UrduPoint:
2025-08-10@01:43:44 GMT

ایران پر امریکی حملوں سے چین کو کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT

ایران پر امریکی حملوں سے چین کو کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2025ء) امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری مقامات پر بمباری کے بعد اسرائیل اور ایران جنگ میں تیزی سے اضافہ ہوا اور چین نے اس اقدام کو واشنگٹن کی عالمی ساکھ کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔

ٹرمپ نے جنگ بندی سے پہلے ایران کے جوہری پروگرام کے اہم مقامات پر امریکی حملے کیے، جس کے جواب میں، تہران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔

تاہم چین نے اس پیش رفت پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بیجنگ کی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکون نے ایران پر امریکی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اساسی معاہدے کے تحت اپنے دفاع کے لیے یا پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر ممالک کے درمیان طاقت کے استعمال پر پابندی ہے۔

(جاری ہے)

گو جیاکون نے کہا کہ بیجنگ "مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔"

امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر

اس سے قبل اقوام متحدہ میں چین کے سفیر فو کانگ کی جانب سے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا گیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ بحیثیت ایک ملک اور کسی بھی بین الاقوامی مذاکرات میں شریک ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی ساکھ کو "نقصان" پہنچا ہے۔

بیجنگ کے لیے داؤ پر کیا ہے؟

چین کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کا مطالبہ ان اقتصادی خدشات کے درمیان آیا ہے کہ ایران آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے، جس سے تیل کی قیمتیں غیر مستحکم ہو جائیں گی۔

ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق

آبنائے ہرمز عمان اور ایران کے درمیان ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے، جو خلیج فارس کو خلیج عمان اور بحیرہ عرب سے ملاتی ہے اور تیل کی نقل و حمل کے لیے ایک اہم گیٹ وے ہے۔

واشنگٹن نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ تہران کو اس اہم آبی گزرگاہ کو بند کرنے سے باز رکھے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات جا ایان چونگ کا کہنا ہے کہ "تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ یقیناً (چین کی) معیشت پر دباؤ ڈالیں گے۔ اس سے "افراط زر کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بیجنگ کے پاس یقیناً اس بات کو یقینی بنانے کی وجہ ہے کہ کشیدگی قابو سے باہر نہ ہو۔

لیکن آیا وہ ایران کو مکمل طور پر روک سکتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ کہانی ہے۔"

شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟

چین ایران کا کلیدی اقتصادی حمایتی ہے، خاص طور پر مغربی پابندیوں اور تہران کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے درمیان، جو اس کے جوہری پروگرام اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے ہیں۔

ایران چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں ایک اہم شراکت دار ہے۔

یہ ایک بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ ہے، جس کا مقصد چینی تجارت اور درجنوں ممالک میں اثر و رسوخ کو مربوط کرنا ہے۔

اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کے ایک رکن وین ٹی سنگ کا کہنا ہے کہ "ایک کمزور ایران، جو کہ شاید فوجی طور پر روایتی جنگ یا امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں خانہ جنگی سے قریب تر ہے، تہران کو مشرق وسطیٰ میں چین کی رسائی کے لیے بہت ہی کم موثر پارٹنر بنا دے گا۔

"

چین نے ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی ادارہ قائم کر دیا

چین کے لیے سفارتی سرمایہ حاصل کرنے کا موقع

سنگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فوجی حملے کے تناظر میں چین کو مزید سفارتی خیر سگالی حاصل کرنے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا، "جب تک امریکہ کی جانب سے مستقبل میں مزید فوجی حملوں کا امکان ختم نہیں ہوتا، یہ سفارتی اثر برقرار رہے گا۔

""

چین نے طویل عرصے سے امریکہ کو عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر، جبکہ خود کو امن اور استحکام کے لیے ایک ذمہ دار وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔

ٹرمپ کی ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ کیا، اس پر تنقید کیوں؟

چونگ کا کہنا ہے کہ (چین) کے پاس، "اب امریکہ کے بارے میں یہ بات کرنے کی زیادہ صلاحیت ہو گی کہ وہ ایک ممکنہ خطرہ ہے، وہ اس بیانیے کو گلوبل ساؤتھ میں آگے بڑھانے میں خاص طور پر سرگرم بھی رہا ہے۔

"

سن 2023 میں، چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سات سال کے منقطع تعلقات کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے کی ثالثی کی تھی۔

لیکن موجودہ بحران کے دوران بیجنگ کی تہران کی پشت پناہی زیادہ تر بیان بازی پر مبنی رہی ہے، جس میں اس کے ثالثی کا کردار اداکرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے۔

چونگ نے کہا، "بیجنگ بااثر ہے، لیکن جس طرح امریکہ اسرائیل کو کنٹرول نہیں کر سکتا، اسی طرح بیجنگ (ایران کو روک نہیں سکتا)"۔

اگر واشنگٹن ایشیا سے توجہ ہٹاتا ہے تو بیجنگ کو فائدہ ہو گا

ادھر امریکہ ہند-بحرالکاہل پر کم توجہ کے ساتھ ہی وسائل بھی کم صرف کر رہا ہے، چین ممکنہ طور پر ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اپنی فوجی موجودگی پر بین الاقوامی دباؤ کو دور کر سکتا ہے۔

ہنوئی میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ اس ماہ کے اوائل میں ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز جو اصل میں ویتنام کی ایک بندرگاہ پر پہنچنے والا تھا، اسے ایک "ہنگامی آپریشنل ضرورت" کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی طرف روانہ کیا گیا۔

