Express News:
2025-08-09@06:39:56 GMT

ایران اسرائیل اور امریکا سیز فائر

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ سیز فائر سے پہلے ایران نے قطرا ور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ ان کے سیز فائر کا اعلان کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے اپنے سیز فائر کے اعلان میں کہا ہے کہ میں ایران کا شکر گزار ہوں کہ اس نے قطر اور عراق میں ہمارے اڈوں پر میزائل پھینکنے سے پہلے ہمیں بتایا، اسی لیے ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہمارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ۔ اب ایران کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب امن کا وقت ہے اور سیز فائر کا وقت ہے۔

ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کو امریکا نے فرینڈلی حملوں کے طو رپر لیا ہے۔ امریکا نے ان کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو یہ بات صاف ہے کہ امریکا سیز فائر کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایران نے کہا کہ جب تک وہ کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کریں گے، وہ سیز فائر نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھیں قطر کی بیس پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایران نے امریکا کی اجازت سے امریکی بیس پر حملہ کیا۔ جس کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ ایران نے قطر پر میزائل پھینکے۔ قطر نے ہی سیز فائرمیں کردار ادا کیا ہے۔ قطر ہی ثالث تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ ثالث نے ہی خود پیش کیا کہ اچھا جنگ بند کرنی ہے تو مجھے ما رلیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔

قطر پر میزائل مارنے کے بعد تمام عرب ممالک نے اس حملے کی مذمت تو کی لیکن سب نے تحمل سے کام لینے اور سفارت کاری سے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ کسی نے ایران سے بدلہ لینے کی بات نہیں کی۔ سعودی عرب نے بھی مذمت کی لیکن صبر اور تحمل کی بات۔ متحدہ عرب امارات نے بھی ایسی ہی بات کی۔ صرف عراق نے ایرانی سفیر کو نکال دیا۔ باقی کسی ملک نے ایران سے کوئی باقاعدہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ بلکہ سب نے جنگ بندی کی بات کی۔ اس لیے یہ لگتا ہے کہ عرب ممالک کو بھی ان میزائل حملوں کو علم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس کے بعد سیز فائر ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔

ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایران کے حملوں کے بعدعالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کے بجائے سستا ہوا۔ میں سیز فائر سے پہلے بات کر رہا ہوں۔ سیز فائر کے بعد تو سستا ہوا۔ لیکن ایران کی جانب سے قطر اور عراق پر میزائل پھینکے جانے کے بعد تیل سستا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ورنہ ایران سرائیل جنگ اور امریکی حملوں کے بعد تیل مہنگا ہو رہا تھا۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تیل کی عالمی منڈی کو بھی اندازہ تھا کہ ایران کے میزائل حملوں کے بعد جنگ بڑھے گی نہیں بلکہ ختم ہو جائے گی۔ ایران سیز فائر کے تیار ہے۔ بس یہ ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ امریکا نے ایران کو فیس سیونگ دی ہے۔

ہر جنگ کے کچھ اہداف ہوتے ہیں۔ اگر تو اسرائیل اورامریکا کا ہدف ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنا تھا۔ تو بقول امریکا کے وہ ہدف حاصل ہو گیا ہے۔ امریکی صدر کا ایک بہت سخت پیغام میرے سامنے ہے۔ جس میں وہ ان امریکی صحافیوں کو بر ا بھلا کہہ رہے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طو ر پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ وہ نام لے لے کر ان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اور ایسی تمام خبروں کو فیک نیوز کہہ رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کا یہی موقف ہے کہ اس نے ایران کی تمام نیوکلئیر سائٹس تباہ کر دی ہیں۔ اب ایران کے پاس کوئی نیوکلیئر صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے جب خود امریکا اور اسرائیل یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا ہد ف حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہد ف حاصل کرنے کے بعد جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا۔

 یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جانبدار تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں میں ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل تباہ نہیں ہوا۔ ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ جیسے ایران نے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے سے پہلے قطر اور امریکا دونوں کو بتایا۔ ایسے ہی امریکا نے بھی ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر حملہ کرنے سے پہلے ایران کو بتایا تھا۔ اسی لیے ایران نے وہاں سے افزودہ یورینیم نکال لیا تھا۔ اہم مشینیں بھی نکال لی تھیں۔

کچھ سٹیلائٹ تصاویر اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اس لیے یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فریق جنگ بھی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔ حملے بھی بتا کر کیے جا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان رابطے اور بات چیت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ایران اور امریکا بات چیت جاری رہی ہے۔ براہ راست بات چیت کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں۔ اس لیے امریکا اور ایران کے درمیان رابطوں کے ساتھ یہ جنگ لڑی گئی ہے۔

ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ای کے مطابق ایران کے پاس چار سو کلو Enriched یورینیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ کیا ایران نے اس کو مریکی حملوں سے پہلے محفوظ کر لیا تھا؟ اور وہ اب بھی ایران کے پاس محفوظ ہے۔ اسی لیے یہ سب کہہ رہے ہیں کہ اگر پہلے ایران ایٹم بم پانچ ماہ میں بنا سکتا تھا تو اب اس کو کئی سال لگیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ صلاحیت مکمل ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران دوبارہ اس پر کام شروع کرے گا نہیں۔

جہاں تک آبنا ئے ہر مز کو بند کرنے کی بات تھی۔ ایران نے وہ کبھی بند نہیں کرنا تھا۔ اس کا نقصان امریکا کے بجائے چین کو تھا۔ اور ایران چین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ جنگ کے بعد اب ایران اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں دیکھنا ہوگا۔ اس جنگ میں بھارت مکمل طو رپر اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب بھارت اور ایران کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں ہوگی۔ جو پہلے تھی۔ اس جنگ میں بھارت نے ایران کو کھو دیا ہے۔ شاید بھارت کا خیال تھا کہ رجیم چینج ہو جائے گا لیکن وہ نہیں ہوا۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی ایران میں رجیم چینج ممکن نہیں ہے۔ وہاں گراؤنڈ تیار نہیں ہے۔ خامنہ ای کی گرفت کمزور نظر آئی ہے۔ وہ منظر سے غائب بھی ہوئے۔ لیکن ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ ایرانی نظام میں ابھی رجیم چینج ممکن نظر نہیں آیا ہے۔ اس لیے امریکا اور اسرائیل نے رجیم چینج کے آپشن کو ختم کر دیا۔ حالانکہ ایسے اشارے دیے گئے تھے۔ لیکن پھر ممکن نہیںتھا۔

کون جیتا؟ کون ہارا؟ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن اس سیز فائر کا اعلان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی کیا ہے۔ کیا ہم یہ جنگ بند کرنے کا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو دیں گے۔ اگر امریکا وہ بمباری نہ کرتا تو اسرائیل اور ایران کافی دیر تک بھی لڑ سکتے تھے۔ امریکا صدر کے مطابق اس بمباری نے جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد جنگ بندی کا جواز بن گیا۔ جس کو ایران نے بھی تسلیم کر لیا۔ اس لیے ٹرمپ پھر سیز فائر کا اور جنگ رکوانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور ایران کے درمیان رہے ہیں کہ ا اسرائیل اور سیز فائر کا امریکا اور رجیم چینج امریکا نے نے ایران حملوں کے ایران کا نہیں ہوا ایران نے نہیں ہے سے پہلے اڈوں پر پر حملہ کا اور تھا کہ کی بات اس لیے کے بعد نے بھی

پڑھیں:

غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر کے اتھارٹی تھرڈ پارٹی کے حوالے کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کے چلڈرن فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں بھوک کی پالیسی سے بارہ ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکا حالیہ بیان کہ اسرائیل غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرے گا اور پھر اس پرکنٹرول کسی تیسرے فریق کے حوالے کیا جائے گا، محض ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ ایک ایسے گہرے منصوبے کی جھلک ہے جس کا مقصد نہ صرف فلسطینی سرزمین پر مستقل قبضہ کرنا ہے بلکہ فلسطینی عوام کو ان کی شناخت، خود مختاری اور آزادی سے مکمل طور پر محروم کر دینا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی انسانی بحران کی بد ترین شکل اختیارکرچکا ہے۔

لاکھوں فلسطینی بے گھر، بھوکے، پیاسے اور بمباری کے خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں، بچے ماں باپ سے محروم ہو رہے ہیں، اور ایک پورا معاشرہ ملبے کے ڈھیر میں دفن ہو چکا ہے۔ایسے میں اسرائیل کی جانب سے ’’ غزہ پر مکمل قبضے‘‘ کا عندیہ دینا دراصل عالمی برادری کو کھلا چیلنج دینا ہے۔ نیتن یاہو کی اس سوچ کے پیچھے وہی پرانا استعماری ذہن کارفرما ہے جو طاقت کے زور پر قوموں کو دبانے کا عادی ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ ’’ تیسرا فریق‘‘ کون ہے جسے غزہ کا کنٹرول دیا جائے گا؟ کیا یہ امریکا ہوگا؟ یا کوئی علاقائی طاقت؟ یا کوئی بین الاقوامی تنظیم جسے محض دکھاوے کے لیے لایا جائے گا تاکہ اسرائیل کی غیر قانونی حکمرانی کو جواز فراہم کیا جا سکے؟ جو بھی فریق ہو، اصل بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر غزہ پرکسی بھی قسم کا کنٹرول ایک اور قبضہ ہو گا،ایک اور ناانصافی ہو گی، اور ایک نیا باب ظلم کا کھولا جائے گا۔

