکستانی روایات کو بھی محسوس کریں۔ لی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ایک پاکستانی-چینی ٹیم کی حیثیت سے ہم اپنی قوموں کے درمیان ایک چھوٹا سا ثقافتی پل تعمیر کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

مہندی کے فن کی گہری علامتوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کھلتے ہوئے پھول زرخیزی اور خوشحالی کی علامت ہیں، مور خوبصورتی اور عمدگی کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ خوش قسمت ہاتھی خاندانی خوشحالی کو ظاہر کرتا ہے ۔اب جب کہ مہندی کا یہ فن سرحدیں عبور کر کے چین تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے جدید عناصر کو بھی اپنایا ہے اور یہ فیشن ایبل خود اظہار کی ایک منفرد شکل اختیار کر چکا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجنگ بندی سے پہلے ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ، 4 اسرائیلی ہلاک، متعدد زخمی عالمی منڈی میں ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت میں 10سے 12فیصد اضافہ ہو گیا حکومت کا نئے بجٹ میں 36ارب روپے کے نئے اضافی ٹیکس عائد کرنیکا فیصلہ یونان کافی کی شاندار تبدیلی: انسٹنٹ کافی سے عالمی طاقت تک چینی وزیراعظم 16ویں سمر ڈیووس فورم میں شریک ہوں گے، وزارت خارجہ رافیل بمقابلہ جے 10 سی عالمی دفاعی صنعت میں تبدیلی کا اشارہ بن گیا شنگھائی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی مناسبت سے ثقافتی مصنوعات کی مقبولیت میں زبردست اضافہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مہندی کے

پڑھیں:

