Daily Sub News:
2025-11-13@10:02:20 GMT

ایران میں پانی کا بحران سنگین، تہران کے خالی ہونے کا خدشہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT

ایران میں پانی کا بحران سنگین، تہران کے خالی ہونے کا خدشہ

ایران میں پانی کا بحران سنگین، تہران کے خالی ہونے کا خدشہ WhatsAppFacebookTwitter 0 13 November, 2025 سب نیوز

تہران (آئی پی ایس) ایران کو پانی کے بدترین بحران کا سامنا ہے، اور حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ملک میں خشک سالی جاری رہی تو ایک کروڑ آبادی کا شہر تہران جلد ہی ناقابل رہائش ہوجائے گا، صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ اگر دسمبر تک بارش نہیں ہوئی تو حکومت کو تہران میں پانی کی تقسیم شروع کرنی پڑے گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایرانی صدر نے 6 نومبر کو خبردار کیا کہ ’اگر ہم تقسیم بھی کریں اور پھر بھی بارش نہ ہو، تو ہمارے پاس بالکل پانی نہیں ہوگا، شہریوں کو تہران چھوڑنا ہوگا‘۔
ایران کے روحانی حکمرانوں کے لیے صورتحال سنگین ہے، 2021 میں پانی کی قلت نے جنوبی خوزستان صوبے میں پرتشدد مظاہرے بھڑکا دیے تھے، اور 2018 میں بھی کسانوں نے حکومت پر پانی کے انتظام میں ناکامی کے الزامات عائد کیے تھے۔
گرمیوں کے شدید موسم کے بعد پانی کا بحران صرف کم بارش کا نتیجہ نہیں ہے، برسوں کی بدانتظامی، بشمول ڈیموں کی زیادہ تعمیر، غیر قانونی کنوؤں کی کھدائی اور غیر مؤثر زرعی طریقوں نے پانی کے ذخائر کو ختم کر دیا ہے۔
صدر مسعود پزشکیان نے بحران کے لیے پچھلی حکومتوں کی پالیسیاں، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی زیادتی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اگرچہ اس وقت مظاہروں کا کوئی اشارہ نہیں ہے، ایرانی عوام بالخصوص ملک کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی معاشی مشکلات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، پانی کی کمی سے خاندان اور برادریاں مزید دباؤ میں ہیں، جس سے مظاہروں کا امکان بڑھ سکتا ہے، جب کہ مذہبی قیادت پہلے ہی اپنے جوہری عزائم پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا انکار کرتا ہے۔
تہران میں پانی کی صورتحال خراب ہے، مشرقی تہران میں رہنے والی مہناز کے مطابق پچھلے ہفتے پانی اچانک بند ہو گیا اور رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک نہیں آیا، وہ اور ان کے 2 بچے صرف بوتل کے پانی سے دانت صاف کر کے اور ہاتھ دھو کر گزارا کرتے رہے۔
ایران کی نیشنل واٹر اینڈ ویسٹ واٹر کمپنی نے تہران میں باضابطہ پانی کی تقسیم کی رپورٹس کو مسترد کر دیا، لیکن تصدیق کی کہ کچھ علاقوں میں رات کے وقت پانی کا پریشر کم کیا جا رہا ہے، اور کچھ اضلاع میں پانی مکمل طور پر بند ہو سکتا ہے۔
پزشکیان نے جولائی میں بھی پانی کے زیادہ استعمال سے خبردار کیا تھا، جب متعلقہ حکام نے کہا تھا کہ تہران کے 70 فیصد رہائشی روزانہ معیاری 130 لیٹر سے زیادہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔
ایران میں گزشتہ برسوں میں بلند مانگ کے دوران بجلی، گیس اور پانی کی کمی معمول رہی ہے، تہران کے پانی کے شعبے کے عہدیدار بہزاد پارسا کے مطابق تہران کے ذخائر جو کبھی تقریباً 500 ملین مکعب میٹر پانی ذخیرہ کر سکتے تھے، اب صرف 250 ملین پر ہیں، یعنی آدھی کمی، اور موجودہ استعمال کی شرح پر یہ دو ہفتوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔
پورے ملک میں 19 بڑے ڈیم (ایران کے کل ڈیموں کا تقریباً 10 فیصد) مؤثر طور پر خشک ہو چکے ہیں، ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں 40 لاکھ آبادی کے لیے پانی کے ذخائر 3 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں، مقامی شہری رضا نے کہا کہ پانی کا دباؤ اتنا کم ہے کہ دن کے وقت پانی دستیاب نہیں ہے، اور یہ بدانتظامی کی وجہ سے ہے۔
یہ بحران ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اور بجلی کے مسلسل بند ہونے کے بعد سامنے آیا ہے، جولائی اور اگست میں حکومت نے پانی اور توانائی کی بچت کے لیے ہنگامی تعطیلات کا اعلان کیا، بعض عوامی عمارتیں اور بینک بند کر دیے کیونکہ کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا تھا۔
حکام کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نے مسئلے کو مزید سنگین کر دیا ہے، کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے بخارات اور زیر زمین پانی کی کمی تیز ہو گئی ہے۔
کچھ اخبارات نے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں پر تنقید کی، ان میں غیر اہل افراد کی تعیناتی اور وسائل کے انتظام میں سیاست کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا، لیکن حکومت نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
الہامی مدد کی اپیلیں بھی دوبارہ سامنے آئی ہیں، تہران کے سٹی کونسل کے سربراہ مہدی چمران نے ریاستی میڈیا کو بتایا کہ ’ماضی میں لوگ بارش کے لیے صحراؤں میں جاتے تھے، شاید ہمیں اس روایت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘۔
حکام عارضی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ موجودہ وسائل کو محفوظ رکھا جا سکے، جیسے بعض علاقوں میں پانی کے دباؤ کو کم اور تہران کو دیگر ذخائر سے پانی منتقل کیا جارہا ہے، تاہم یہ صرف وقتی حل ہیں، اور عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے پانی کے ذخیرہ کرنے والے ٹینک، پمپ اور دیگر آلات نصب کریں۔
اصفہان کی ایک یونیورسٹی استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’بہت کم اور بہت تاخیر سے، وہ صرف وعدے کرتے ہیں لیکن ہم کوئی عملی اقدام نہیں دیکھتے، یہ زیادہ تر تجاویز عملی نہیں ہیں‘۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد کچہری دھماکا، خودکش حملہ آور کے سہولت کار اور ہینڈلر گرفتار اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کےالتوا کے معاملے پر فیصلہ محفوظ، چیف الیکشن کمشنر کے اہم ریمارکس علیمہ خان کے 10ویں بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ستائیسویں آئینی ترمیم کا نیا متن آج سینیٹ سے منظور کرایا جائے گا امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ختم، سینیٹ اور ایوان نمائندگان نے تاریخی بل منظور کر لیا آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کل وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس طلب،اہم فیصلے متوقع افغانستان سے آمد ورفت کم ہوگی تو پاکستان میں دہشتگردی بھی کم ہوگی، خواجہ آصف کا تجارت بند کرنے کے بیان پر ردعمل TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: میں پانی تہران کے پانی کا