 یہاں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ متنازعہ بات بھی یاد آتی ہے جس میں انھوں نے غزہ کو ایک ’’ تفریحی مقام‘‘ میں تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان سے نہ صرف ان کی فلسطینیوں کے مصائب سے بے حسی ظاہر ہوئی، بلکہ یہ بھی عیاں ہوا کہ ان کی نظر میں غزہ ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک معاشی منصوبہ ہے۔

ایسی سوچ محض سیاسی لاعلمی نہیں بلکہ ظالمانہ استحصالی ذہنیت کی عکاسی ہے، اگر اسرائیل کے زیرِ اثر غزہ کو کسی ایسے ’’ ترقیاتی منصوبے‘‘ میں بدلا گیا جس کا فائدہ صرف قبضہ گیر طاقتوں کو پہنچے، تو یہ ایک نئی طرزکی نوآبادیات ہو گی جس کا مقصد زمین ہتھیانا اور لوگوں کو بے دخل کرنا ہوگا۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مدت میں عالمی سطح پر جو معاشی پالیسیاں اختیارکیں، ان کا واحد مقصد امریکا کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے ۔

چین، بھارت، ترکی اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں پر بے جا ٹیرف لگا کر وہ دنیا کو معاشی غلامی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ عالمی تجارتی نظام میں ان کی یکطرفہ پالیسیاں بے یقینی، عدم اعتماد اور معاشی عدم توازن کا سبب بن رہی ہے۔ ان پالیسیوں کے منفی اثرات دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر نمایاں ہیں۔ ایسے میں اگر ٹرمپ یا ان کی طرز کی قیادت کو غزہ جیسے حساس خطے میں کوئی کردار ملتا ہے، تو یہ امن کی نہیں، بلکہ ایک اور بحران کی بنیاد ہو گی۔

غزہ کی موجودہ صورتحال کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں ہر قسم کا انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے، پینے کا صاف پانی ناپید ہے، اسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان میں ادویات نہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، ریڈ کراس اور بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری انسانی امداد نہ پہنچی تو لاکھوں جانیں خطرے میں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کی بمباری جاری ہے، اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، اس کے سامنے انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ فلسطینی عوام کا مسئلہ صرف زمین یا اقتدار کا نہیں، بلکہ ان کا مقدمہ انسانیت، آزادی اور بقاء کا ہے۔ ان پر جو ظلم ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا کی خاموشی اس جرم میں شریک بن چکی ہے۔ جب پوری دنیا مظلوم کی حمایت سے گریزکرے، ظالم کو اسلحہ دے، اور صرف مذمت پر اکتفا کرے، تو ظلم کو طاقت ملتی ہے اور امن مزید دور ہو جاتا ہے۔

اسرائیل کی پالیسی واضح ہے، طاقت کے بل پر قبضہ اور فلسطینیوں کو مسلسل دیوار سے لگانا۔ اس کے پیچھے نہ صرف عسکری قوت ہے بلکہ معاشی، سفارتی اور میڈیا کا ایک منظم نیٹ ورک بھی ہے۔ مغربی میڈیا عام طور پر اسرائیلی بیانیے کو زیادہ جگہ دیتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کی آواز یا تو دبا دی جاتی ہے یا مشکوک بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں حقائق عوام تک پہنچنے سے رہ جاتے ہیں، اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

اسرائیل اور امریکا کی یہ مشترکہ حکمت عملی اگر اسی طرح چلتی رہی تو مشرق وسطیٰ ایک ایسے دائمی تنازعے کی لپیٹ میں آ جائے گا جس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ پہلے ہی یمن، شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک بدامنی کا شکار ہیں، اگر غزہ میں ظلم کا یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ آگ پورے خطے کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی بے بسی اور مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس المیے کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔

او آئی سی جیسا ادارہ محض اجلاسوں اور بیانات کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران معاشی مفادات یا سفارتی تعلقات کے تحت اس قدر محتاط ہو چکے ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے دو ٹوک موقف اختیارکرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ آخر کب تک دنیا فلسطین پر ہونے والے مظالم کو نظرانداز کرتی رہے گی؟ کب تک عالمی برادری صرف تماشائی بنی رہے گی؟

