ایران اسرائیل اور امریکا سیز فائر
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ سیز فائر سے پہلے ایران نے قطرا ور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ ان کے سیز فائر کا اعلان کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے اپنے سیز فائر کے اعلان میں کہا ہے کہ میں ایران کا شکر گزار ہوں کہ اس نے قطر اور عراق میں ہمارے اڈوں پر میزائل پھینکنے سے پہلے ہمیں بتایا، اسی لیے ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہمارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ۔ اب ایران کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب امن کا وقت ہے اور سیز فائر کا وقت ہے۔
ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کو امریکا نے فرینڈلی حملوں کے طو رپر لیا ہے۔ امریکا نے ان کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو یہ بات صاف ہے کہ امریکا سیز فائر کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایران نے کہا کہ جب تک وہ کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کریں گے، وہ سیز فائر نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھیں قطر کی بیس پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایران نے امریکا کی اجازت سے امریکی بیس پر حملہ کیا۔ جس کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ ایران نے قطر پر میزائل پھینکے۔ قطر نے ہی سیز فائرمیں کردار ادا کیا ہے۔ قطر ہی ثالث تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ ثالث نے ہی خود پیش کیا کہ اچھا جنگ بند کرنی ہے تو مجھے ما رلیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔
قطر پر میزائل مارنے کے بعد تمام عرب ممالک نے اس حملے کی مذمت تو کی لیکن سب نے تحمل سے کام لینے اور سفارت کاری سے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ کسی نے ایران سے بدلہ لینے کی بات نہیں کی۔ سعودی عرب نے بھی مذمت کی لیکن صبر اور تحمل کی بات۔ متحدہ عرب امارات نے بھی ایسی ہی بات کی۔ صرف عراق نے ایرانی سفیر کو نکال دیا۔ باقی کسی ملک نے ایران سے کوئی باقاعدہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ بلکہ سب نے جنگ بندی کی بات کی۔ اس لیے یہ لگتا ہے کہ عرب ممالک کو بھی ان میزائل حملوں کو علم تھا اور یہ بھی علم تھا کہ اس کے بعد سیز فائر ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔
ایک حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ایران کے حملوں کے بعدعالمی منڈی میں تیل مہنگا ہونے کے بجائے سستا ہوا۔ میں سیز فائر سے پہلے بات کر رہا ہوں۔ سیز فائر کے بعد تو سستا ہوا۔ لیکن ایران کی جانب سے قطر اور عراق پر میزائل پھینکے جانے کے بعد تیل سستا ہونا شروع ہوگیا تھا۔ ورنہ ایران سرائیل جنگ اور امریکی حملوں کے بعد تیل مہنگا ہو رہا تھا۔ اس لیے کہیں نہ کہیں تیل کی عالمی منڈی کو بھی اندازہ تھا کہ ایران کے میزائل حملوں کے بعد جنگ بڑھے گی نہیں بلکہ ختم ہو جائے گی۔ ایران سیز فائر کے تیار ہے۔ بس یہ ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ امریکا نے ایران کو فیس سیونگ دی ہے۔
ہر جنگ کے کچھ اہداف ہوتے ہیں۔ اگر تو اسرائیل اورامریکا کا ہدف ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کرنا تھا۔ تو بقول امریکا کے وہ ہدف حاصل ہو گیا ہے۔ امریکی صدر کا ایک بہت سخت پیغام میرے سامنے ہے۔ جس میں وہ ان امریکی صحافیوں کو بر ا بھلا کہہ رہے ہیں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طو ر پر تباہ نہیں ہوا ہے۔ وہ نام لے لے کر ان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اور ایسی تمام خبروں کو فیک نیوز کہہ رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کا یہی موقف ہے کہ اس نے ایران کی تمام نیوکلئیر سائٹس تباہ کر دی ہیں۔ اب ایران کے پاس کوئی نیوکلیئر صلاحیت نہیں ہے۔ اس لیے جب خود امریکا اور اسرائیل یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا ہد ف حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہد ف حاصل کرنے کے بعد جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ غیر جانبدار تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ امریکی حملوں میں ایران کا نیوکلیئر پروگرام مکمل تباہ نہیں ہوا۔ ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ جیسے ایران نے امریکی اڈوں پر حملہ کرنے سے پہلے قطر اور امریکا دونوں کو بتایا۔ ایسے ہی امریکا نے بھی ایران کی نیو کلیئر سائٹس پر حملہ کرنے سے پہلے ایران کو بتایا تھا۔ اسی لیے ایران نے وہاں سے افزودہ یورینیم نکال لیا تھا۔ اہم مشینیں بھی نکال لی تھیں۔