زہران ممدانی، ٹرمپ کا ڈراؤنا خواب اور امریکی نظام کے اختتام کی علامت

اسلام ٹائمز: شیعہ شناخت اور شہری مزاحمت سے دینی ربط اس طرح سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممدانی نے عاشورا کی مجالس میں شرکت اور امام حسینؑ کی تعلیمات پر زور دے کر ایثار، انصاف اور مزاحمت کے مفاہیم کو امریکی شہری سیاست کے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے اسلاموفوبیا کی مذمت کی اور نیویارک میں مختلف مذاہب و اقوام کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی اپیل کی۔ تحریر: آیت اللہ عباس کعبی   امریکہ میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے دوران 34 سالہ شیعہ مسلمان زہران ممدانی کی نیویارک کے میئر کے طور پر کامیابی، مغربی لبرل نظام میں گہرے شگاف اور امریکی سیاست میں ایک نئے بیانیے کے حامل دور کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ کامیابی ٹرمپ ازم کی علامتی شکست اور مزاحمت، انصاف پسندی اور پُرامن بقائے باہمی کے بیانیے کی کامیابی ہے۔   1۔ ٹرمپ ازم کا خاتمہ اور سماجی انصاف کی واپسی:
ممدانی نے نسل پرستانہ پالیسیوں، انتہاء پسند سرمایہ داری اور ساختاری بدعنوانی پر کھلی تنقید کرکے ثابت کیا کہ ٹرمپ کا بیانیہ اب امریکی شہری معاشرے کی ضروریات پوری کرنیکی پوزیشن میں نہیں۔ ان کا نعرہ "سب کے لیے نیویارک" اور وسائل کی منصفانہ تقسیم، ٹیکس نظام کی اصلاح اور نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوشش پر مبنی پالیسی نے انہیں نئی نسل کے انصاف طلب رہنماء کے طور پر نمایاں کیا ہے۔
  2۔ صہیونی جرائم اور امریکی جنگ پسندی کے مقابل واضح مؤقف:
ممدانی نے بیشتر امریکی سیاست دانوں کے برخلاف، فلسطینی عوام کے حقوق کا کھل کر دفاع کیا اور واشنگٹن کی اسرائیل کو غیر مشروط حمایت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک (BDS) کے حامی ہیں اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کی سخت مذمت کرچکے ہیں۔ اسی طرح، انہوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملے کو امریکی آئین کے خلاف قرار دے کر اس کی مذمت کی۔
  3۔ شیعہ شناخت اور شہری مزاحمت سے دینی ربط:
ممدانی نے عاشورا کی مجالس میں شرکت اور امام حسینؑ کی تعلیمات پر زور دے کر ایثار، انصاف اور مزاحمت کے مفاہیم کو امریکی شہری سیاست کے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے اسلاموفوبیا کی مذمت کی اور نیویارک میں مختلف مذاہب و اقوام کے درمیان پرامن بقائے باہمی کی اپیل کی۔
  4۔ وسیع عوامی شرکت اور سماجی احتجاج:
نیویارک کے بلدیاتی انتخابات میں 16 لاکھ سے زائد افراد کی شرکت گذشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔ ممدانی کو دیا گیا ووٹ عوام کی معاشی بحران، سماجی نابرابری اور امتیازی پالیسیوں کے خلاف کھلی بغاوت تھا۔
  5۔ نسلی و فکری تبدیلی، سرمایہ داری کے دیو کو مسخر کرنا:
ممدانی پچھلی ایک صدی میں نیویارک کے سب سے کم عمر میئر ہیں۔ وہ ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اب سرمایہ و طاقت کے جبری ڈھانچوں میں جینا قبول نہیں کرتی۔ ان کی کامیابی اس نئی نسل کے عروج کی نشانی ہے، جو انصاف، مساوات اور سرمایہ داری و نسل پرستی کے مخالف بیانیے کے ذریعے امریکی سیاست کی ازسرنو تعریف کر رہی ہے۔
  6۔ محورِ مقاومت کیلئے تزویراتی مواقع: 
ممدانی کی کامیابی دنیا بھر کے مسلمانوں، نوجوانوں اور اقلیتوں کے لیے ایک حوصلہ افزا نمونہ ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سچائی، جرات اور اصول پسندی کے ساتھ امریکہ کے قلب میں بھی مظلوموں کی آواز بلند کی جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ عالمی سیاست میں مسلمانوں کے کردار کی نئی تعریف اور امریکی تسلط کے مقابل مزاحمتی بیانیے کی تقویت کا موقع فراہم کرتا ہے۔
  7۔ مذہبی شناخت، انصاف، مزاحمت اور لبرل نظام:
زہران ممدانی، امریکی نظام اور ٹرمپ ازم کی شکست کی علامت ہیں۔ انہوں نے دینی شناخت، سماجی انصاف اور ثقافتی مزاحمت کو یکجا کرکے امریکی شہری نظم و نسق اور قومی سیاست میں ایک نیا فکری و عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف ٹرمپ کا ڈراؤنا خواب ہے، بلکہ امریکی اقتدار کے زوال اور عالمی سطح پر اس کی تنہائی کی علامت بھی ہے۔
  8۔ امریکہ کی تنہائی:
رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایران کو تنہاء کریں گے، مگر خود تنہا ہوگئے، آج امریکہ خطے کی قوموں کی نگاہ میں سب سے نفرت انگیز حکومت ہے۔ (رہبر انقلاب، ۲۳ مهر ۱۳۹۰) 9۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ "وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ" (سورۂ انعام، آیت ۱۲۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت اللہ عباس کعبی، نماینده خوزستان مجلس خبرگان رهبری و عضو هیئت رئیسه مجلس خبرگان رهبری، نایب‌ رئیس جامعه مدرسین حوزه علمیه قم

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی ٹاپ آرڈر پھر ناکام، فخر، بابر اور رضوان 5 اوورز میں ہی پویلین لوٹ گئے
  • نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی سابق پاکستانی کرکٹر رمیز راجہ کے مداح نکلے
  • زہران ممدانی، ٹرمپ کا ڈراؤنا خواب اور امریکی نظام کے اختتام کی علامت
  • دبئی کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنانے کیلیے 18 ارب درہم کا منصوبہ منظور
  • دبئی کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنانے کیلئے 18 ارب درہم کا منصوبہ منظور
  • آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’سپر مون‘‘ کا خوبصورت نظارہ دیکھا جاسکے گا
  • پاکستان نے جنوبی افریقا کو 2 وکٹوں سے شکست دے دی، سلمان آغا اور رضوان کی شاندار بیٹنگ
  • میری ٹائم کانفرنس ایکسپو میں پاکستانی ساختہ ڈرون جیمر’صفرا’ لانچ کردیا گیا
  • میری ٹائم کانفرنس ایکسپو میں پاکستانی ساختہ ڈرون جیمر'صفرا' لانچ کردیا گیا
  • پہلا ون ڈے: جنوبی افریقا کا پاکستان کو 264 رنز کا ہدف