پڑھیں:

کوئٹہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، محکمہ آبپاشی کی نااہلی کی نشاندہی

اجلاس میں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے واضح کیا کہ نہ پانی کی صحیح پیمائش ہو رہی ہے اور نہ ہی محکمے کی نگرانی مؤثر ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ذمہ داران کیخلاف کارروائی ہوگی تاکہ مالی معاملات کو درست خطوط پر استوار کیا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے محکمہ آبپاشی کی آڈٹ رپورٹ کے دوران نااہلی کی نشاندہی کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے کمیٹی روم میں منعقدہ ہونے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت چیئرمین اصغر علی ترین نے کی، جبکہ اجلاس میں کمیٹی ارکان زمرک خان اچکزئی، ولی محمد نورزئی، فضل قادر مندوخیل، غلام دستگیر بادینی، سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، سیکرٹری آبپاشی سہیل الرحمن بلوچ، اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ شجاع علی، ایڈیشنل سیکرٹری اسمبلی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری قانون سعید اقبال اور چیف اکاؤنٹس آفیسر پی اے سی سید ادریس آغا اور محکمہ کے اعلی آفیسر نے شرکت کی۔ اجلاس میں محکمہ آبپاشی کے کمپلائنس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ محکمہ آبپاشی کی ذمہ داری نہروں کی تعمیر و دیکھ بھال، ڈیلے ایکشن ڈیمز، آبی ذخائر، پینے اور زرعی پانی کے مستقل و عارضی ذرائع کی فراہمی کے منصوبوں، دریا کناروں کے سروے، واٹر لاگنگ اور فلڈ کنٹرول اسکیموں پر عملدرآمد شامل ہے۔