کچھ سٹیلائٹ تصاویر اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ اس لیے یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں فریق جنگ بھی لڑ رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں بھی تھے۔ حملے بھی بتا کر کیے جا رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان رابطے اور بات چیت کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ایران اور امریکا بات چیت جاری رہی ہے۔ براہ راست بات چیت کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں۔ اس لیے امریکا اور ایران کے درمیان رابطوں کے ساتھ یہ جنگ لڑی گئی ہے۔
ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ آئی اے ای کے مطابق ایران کے پاس چار سو کلو Enriched یورینیم ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ کیا ایران نے اس کو مریکی حملوں سے پہلے محفوظ کر لیا تھا؟ اور وہ اب بھی ایران کے پاس محفوظ ہے۔ اسی لیے یہ سب کہہ رہے ہیں کہ اگر پہلے ایران ایٹم بم پانچ ماہ میں بنا سکتا تھا تو اب اس کو کئی سال لگیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ صلاحیت مکمل ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران دوبارہ اس پر کام شروع کرے گا نہیں۔
جہاں تک آبنا ئے ہر مز کو بند کرنے کی بات تھی۔ ایران نے وہ کبھی بند نہیں کرنا تھا۔ اس کا نقصان امریکا کے بجائے چین کو تھا۔ اور ایران چین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ جنگ کے بعد اب ایران اور بھارت کے تعلقات کے بارے میں دیکھنا ہوگا۔ اس جنگ میں بھارت مکمل طو رپر اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے۔ اس لیے امید یہی ہے کہ اب بھارت اور ایران کے درمیان وہ گرمجوشی نہیں ہوگی۔ جو پہلے تھی۔ اس جنگ میں بھارت نے ایران کو کھو دیا ہے۔ شاید بھارت کا خیال تھا کہ رجیم چینج ہو جائے گا لیکن وہ نہیں ہوا۔
میں سمجھتا ہوں امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی ایران میں رجیم چینج ممکن نہیں ہے۔ وہاں گراؤنڈ تیار نہیں ہے۔ خامنہ ای کی گرفت کمزور نظر آئی ہے۔ وہ منظر سے غائب بھی ہوئے۔ لیکن ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ ایرانی نظام میں ابھی رجیم چینج ممکن نظر نہیں آیا ہے۔ اس لیے امریکا اور اسرائیل نے رجیم چینج کے آپشن کو ختم کر دیا۔ حالانکہ ایسے اشارے دیے گئے تھے۔ لیکن پھر ممکن نہیںتھا۔
کون جیتا؟ کون ہارا؟ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن اس سیز فائر کا اعلان بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی کیا ہے۔ کیا ہم یہ جنگ بند کرنے کا کریڈٹ بھی ٹرمپ کو دیں گے۔ اگر امریکا وہ بمباری نہ کرتا تو اسرائیل اور ایران کافی دیر تک بھی لڑ سکتے تھے۔ امریکا صدر کے مطابق اس بمباری نے جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد جنگ بندی کا جواز بن گیا۔ جس کو ایران نے بھی تسلیم کر لیا۔ اس لیے ٹرمپ پھر سیز فائر کا اور جنگ رکوانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور ایران کے درمیان رہے ہیں کہ ا اسرائیل اور سیز فائر کا امریکا اور رجیم چینج امریکا نے نے ایران حملوں کے ایران کا نہیں ہوا ایران نے نہیں ہے سے پہلے اڈوں پر پر حملہ کا اور تھا کہ کی بات اس لیے کے بعد نے بھی
پڑھیں:
اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
حزب اللہ لبنان کے رکن پارلیمنٹ ایہاب حمادہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے لہذا اس سے کسی قیمت پر مذاکرات نہیں کیے جائیں گے جبکہ ہم گذشتہ برس انجام پانے والی جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ایک طرف گذشتہ چند دنوں میں علاقائی اور لبنانی ذرائع ابلاغ پر ایسی متعدد رپورٹس منظرعام پر آ چکی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ لبنان کو اسرائیل سے براہ راست مذاکرات شروع کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور حال ہی میں لبنان کے صدر جوزف عون نے بھی اسرائیل سے مذاکرات کے بارے میں بات کی ہے جبکہ دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے رکن پارلیمنٹ ایہاب حمادہ نے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ کو کسی قسم کے مذاکرات کا فریم ورک فراہم نہیں کیا گیا اور گذشتہ برس لبنان حکومت نے غاصب صیہونی رژیم سے جنگ بندی کا جو معاہدہ کیا تھا حزب اللہ لبنان نے بھی اسے اسی صورت میں قبول کیا تھا لہذا اب کسی قسم کے نئے مذاکرات کی بات کرنا گذشتہ معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔
