امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور مستقبل میں دوبارہ جنگ کا امکان نہیں۔ انہوں نے ایران کی مزاحمت کو بہادری قرار دیتے ہوئے کہاکہ دونوں فریق اب جنگ سے تھک چکے ہیں اور جنگ بندی پر مطمئن نظر آتے ہیں۔ اگلے ہفتے ایران سے بات ہوگا، اور معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔

نیٹو سمٹ کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ایران نے بہادری سے جنگ لڑی، لیکن اب دونوں ممالک تھک چکے ہیں اور موجودہ سیز فائر سے خوش ہیں۔

یہ بھی پڑھیں پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ بندی کے اعلانات، صدر ٹرمپ کے بیانات میں کیا مماثلت رہی؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاکہ ایران کی جوہری تنصیبات پر کیے گئے امریکی حملے انتہائی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے بقول ایرانی جوہری تنصیبات اب فعال نہیں رہیں اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے بھی اس نقصان کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہاکہ ہم نے ایران پر اتنی تیزی سے حملہ کیا کہ انہیں جوہری مواد منتقل کرنے کا موقع نہیں ملا۔

صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی حکومت کی سخت پالیسی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ صرف اسرائیلی انٹیلیجنس پر انحصار نہیں کیا جا رہا، بلکہ امریکی ادارے بھی مکمل جائزہ لے رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کے بعد جنگ رکی، ویسے ہی ایران پر حملے سے بھی جنگ رک گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اگلے ہفتے ایران سے مذاکرات متوقع ہیں اور ممکن ہے کہ کوئی معاہدہ طے پا جائے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ معاہدے پر دستخط ان کی ترجیح نہیں۔ ’انہوں نے جنگ لڑ لی، اب واپس اپنی دنیا میں جا رہے ہیں۔ میرے لیے معاہدہ ہو یا نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روک دیا ہے اور دنیا پر واضح کردیا ہے کہ امریکا اب بھی اپنے دشمنوں کو روکنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اسرائیل اور ایران دونوں سے خوش نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ

ایران کی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اگر ایران تیل بیچنا چاہتا ہے تو بیچ سکتا ہے، چین اگر چاہے تو خرید سکتا ہے، کیوں کہ ایران کو اب اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے پیسے کی شدید ضرورت ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل ایران جنگ امریکا امریکی صدر ایران ایران معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل ایران جنگ امریکا امریکی صدر ایران ایران معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز ڈونلڈ ٹرمپ انہوں نے کہ ایران نے ایران ہیں اور سکتا ہے کیا کہ

پڑھیں:

پیوٹن کی پہلی مرتبہ الاسکا آمد، جنگ بندی پر مذاکرات کا امکان

فروری 2022 سے جاری یوکرین جنگ کے خاتمے کے امکانات پر بات چیت کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جمعہ کے روز الاسکا میں ملاقات کریں گے، جو کئی ناکام مذاکراتی ادوار، ٹیلی فونک رابطوں اور سفارتی دوروں کے بعد ہو رہی ہے جن میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

جولائی 2025 میں ترکی کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان 3 مذاکراتی ادوار ہوئے، جن میں قیدیوں کے تبادلے اور لاشوں کی واپسی پر تو اتفاق ہوا، مگر جنگ بندی طے نہ ہو سکی، یہ جنگ اب تک لاکھوں فوجیوں اور شہریوں کی جان لے چکی ہے اور دونوں یورپی ہمسایہ ممالک کی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھاری نقصان پہنچا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ اور پیوٹن کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے بعد تاریخی ملاقات الاسکا میں ہوگی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ الاسکا سمٹ میں ان کی ملاقات ایک ’ابتدائی جانچ‘ ہو گی تاکہ دیکھا جا سکے کہ پیوٹن امن معاہدے پر راضی ہیں یا نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کا ہدف ایسا ’مذاکراتی تصفیہ‘ ہے جو روس اور یوکرین دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاہم اس بات کا یقین نہیں کہ یہ ملاقات جنگ کے خاتمے کو قریب لا سکے گی۔

مزید پڑھیں:یورپی رہنماؤں کا یوکرین کے حق میں اظہارِ یکجہتی، ٹرمپ پیوٹن ملاقات سے قبل خدشات میں اضافہ

