ایرانی جنرل اسماعیل قاآنی زندہ، شہادت کی اسرائیلی افواہیں بے بنیاد ثابت
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قاآنی، جو ایران کی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے ان کی مبینہ شہادت کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم آج ان کی زندگی کی تصدیق ایک عوامی تقریب میں ان کے عوام کے درمیان موجود ہونے کی ویڈیو اور تصاویر سے ہو گئی۔
ایرانی ریاستی میڈیا، بشمول تسنیم نیوز ایجنسی اور پریس ٹی وی نے ایسی فوٹیج شائع کیں جن میں قاآنی تہران کے انقلاب اسکوائر میں ’جشن فتح‘ کے دوران بھیڑ میں دیکھے گئے۔
یہ ویڈیوز اور تصاویر دعووں کو مسترد کرتی ہیں، جن میں نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا تھا کہ قاآنی اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم پاسداران انقلاب کی جانب سے کوئی باضابطہ تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی تھی، اور اسرائیل نے بھی ان کے قتل کا دعویٰ نہیں کیا تھا ۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب قاآنی کی موت کی خبریں سامنے آئیں، اکتوبر 2024 میں بھی بیروت کے حملے میں ان کے مبینہ ہلاک ہونے کے شکوک پیدا ہوئے لیکن وہ بعد ازاں زندہ ظاہر ہو گئے۔
جنرل اسماعیل کا زندہ ہونا اہم کیوں ہے؟قاآنی کا یوں اچانک منظر عام پر آنا نہ صرف ایران کی جوہری اور عسکری قیادت سے متعلق کشیدگی میں تبدیلی کا باعث ہے بلکہ اسرائیل کی جانب سے ترتیب دی گئی ذہنی جنگ (سائیکولوجیکل آپریشن) کے اثرات کو بھی بے نقاب کرتا ہے ۔
تصویری شواہدتسنیم نیوز ایجنسی کی ویڈیو میں قاآنی عوام کے ساتھ جشن کے دوران واضح طور پر دیکھے گئے۔
اس کے علاوہ المنار ٹی وی سمیت بہت سے معاون میڈیا نے ویڈیو نشر کی جس میں قاآنی کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے عوامی مقام پر دیکھا جا سکتا ہے
ایرانی جنرل اسماعیل قاآنی باضابطہ طور پر زندہ ہیں اور آج کی یہ بات کسی بھی شہادت کی افواہوں کو بے بنیاد ثابت کرتی ہے۔
یہ خبر خطے میں تیزی سے بدلتے جنگی منظرنامے اور ذہنی حکمتِ عملیوں میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنرل اسماعیل
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