کسی صورت اسرائیل سے مذاکرات نہیں کریں گے
لبنان کے رکن پارلیمنٹ اور حزب اللہ کی پارلیمانی پارٹی کے رہنما ایہاب حمادہ نے گذشتہ رات اسپوتنیک ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "گذشتہ برس انجام پانے والا جنگ بندی کا معاہدہ ایک قسم کے بالواسطہ مذاکرات کا نتیجہ تھا جو ثالث ممالک کی وساطت سے انجام پائے تھے۔ لہذا اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ لبنان سرکاری طور پر اپنے تمام اداروں کے ہمراہ اسرائیل سے براہ راست مذاکرات پر راضی ہے درست نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "حزب اللہ کو مذاکرات کا کوئی فریم ورک مہیا نہیں کیا گیا اور ہم نے گذشتہ برس لبنان حکومت اور اسرائیل کے درمیان انجام پانے والے جنگ بندی معاہدے کو اسی شکل میں قبول کیا تھا کیونکہ وہ لبنان کے فائدے میں تھا۔ لہذا اب کسی اور فارمولے کی جانب بڑھنا گذشتہ فارمولے کو دھچکہ پہنچانے کے مترادف ہو گا۔" ایہاب حمادہ نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: "ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ لبنانی صدر جوزف عون پر پڑنے والے دباو کی شدت بہت زیادہ ہے اور ہمیں حقیقت پسندی سے مسائل حل کرنے ہیں۔ حزب اللہ کا موقف واضح ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی صورت اسرائیل سے مذاکرات نہیں کریں گے۔"
اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے
ایہاب حمادہ نے کہا: "حتی اگر صورتحال بدل بھی جاتی ہے تو اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور ہمارے لئے دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کی قیمت ہتھیار ڈالنے کی قیمت سے کہیں زیادہ کم ہے۔ غاصب صہیونی رژیم مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ہماری سرحدوں پر ایک بفر زون بنانا چاہتی ہے۔" اسلامی مزاحمت کے نمائندے نے زور دے کر کہا: "جنوبی لبنان کے رہائشیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کا منظرنامہ ایک پرانا اسرائیلی منصوبہ ہے۔ صہیونی رژیم نے قرارداد 1701 کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نے عملی طور پر ایسا ہی کیا ہے کیونکہ وہ اس کی کسی بھی شق کی تعمیل نہیں کرتا۔ غاصب صہیونی حکمران حزب اللہ لبنان کے دوبارہ طاقت پکڑ جانے کے امکان سے شدید خوفزدہ ہیں۔" انہوں نے گذشتہ کچھ دنوں میں انجام پانے والے مصری وفد کے دورہ لبنان کے بارے میں کہا: "مصری انٹیلی جنس وفد کے بیروت کے دورے سے پہلے اس وفد کے مقاصد کے بارے میں خبریں سامنے آئی تھیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ مصر کی طرف سے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسٹریٹجک ہتھیاروں کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔"
ایہاب حمادہ نے واضح کیا کہ حزب اللہ اور مصری وفد یا یہاں تک کہ سعودی وفد کے درمیان کوئی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب نے حزب اللہ کو اپنے سرکاری موقف سے آگاہ کر دیا گیا ہے جو سعودی عرب کی جانب سے سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان شیخ نعیم قاسم کی حالیہ تقریر کو مثبت قرار دینے پر مبنی ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں بیروت، واشنگٹن اور چند عرب ممالک میں ردوبدال ہونے والے پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ لبنان پر اسرائیل سے براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے شدید دباو ڈال رہا ہے۔ الاخبار کے مطابق ذرائع نے بتایا: "امریکیوں نے لبنانی حکام اور دیگر لبنانی رہنماوں سے رابطوں میں دھمکی آمیز لہجے میں انہیں بتایا ہے کہ اسرائیلی حملے کو روکنے کا واحد راستہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست سیاسی مذاکرات میں شامل ہونا ہے۔ امریکیوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان کا اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" ان رپورٹس کے مطابق لبنانی حکام کے ساتھ ہر رابطے میں امریکیوں کا اصرار ہے کہ اسرائیل لبنان کے خلاف فوجی حملوں کو تیز کرنے کا سہارا لے رہا ہے جس کا مقصد حزب اللہ پر دباؤ ڈالنا اور اسے مزید رعایتیں دینے پر مجبور کرنا ہے۔