Express News:
2025-06-25@03:23:08 GMT

ایران اسرائیل اور امریکا سیز فائر

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ سیز فائر سے پہلے ایران نے قطرا ور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ ان کے سیز فائر کا اعلان کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے اپنے سیز فائر کے اعلان میں کہا ہے کہ میں ایران کا شکر گزار ہوں کہ اس نے قطر اور عراق میں ہمارے اڈوں پر میزائل پھینکنے سے پہلے ہمیں بتایا، اسی لیے ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہمارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ۔ اب ایران کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب امن کا وقت ہے اور سیز فائر کا وقت ہے۔

ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کو امریکا نے فرینڈلی حملوں کے طو رپر لیا ہے۔ امریکا نے ان کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو یہ بات صاف ہے کہ امریکا سیز فائر کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایران نے کہا کہ جب تک وہ کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کریں گے، وہ سیز فائر نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھیں قطر کی بیس پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایران نے امریکا کی اجازت سے امریکی بیس پر حملہ کیا۔ جس کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ ایران نے قطر پر میزائل پھینکے۔ قطر نے ہی سیز فائرمیں کردار ادا کیا ہے۔ قطر ہی ثالث تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ ثالث نے ہی خود پیش کیا کہ اچھا جنگ بند کرنی ہے تو مجھے ما رلیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔

قطر پر میزائل مارنے کے بعد تمام عرب ممالک نے اس حملے کی مذمت تو کی لیکن سب نے تحمل سے کام لینے اور سفارت کاری سے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ کسی نے ایران سے بدلہ لینے کی بات نہیں کی۔ سعودی عرب نے بھی مذمت کی لیکن صبر اور تحمل کی بات۔ متحدہ عرب امارات نے بھی ایسی ہی بات کی۔ صرف عراق نے ایرانی سفیر کو نکال دیا۔ باقی کسی ملک نے ایران سے کوئی باقاعدہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ بلکہ سب نے جنگ بندی کی بات کی۔ اس لیے یہ لگتا ہے کہ عرب ممالک کو بھی ان میزائل حملوں کو علم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس کے بعد سیز فائر ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔

ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایران کے حملوں کے بعدعالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کے بجائے سستا ہوا۔ میں سیز فائر سے پہلے بات کر رہا ہوں۔ سیز فائر کے بعد تو سستا ہوا۔ لیکن ایران کی جانب سے قطر اور عراق پر میزائل پھینکے جانے کے بعد تیل سستا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ورنہ ایران سرائیل جنگ اور امریکی حملوں کے بعد تیل مہنگا ہو رہا تھا۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تیل کی عالمی منڈی کو بھی اندازہ تھا کہ ایران کے میزائل حملوں کے بعد جنگ بڑھے گی نہیں بلکہ ختم ہو جائے گی۔ ایران سیز فائر کے تیار ہے۔ بس یہ ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ امریکا نے ایران کو فیس سیونگ دی ہے۔

ہر جنگ کے کچھ اہداف ہوتے ہیں۔ اگر تو اسرائیل اورامریکا کا ہدف ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنا تھا۔ تو بقول امریکا کے وہ ہدف حاصل ہو گیا ہے۔ امریکی صدر کا ایک بہت سخت پیغام میرے سامنے ہے۔ جس میں وہ ان امریکی صحافیوں کو بر ا بھلا کہہ رہے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طو ر پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ وہ نام لے لے کر ان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اور ایسی تمام خبروں کو فیک نیوز کہہ رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کا یہی موقف ہے کہ اس نے ایران کی تمام نیوکلئیر سائٹس تباہ کر دی ہیں۔ اب ایران کے پاس کوئی نیوکلیئر صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے جب خود امریکا اور اسرائیل یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا ہد ف حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہد ف حاصل کرنے کے بعد جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا۔

 یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جانبدار تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں میں ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل تباہ نہیں ہوا۔ ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ جیسے ایران نے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے سے پہلے قطر اور امریکا دونوں کو بتایا۔ ایسے ہی امریکا نے بھی ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر حملہ کرنے سے پہلے ایران کو بتایا تھا۔ اسی لیے ایران نے وہاں سے افزودہ یورینیم نکال لیا تھا۔ اہم مشینیں بھی نکال لی تھیں۔

کچھ سٹیلائٹ تصاویر اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اس لیے یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فریق جنگ بھی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔ حملے بھی بتا کر کیے جا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان رابطے اور بات چیت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ایران اور امریکا بات چیت جاری رہی ہے۔ براہ راست بات چیت کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں۔ اس لیے امریکا اور ایران کے درمیان رابطوں کے ساتھ یہ جنگ لڑی گئی ہے۔

ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ای کے مطابق ایران کے پاس چار سو کلو Enriched یورینیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ کیا ایران نے اس کو مریکی حملوں سے پہلے محفوظ کر لیا تھا؟ اور وہ اب بھی ایران کے پاس محفوظ ہے۔ اسی لیے یہ سب کہہ رہے ہیں کہ اگر پہلے ایران ایٹم بم پانچ ماہ میں بنا سکتا تھا تو اب اس کو کئی سال لگیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ صلاحیت مکمل ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران دوبارہ اس پر کام شروع کرے گا نہیں۔