سیاسی تجزیہ کار میخائل الیکسیف کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ قابلِ عمل راستہ وہ ہو گا اگر صدر پیوٹن امریکی صدر ٹرمپ کی 30 دن کی غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیں، جس پر یوکرین پہلے ہی آمادہ ہے۔

’یہ اس پر منحصر ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات، جن میں روس کے قریب ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی کی دھمکی، بھارت پر روسی توانائی خریدنے پر اضافی محصولات، اور نیٹو کے ساتھ یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ شامل ہے، پیوٹن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ مغرب پہلے سے زیادہ یوکرین کی پشت پناہی کرے گا یا نہیں۔‘

سفارتی سرگرمیوں میں تیزی

متوقع ملاقات کی جگہ یعنی الاسکا کو دونوں ممالک کے لیے خصوصی اہمیت حاصل ہے، روسی صدر پیوٹن پہلی بار اس علاقے کا دورہ کریں گے جو 1867 تک روسی سلطنت کا حصہ تھا اور بعد میں امریکا نے اسے 72 لاکھ ڈالر میں خرید لیا تھا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے ملاقات کے مقام کے اعلان کے بعد سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ’منصفانہ امن‘ کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کی ہے، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے چار دنوں میں 13 عالمی رہنماؤں سے ملاقات یا گفتگو کی، جبکہ پیوٹن نے چین، بھارت، برازیل اور سابق سوویت ریاستوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے۔

مزید پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا

جرمنی بدھ کو یورپی رہنماؤں کا ورچوئل اجلاس بلا رہا ہے تاکہ صدر ٹرمپ سے یورپی رابطے سے قبل روس پر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی پر بات کی جا سکے۔

صدر ٹرمپ کا متنازع زمین کے تبادلے کا منصوبہ

صدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل جنگ کے خاتمے کے لیے ’زمین کے تبادلے‘ کی تجویز دی، جسے زیلنسکی نے سختی سے مسترد کر دیا۔ اس منصوبے کے مطابق روس ڈونباس پر قبضہ برقرار رکھے گا جبکہ کچھ دیگر علاقوں سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ یوکرین کی خودمختاری کو نقصان پہنچائے گا اور روسی جارحیت کو جواز فراہم کرے گا۔

سلامتی کی ضمانتیں: اسرائیل یا تائیوان کی طرز پر؟

روس اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ یوکرین مستقبل میں غیرجانبدار رہے، نیٹو میں شمولیت ترک کرے اور اپنی فوجی صلاحیت محدود کرے۔ مگر ماہرین کے مطابق یوکرین کی آئینی طور پر نیٹو میں شمولیت کی خواہش موجود ہے، اور پارلیمنٹ یا عوام اسے ترک کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نیٹو رکنیت نہ بھی دی جائے تو یوکرین کو امریکا اور یورپ کی طرف سے ایسی مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں ملنی چاہییں جو 1994 کے بڈاپیسٹ میمورنڈم سے کہیں زیادہ موثرہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الاسکا امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج کا غزہ پٹی پر نئے حملے کا منصوبہ تیار
  • پیوٹن کی پہلی مرتبہ الاسکا آمد، جنگ بندی پر مذاکرات کا امکان
  • بھارت نے دوبارہ کوئی حرکت کی تو ایسا جواب ملے گا کہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا، وزیراعظم شہباز شریف
  • ٹرمپ پیوٹن کی متوقع ملاقات اور غزہ پر قبضے کا مذموم اسرائیلی منصوبہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا ’مشکل اور ناخوشگوار‘ تجربہ تھا ، سشمیتا سین کے انکشافات
  • کبھی بھی لوگوں کو بہکانے کے لیے فلمیں نہیں بناؤں گا، جان ابراہم
  • جنوبی کوریا کے صدر لی اور صدر ٹرمپ کی 25 اگست کو سکیورٹی و معیشت پر سربراہی ملاقات
  • ایران نے نئے جوہری سائنس دان روپوش کردیے، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
  • ایران کے جوہری سائنس دان خفیہ مقامات پر منتقل، اسرائیل کی نئی ہٹ لسٹ تیار
  • ’’ٹرمپ آپ کا ابا ہوگا‘‘پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل ڈاکٹر فضہ خان کا پروگرام چھوڑ کر چلے گئے