جنگ بندی، مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے بدلتے توازن کی علامت
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نیتن یاہو اب اپنی رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو تباہ کرنے میں ناکام کیوں رہا؟ ایران کا جوہری پروگرام کیوں ختم نہیں کر سکا اور ایران آخری دم تک اپنے مہلک میزائل داغنے کا سلسلہ کیوں جاری رکھ سکا؟ آخر میں ایک حقیقت واضح ہے: اگر امریکہ اور اسرائیل اس جنگ سے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہوتے تو وہ بلاشبہ اسے "حتمی فتح" حاصل کرنے تک جاری رکھتے۔ لیکن اب نہ صرف وہ بلکہ پوری دنیا نے جان لیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ختم نہیں ہو سکتا اور ایران کے میزائل طاقتور اور درست ہیں اور ایران کی قومی میں وحدت بے مثال ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمارے بڑے دشمنوں کو قبول کر لینا چاہیے اور "گریٹ ایران" کے بارے میں اپنے غلط اندازوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ جنگ بندی مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں تبدیلی اور خطے کی جیوپولیٹکس میں نئے باب کے آغاز کی علامت ہے۔ تحریر: سید مہدی نورانی
تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ایران اور اسرائیل کے درمیان معرکوں کی خوفناک آواز کچھ لمحات کے لیے خاموش ہو گئی اور دنیا بھر میں "جنگ بندی" کی سرگوشیاں سنائی دینے لگی ہیں۔ لیکن ان لمحات کے ظاہری سکون سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، یہ نہ تو دیرپا امن ہے اور نہ ہی ہتھیار ڈالنے کی علامت ہے بلکہ خطے کی تاریخ کا ایک حساس مرحلہ ہے جسے احتیاط اور باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس چیز کا مشاہدہ ہم آج کر رہے ہیں وہ کہانی کا اختتام نہیں بلکہ خطے کی پیچیدہ محاذ آرائیوں کا ایک نیا باب ہے۔
جنگ بندی یا امن؟ ایک اہم فرق
آئیے ابتدا سے ہی سرخ لکیریں واضح کر دیتے ہیں۔ جنگ بندی بنیادی طور پر امن سے مختلف ہے۔ جنگ بندی کا مطلب محض لڑائی اور حملوں کی عارضی بندش ہے، ایک وقفہ جو کسی بھی لمحے دوبارہ جنگ کے شعلوں میں بھڑک سکتا ہے۔ یہ وقفہ امن کی علامت ہونے سے زیادہ فریقین کے لیے اپنی طاقت دوبارہ بحال کرنے اور تنظیم نو کا ایک موقع ہے۔ میں یاد دلوانا چاہتا ہوں کہ ان دنوں جب ٹرمپ نے فاتحانہ انداز میں ایران کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے اور اس کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی بات کی تھی، رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے دوٹوک انداز میں کہا تھا: "کسی قسم کا مسلط کردہ امن قبول نہیں کیا جائے گا۔" آج ایران نے نہ صرف ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ خطے میں امریکی اڈوں اور مقبوضہ فلسطین میں فوجی اہداف پر حملے کر کے عملی طور پر مزاحمت اور ہتھیار نہ ڈالنے کا پیغام دنیا کے کانوں تک پہنچا دیا ہے۔
حاصل شدہ اور حاصل نشدہ اہداف
جنگ میں کسی فریق کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگانے کے لیے جنگ کے آغاز میں اس کے بیان کردہ اہداف پر توجہ دینا ضروری ہے۔ حالیہ جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے کھل کر "اسلامی جمہوریہ کے خاتمے" کی بات کی تھی۔ یہ ایسا دعوی ہے جو نہ صرف عملی جامہ پہننے میں ناکام رہا بلکہ اس کا برعکس نتیجہ ظاہر ہوا ہے۔ اس جنگ نے ایران کے اندر حکمفرما نظام کے ساتھ عوام کے اتحاد اور یکجہتی کو مزید مضبوط کیا ہے۔ دوسری طرف، جنگ کے آغاز پر ایران نے جن اہداف پر تاکید کی تھی وہ اپنے قومی وقار اور سلامتی کے دفاع اور جارح کو سزا دینے پر مشتمل تھے۔ واقعات پر منصفانہ نظر ڈال کر بتائیں کہ کون سا فریق اپنے اہداف کے قریب پہنچا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اس کے جوہری اور میزائل پروگرام ختم کرنے کے درپے تھے لیکن نہ صرف یہ اہداف حاصل نہیں ہوئے بلکہ ایران نے ایک اہم قدم بھی اٹھا لیا جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے پر مشتمل ہے۔
ایران کے وننگ کارڈز: جوہری پروگرام اور میزائل طاقت