جہاں تک آبنا ئے ہر مز کو بند کرنے کی بات تھی۔ ایران نے وہ کبھی بند نہیں کرنا تھا۔ اس کا نقصان امریکا کے بجائے چین کو تھا۔ اور ایران چین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ جنگ کے بعد اب ایران اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں دیکھنا ہوگا۔ اس جنگ میں بھارت مکمل طو رپر اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب بھارت اور ایران کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں ہوگی۔ جو پہلے تھی۔ اس جنگ میں بھارت نے ایران کو کھو دیا ہے۔ شاید بھارت کا خیال تھا کہ رجیم چینج ہو جائے گا لیکن وہ نہیں ہوا۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی ایران میں رجیم چینج ممکن نہیں ہے۔ وہاں گراؤنڈ تیار نہیں ہے۔ خامنہ ای کی گرفت کمزور نظر آئی ہے۔ وہ منظر سے غائب بھی ہوئے۔ لیکن ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ ایرانی نظام میں ابھی رجیم چینج ممکن نظر نہیں آیا ہے۔ اس لیے امریکا اور اسرائیل نے رجیم چینج کے آپشن کو ختم کر دیا۔ حالانکہ ایسے اشارے دیے گئے تھے۔ لیکن پھر ممکن نہیںتھا۔

کون جیتا؟ کون ہارا؟ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن اس سیز فائر کا اعلان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی کیا ہے۔ کیا ہم یہ جنگ بند کرنے کا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو دیں گے۔ اگر امریکا وہ بمباری نہ کرتا تو اسرائیل اور ایران کافی دیر تک بھی لڑ سکتے تھے۔ امریکا صدر کے مطابق اس بمباری نے جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد جنگ بندی کا جواز بن گیا۔ جس کو ایران نے بھی تسلیم کر لیا۔ اس لیے ٹرمپ پھر سیز فائر کا اور جنگ رکوانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ایران کے درمیان رہے ہیں کہ ا اسرائیل اور سیز فائر کا امریکا اور رجیم چینج امریکا نے نے ایران حملوں کے ایران کا نہیں ہوا ایران نے نہیں ہے سے پہلے اڈوں پر پر حملہ کا اور تھا کہ کی بات اس لیے کے بعد نے بھی

پڑھیں:

ایران کی جنگی حکمت عملی

امریکا نے ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کے بعد ایران نے اسرائیل پر بلاسٹک میزائیل چلائے ہیں۔امریکا کی بمباری کے بعد امریکا کا موقف ہے کہ اس نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے اسے مزید ایران پر حملوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ایران پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے اور جواب میں ایران بھی اسرائیل پر میزائل حملے کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی کے حملوں کے بعد بھی سیز فائر کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر امریکی حملے کامیاب رہے ہیں اور ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ ہوگیا ہے تو جنگ بند کیوں نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہی بتایا گیا تھا کہ جنگ ایران کے نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے کے لیے شروع ہوئی تھی۔

ایران نے امریکی بمباری کے بعد کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خطہ میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ لیکن ایران نے امریکی اڈو ں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ایران نے جواب میں اسرائیل پر ہی میزائیل چلائے ہیں۔ حالانکہ ایران نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر امریکا حملہ کرے گا تو امریکی اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ اس کی براہ راست امریکا سے جنگ نہ ہو۔ اسی لیے پہلے ایران کا موقف تھا کہ اگر اسرائیل نے بھی حملہ کیا تو امریکا کو جواب دیا جائے گا۔ لیکن جواب اسرائیل تک ہی محدود رہا۔ اب بھی امریکی بمباری کے جواب میں بھی امریکا کو ابھی تک جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ایران کی جانب سے امریکا کو جواب نہ دینا ان کی ایک جنگی حکمت عملی نظر آرہی ہے۔امریکا نے بھی احتیاط کی ہے، اس کے بی ٹو بمبار خطے میں موجود کسی امریکی اڈے یا کسی مسلم ملک میں موجود امریکی اڈے سے نہیں اڑے۔ اس لیے خطے میں امریکی اڈے استعمال نہیں کیے گئے۔ شاید اسی لیے ایران نے خطہ میں موجود کسی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا۔ جب وہ استعمال نہیں ہوئے تو انھیں نشانہ نہیں بنایا گیا۔

ایک رائے کہ خطے میں موجود مسلمان ممالک نے امریکا کو کہا ہے کہ ان کے ممالک میں موجود اڈے نہ استعمال کیے جائیں۔ بھارت کی ائیر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ پاکستان دشمنوں نے بہت پراپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستان کی ایئر سپیس استعمال ہوئی ہے۔ لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ویسے تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پراپیگنڈہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو اڈے دے دیے ہیں۔ وہ بھی جھوٹ تھا۔ امریکا کو ایران سے لڑنے کے لیے کسی نئے اڈے کی ضرورت نہیں۔ اس کے پاس بہت اڈے پہلے ہی موجود ہیں۔ لیکن اس نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت وہ بھی استعمال نہیں کیے ہیں۔