جو ممالک خود کو جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے علمبردار کہتے ہیں، ان کے لیے غزہ ایک کڑا امتحان ہے۔ اگر وہ واقعی اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو انھیں فلسطینیوں کے حق میں واضح، عملی اور جرات مندانہ موقف اختیار کرنا ہو گا۔ محض امداد یا مذمتی بیانات سے نہ مظلوم کو ریلیف ملتا ہے اور نہ ہی ظالم کے ہاتھ رکتے ہیں۔یہ مسئلہ محض جغرافیہ یا اقتدار کا نہیں بلکہ انسانی وقار، حقِ زندگی اور انصاف کے بین الاقوامی اصولوں کا امتحان ہے۔

فلسطینی بچوں کی معصومیت، فلسطینی ماؤں کے آنسو، اور فلسطینی نوجوانوں کی قربانیاں یہ گواہی دیتی ہیں کہ وہ صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ انسان ہونے کے حق کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ ان کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اگر عزت و وقار سے جینا چاہے تو ظلم و جبر کے آگے سر نہیں جھکاتا۔فلسطینیوں کے لیے یہ محض زمین کا سوال نہیں۔ وہ زمین جس پر ان کے آباؤ اجداد نے صدیوں تک زندگی گزاری، عبادت کی، محنت کی، اور نسلیں پروان چڑھائیں، وہ زمین ان کی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔

لیکن آج انھیں اس زمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی بستیاں مسمار کی جا رہی ہیں، عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور اُن کی تاریخ کو مٹانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ کسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا، تو دنیا کی طاقتور اقوام چیخ اٹھتیں، مگر فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بیشتر عالمی طاقتیں یا تو خاموش ہیں یا خاموش رہنے پر مجبور کی جا چکی ہیں۔انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں سب بے اثر دکھائی دیتی ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔

یہ نہ کسی قوم کی اجارہ داری ہے اور نہ کسی طاقتور ملک کی عنایت۔ فلسطینی قوم نے اپنی آزادی کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جائیں گی۔ انھوں نے گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر، ٹینکوں کے سامنے پتھر لے کر کھڑے ہو کر، اور بچوں کی لاشوں کو دفنا کر بھی ہار نہیں مانی۔ ان کے دل میں آج بھی آزادی کی تڑپ زندہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید وہ خود آزاد نہ ہوں، لیکن ان کی آیندہ نسلیں ایک دن ضرور آزاد فضا میں سانس لیں گی۔ یہی امید انھیں زندہ رکھتی ہے، یہی ایمان انھیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ہمت دیتا ہے۔

دنیا ابھی مکمل طور پر بے ضمیر نہیں ہوئی۔ آج بھی لاکھوں لوگ، خصوصاً نوجوان نسل، سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ وہ تصاویر، وڈیوز اور بیانات جو کبھی دنیا سے چھپائے جاتے تھے، آج سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، لیکن اسے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

صرف جذباتی نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں فلسطینی عوام کی حقیقی مدد کرنی ہوگی، چاہے وہ مالی ہو، تعلیمی ہو، یا سفارتی۔وقت آ گیا ہے کہ دنیا دوغلی پالیسیوں سے باز آ کر کھل کر ظالم اور مظلوم کے بیچ فرق واضح کرے۔ فلسطینیوں کی زمین، ان کی شناخت اور ان کا وجود کوئی تجارتی منصوبہ یا سفارتی سودے بازی کا حصہ نہیں۔ یہ ایک قوم کا بنیادی حق ہے جسے کوئی طاقت چھیننے کی کوشش کرے گی تو وہ خود تاریخ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ پر قبضے کا اسرائیلی خواب
  • روس کیساتھ جنگ میں پاکستانی جنگجوئوں کی مدد کا الزام، پاکستان کا معاملہ یوکرین کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ
  • پاکستان نے یوکرینی صدر کے بیان کو مسترد کردیا
  • ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنیکا مطالبہ
  • بھارت نے پاکستان کیخلاف اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا؛ نیتن یاہو کا بڑا اعتراف
  • ایران کی جوہری صلاحیت ختم کردی، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں؛ ٹرمپ
  • ایران؛ اسرائیل کو شہید جوہری سائنسدان کی ’لوکیشن‘ فراہم کرنے والے کو پھانسی دیدی گئی
  • فلوریڈا، گاڑی کے انجن میں پھنسے بلی کے بچے کو بچا لیا گیا
  • ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں نیوکلئیر سائنسدان سمیت دو افراد کو پھانسی دے دی
  • ائیر ایران کی پہلی پرواز کل کوئٹہ پہنچ جائیگی، علی رضا رجائی