دشمن کا خیال تھا کہ وہ اپنے حملوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو روک سکتا ہے اور اس کی تنصیبات کو تباہ کر سکتا ہے۔ جی ہاں، شاید معمولی نقصان ہوا ہو گا لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایران کا 400 کلوگرام یورینیم کا ذخیرہ اور افزودگی کے آلات اب بھی محفوظ ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے اختیار میں ہیں۔ یہ ذخیرے اور صلاحیتیں ایک اہم ڈیٹرنس کا کردار ادا کر رہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دشمن کا اندازہ بالکل غلط تھا۔ مزید برآں، اب جبکہ ایران کا جوہری پروگرام (کم از کم عارضی طور پر) بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی براہ راست نظارت سے باہر آ چکا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایرانی قوم کی مطلوبہ ڈیٹرنس کو پوری طرح سے برقرار کرنے کا سنہری موقع میسر ہو گیا ہے۔ دشمن اب مزید اس پروگرام کے بارے میں اہم معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گا اور یہ ایران کے لیے ایک اسٹریٹجک فائدہ تصور کیا جا رہا ہے۔
جنگ سے حاصل ہونے والے سبق اور خطے کا مستقبل
اس جنگ نے ایران کو عسکری اور سیاسی دونوں میدانوں میں قیمتی تجربات فراہم کئے ہیں۔ اس جنگ بندی کے بعد ایران فوری طور پر اپنی طاقت کو دوبارہ بحال کرنے اور ممکنہ کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ جنگ صیہونی رژیم کے ملکی مستقبل کو بھی شدید غیر یقینی صورتحال اور چیلنجز کا شکار کر دے گی۔ نیتن یاہو اب اپنی رائے عامہ کے سامنے جوابدہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو تباہ کرنے میں ناکام کیوں رہا؟ ایران کا جوہری پروگرام کیوں ختم نہیں کر سکا اور ایران آخری دم تک اپنے مہلک میزائل داغنے کا سلسلہ کیوں جاری رکھ سکا؟ آخر میں ایک حقیقت واضح ہے: اگر امریکہ اور اسرائیل اس جنگ سے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہوتے تو وہ بلاشبہ اسے "حتمی فتح" حاصل کرنے تک جاری رکھتے۔ لیکن اب نہ صرف وہ بلکہ پوری دنیا نے جان لیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ختم نہیں ہو سکتا اور ایران کے میزائل طاقتور اور درست ہیں اور ایران کی قومی میں وحدت بے مثال ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمارے بڑے دشمنوں کو قبول کر لینا چاہیے اور "گریٹ ایران" کے بارے میں اپنے غلط اندازوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہ جنگ بندی مسلط کردہ امن نہیں بلکہ طاقت کے توازن میں تبدیلی اور خطے کی جیوپولیٹکس میں نئے باب کے آغاز کی علامت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ جوہری پروگرام کہ ایران کا کے بارے میں ہے کہ ایران نہیں بلکہ اور ایران کی علامت ایران کے ختم نہیں کے آغاز خطے کی جنگ کے کے لیے یہ جنگ اور اس
پڑھیں:
کوئی غیر ملکی طاقت ہمیں غلام نہیں بنا سکتی، بھارتی کسان
کسان نمائندوں نے امریکی دباؤ خصوصاً بھارت کی زرعی اور ڈیری مارکیٹوں تک رسائی کے معاملے پر مودی حکومت کے مضبوط مؤقف کی تعریف کی۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے مختلف حصوں سے کسان رہنما اور کاشتکار دہلی میں جمع ہوئے تاکہ نریندر مودی کا شکریہ ادا کریں، جنہوں نے ان کے بقول بھارتی زراعت کو عالمی تجارتی مذاکرات میں محفوظ رکھنے کے لئے ایک "تاریخی اور بہادرانہ" فیصلہ کیا۔ اس اجلاس میں درجن بھر سے زائد کسان تنظیموں کے رہنما شریک ہوئے۔ کسان نمائندوں نے امریکی دباؤ خصوصاً بھارت کی زرعی اور ڈیری مارکیٹوں تک رسائی کے معاملے پر مودی حکومت کے مضبوط مؤقف کی تعریف کی۔ انڈین فارمر چودھری چرن سنگھ آرگنائزیشن کے قومی صدر دھرمیندر چودھری نے کہا کہ نریندر مودی نے کسانوں، مویشی پالنے والوں اور ماہی گیروں کے مفاد میں ایک غیر متزلزل مؤقف اختیار کیا ہے، یہ وژن کروڑوں لوگوں کے لئے راحت کا باعث ہے اور دیہی بھارت کی خود کفالت کو مضبوط بناتا ہے۔
چھتیس گڑھ کے یوتھ پروگریسیو فارمرز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرتے ہوئے وریندر لوہان نے کثیرالقومی مفادات کے خلاف حکومت کے مؤقف کی تعریف کی اور کہا "امریکی کمپنیوں کو ہماری زراعت اور ڈیری سیکٹر میں داخل نہ ہونے دینے کا بہادرانہ فیصلہ اب ہر کھیت، ہر گاؤں اور ہر گوٹھ میں گونج رہا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی کسان اس قوم کی روح ہے اور کوئی غیر ملکی طاقت کبھی بھی اس روح پر قابو نہیں پا سکتی۔ اپنے خطاب میں یونین کے وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان نے کہا کہ حکومت جعلی کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات کے خلاف سخت قانون لائے گی۔ انہوں نے کسانوں کی فلاح و بہبود اور دیہی ترقی سے متعلق مودی کے عزم کو دہرایا۔ چوہان نے مودی کے قومی مفاد پر مبنی مؤقف کی تعریف کرتے ہوئے پہلگام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کے فیصلے کو فیصلہ کن قیادت کی ایک اور مثال قرار دیا۔