امریکی بمباری کے بعد دنیا میں کوئی خاص طوفان نہیں آیا۔ پاکستان نے امریکی حملے کی مذمت کی ہے۔ بھارت نے نہیں کی ہے۔ کئی اسلامی ممالک نے بھی امریکی حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عرب ممالک نے لفظ افسوس کا استعمال کیا ہے۔

یہ کہا گیا ہے کہ ان حملوں پر افسوس ہے۔ کچھ ممالک نے افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا بلکہ انھوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے پر زور دینے کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سوا کسی نے امریکی حملوں کی حمایت نہیں کی۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ کچھ ممالک نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ لیکن حمایت پھر بھی نہیں کی۔

برطانیہ نے یہ کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ شامل نہیں۔ لیکن برطانیہ نے بھی حملوں کی نہ تو مذمت کی ہے اور نہ ہی حمایت کی ہے۔ البتہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یورپ ایران کے ساتھ کھڑا نظر آرہا ہے لیکن یورپ کمزور بھی نظر آرہا ہے۔ یورپ میں امریکا کی کھل کر مخالفت کرنے کی ہمت نظر نہیں آرہی۔ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتا۔ اس لیے سفارتکاری کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی کمزوری کافی عیاں ہے۔ فرانس کے صدر اور جر منی کے چانسلر کا موقف جنگ کے خلاف ہے۔ لیکن وہ جنگ روکنے کے لیے کچھ کر نہیں سکتے۔

او آئی سی کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن امریکا نے ایران پر حملہ او آئی سی کے اجلاس سے ایک دن بعد کیا۔ اس لیے امریکا کے خلاف کوئی قرارداد نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہ معاملہ او آئی سی کے اگلے اجلاس میں آئے گا۔ او آئی سی بھی ایک کمزور ادارے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ویسے تو غزہ کے معاملہ میں بھی او آئی سی نے بہت مایوس کیا تھا اور ایران کے معاملہ پر بھی اس نے مایوس کیا ہے۔

جن ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات نہ تو ختم کرنے اور نہ ہی خراب کرنے کے لیے تیار ہیں، جن اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کوئی بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کا کوئی اجتماعی موقف نہیں ہے۔ صرف اپنے موقف کے دلیل میں یہی لکھنا چاہتا ہوں کہ ہم ترکی کو اب اسلامی دنیا کا ابھرتا ہوا لیڈر سمجھتے ہیں۔ لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ نہ تو غزہ اور نہ ہی ایران کے لیے ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور تجارت بند کرنے کے لیے تیارہے۔ باقی کی صورتحال بھی یہی ہے۔

امریکی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات ہے کہ آبنائے ہرمز بند کرنے کا ایران کا فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ ایران کی لڑائی امریکا اور اسرائیل سے ہے۔ اس سے امریکا اور اسرائیل کو کیا نقصان ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چین کو ہوگا۔ چین تیل و گیس کی درآمد کے لیے آبنائے ہر مز استعمال کرتا ہے۔

اس لیے ایران کو چین کو نقصان پہنچانے کا کیا فائدہ ہوگا۔ ایران کے اعلان کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے چین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران سے بات کرے۔کیا چین اپنے مفاد کے لیے ایران کے خلاف جنگ میں آجائے گا۔ ایران کو ایسی صورتحال نہیں بنانی چاہیے۔

ایران کو مزید ممالک کو جنگ میں اپنے خلاف اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ جو ممالک آبنائے ہرمز کے بند ہونے سے متاثر ہونگے کیا وہ اسے کھلانے کے لیے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ایک سوال ہے۔ایران کو دوست بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پہلے ہی بہت کم ملک ہیں۔ لیکن جو ملک نیوٹرل ہیں انھیں بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرنا ایران کی کوئی اچھی پالیسی نہیں ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اسرائیل جنگ بندی: ٹرمپ سیز فائر کی خلاف ورزی کرنے پر نیتن یاہو سے ناخوش
  • اسرائیل کا ایران پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام، جوابی کارروائی کا حکم
  • اسرائیل کا ایران پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام، جوابی کارروائی کا حکم دیدیا، اسرائیل وزیردفاع
  • اسرائیل کا ایران پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام، جوابی کارروائی کا حکم دیدیا، اسرائیلی وزیردفاع
  • ایران اسرائیل ’سیز فائر‘ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بلندیوں پر پہنچا دیا 
  • ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر متفق، سیز فائر پر عملدرآمد شروع
  • ایران کی جنگی حکمت عملی
  • ایران اسرائیل جنگ پھیلنے کا خدشہ
  • ایران کی طرف سے اسرائیل پر درجنوں بیلسٹک میزائلوں فائر ، پاور پلانٹ تباہ، بجلی  فراہمی متاثر