چونگ نے کہا کہ طیارہ بردار جہاز کے اس دورے سے ایشیا میں سلامتی اور استحکام کے لیے امریکی عزم کو ظاہر کرنا تھا۔

امریکہ اور چین دو طرفہ محصولات کی نوے روزہ معطلی پر متفق

چونگ نے تائیوان کی طرف چین کے نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "اگر مشرق وسطیٰ کی طرف امریکی توجہ طویل عرصے تک برقرار رہی تو، بیجنگ (اپنی حکمت عملی) کا دوبارہ تخمینہ لگا سکتا ہے۔

"

تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جسے چین اپنا علاقہ مانتا ہے اور بیجنگ نے اس کے "دوبارہ اتحاد" کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔

چونگ نے کہا کہ امریکہ اب مشرق وسطیٰ میں گہرائی سے الجھا ہوا ہے، اس لیے جاپان سمیت جنوبی کوریا، فلپائن اور آسٹریلیا جیسے اس کے علاقائی اتحادیوں کو "خود ہی بہت کچھ کرنا پڑے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سخت محنت کرنا پڑے گی۔"

اس مرحلے پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران پر امریکی حملہ ایک الگ تھلگ واقعہ ہے اور اس کے بعد واشنگٹن ایشیا پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے، یا پھر یہ قدم مشرق وسطیٰ کو ترجیح دینے کی جانب ایک وسیع محور کا اشارہ ہے۔

ص ز/ ج ا (یوچین لی تائی پے سے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی اقوام متحدہ کے لیے ایک کی جانب سے کے درمیان پر امریکی نے کہا کہ ایران کے چونگ نے سکتا ہے کر سکتا کا کہنا میں چین اور اس چین کی چین کے کے بعد چین نے

پڑھیں:

امریکہ، روس کو حساس معلومات فراہم کرنے کی کوشش کے الزام میں امریکی فوجی گرفتار

واشنگٹن (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اگست ۔2025 )روسی حکومت کو جنگی ٹینکوں کی حساس معلومات فراہم کرنے کی کوشش کے الزام میں امریکی فوجی کو گرفتار کر لیا گیا ہے امریکی وزارتِ انصاف کے مطابق امریکی فوج اہلکار کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ امریکی جنگی ٹینکوں کی حساس معلومات روسی حکومت تک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا.

نشریاتی ادارے کے مطابق کے مطابق 22 سالہ امریکی فوجی اہلکار ٹیلر ایڈم لی جو کہ ٹیکساس کے فورٹ بلیس فوجی اڈے پر تعینات ہیں، پر دو الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں انہیں حساس ملکی دفاعی معلومات کو منتقل کرنے اور تکنیکی ڈیٹا کو بغیر لائسنس کے برآمد کرنے کی کوشش کا الزام شامل ہے.

(جاری ہے)

ٹیلر ایڈم لی جو ایک ٹاپ سیکریٹ سیکیورٹی کلیئرنس رکھتے ہیں، پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے امریکی جنگی ٹینک M1A2 ایبرمز کی کارروائیوں اور اس کی کمزوریوں سے متعلق معلومات روسی حکومت کو فراہم کرنے کی کوشش کی، تاکہ اس کے بدلے وہ روسی شہریت حاصل کر سکیں ایف بی آئی کے کاﺅنٹر انٹیلی جنس ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رومن روزھاوفسکی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ گرفتاری ان افراد کے لیے پیغام ہے جو امریکہ کے ساتھ غداری کرنے کا سوچ رہے ہیں، خاص طور پر وہ فوجی اہلکار جو اپنے وطن کی حفاظت کا عہد کر چکے ہیں.

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے شراکت دار امریکی شہریوں کی حفاظت اور خفیہ معلومات کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ امریکی فوجی اہلکار ٹیلر ایڈم لی نے ایک ایس ڈی کارڈ کسی ایسے شخص کے ساتھ شیئر کیا تھا، جسے وہ روسی انٹیلی جنس افسر سمجھ رہا تھا اس کارڈ میں امریکی جنگی ٹینکوں اور دیگر فوجی آپریشنز کے بارے میں حساس دستاویزات موجود تھیں ان دستاویزات پر کنٹرولڈ انکلاسفائیڈ انفارمیشن کا نشان بھی موجود تھا رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور لی نے ابھی تک عدالت میں اپنے الزامات کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا. 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کو 22 ارب ڈالر کی امریکی امداد
  • ٹرمپ سے مودی کو دوستی اور خاص تعلقات کا دعویٰ بے نقاب ہوگیا، جے رام رمیش
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کاڈر،مودی نے ٹرمپ کی  دورہ امریکہ کی دعوت ٹھکرادی
  • مفت کریڈٹ کارڈز کا فائدہ اٹھائیں! بغیر کسی چارجز کے کیش بیک اور زبردست آفرز حاصل کریں۔
  • امریکی صدر نے بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات کو مسترد کر دیا
  • بھارت پر 50 فیصد ٹیرف: پاکستانی ایکسپورٹ مارکیٹ کیلئے فائدہ اُٹھانا فوری طور پر ممکن نہیں، معاشی ماہرین
  • امریکہ، روس کو حساس معلومات فراہم کرنے کی کوشش کے الزام میں امریکی فوجی گرفتار
  • پاکستان کو خطے میں سب سے کم امریکی ٹیرف سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ،عاطف اکرام شیخ
  • ایران امریکہ-پاکستان کی شراکت داری کے بارے میں کتنا فکرمند ہے؟
  • اطالوی اراکین پارلیمنٹ کا فلسطینیوں سے انوکھا اظہار یکجہتی