چیئرمین نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود واجبات کی ریکوری نہیں کی گئی، جبکہ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ نہر آبپاشی ڈویژن حب کے 35 کروڑ 82 لاکھ روپے سے زائد کی ریکوری فوری طور پر کی جائے گی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2020-22 کے دوران محکمے کی مختلف ڈویژنز نے ناقابل قبول آئٹمز اور غلط بلند ریٹس پر ادائیگیوں کی مد میں 6 کروڑ 83 لاکھ روپے کے اخراجات کیے، جس سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ یہ بے ضابطگیاں کمزور مالی نظم و نسق کا نتیجہ ہیں، اور متعلقہ ڈویژنز کی جانب سے بروقت جواب بھی جمع نہیں کرایا گیا۔ مزید بتایا گیا کہ گروک اسٹوریج ڈیم تاحال مکمل نہیں ہوا، جبکہ منصوبے کو جلد مکمل ہونا چاہیے تھا۔ چیئرمین نے کہا کہ منصوبوں کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ کمیٹی نے گروک ڈیم کی تکمیل کے لیے فروری تک کی مہلت دے دی۔ اجلاس میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ صوبے میں پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی تعیناتی ایک غلط روایت بن چکی ہے، جبکہ محکمے موجود ہونے کے باوجود پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی تعیناتی قواعد کے خلاف ہے۔ یہ افسران جوابدہ نہیں ہوتے اور منصوبوں کی کارکردگی کا کوئی جائزہ نہیں لیا جاتا۔ کمیٹی نے نہر آبپاشی ڈویژن حب کی جانب سے ریکوری نہ ہونے پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

محکمے نے دعویٰ کیا کہ اے جی آفس کو سکیورٹی ڈپازٹس کے لیے خط لکھا گیا ہے، مگر کمیٹی نے اے جی بلوچستان کو طلب کیا اور ان سے اس بارے میں استفسار کیا، لیکن اے جی بلوچستان نے لیٹر دیکھ کر کہا کہ یہ لیٹر ہمیں نہیں لکھا گیا ہے۔ مزید انکشاف کیا گیا کہ حب سے پانی کی فراہمی کا طریقہ کار غیر مؤثر ہے۔ حب ڈیم سے لیڈا کو پانی غلط طریقے سے ہو رہا ہے، اور لیڈا کے ذمے واجبات بھی واجب الادا ہیں۔ آڈٹ نے سفارش کی کہ فراہمی آب کے مؤثر نظام کی تشکیل، بقایاجات کی ریکوری اور پانی کی پیمائش کے نظام کو فوری بہتر بنایا جائے، اور ذمہ دار آفیسر احکامات پر عملدرآمد کرے۔ کمیٹی نے یاد دہانی کرائی کہ پی اے سی کی 13 نومبر 2024 کی ہدایات کے مطابق پانی کے نرخ 1994 سے نظرثانی نہ ہونا سنگین غفلت ہے۔ لیڈا کو 1000 گیلن پانی 7 روپے میں فراہم کیا جا رہا ہے، جبکہ وہی پانی صنعتی یونٹس کو 250 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے، جو کہ ناانصافی اور سرکاری خسارے کا باعث ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ نرخ فوری طور پر 100 روپے فی 1000 گیلن مقرر کرکے چیف سیکرٹری کے ذریعے نوٹیفائی کیے جائیں۔ کمیٹی نے کہا کہ محکمے کی جانب سے مسلسل غفلت، حقائق کی غلط بیانی اور ریکوری میں ناکامی قابل قبول نہیں ہے۔ چیئرمین نے واضح کیا کہ نہ پانی کی صحیح پیمائش ہو رہی ہے اور نہ ہی محکمے کی نگرانی مؤثر ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوگی تاکہ مالی معاملات کو درست خطوط پر استوار کیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ایرانی دارالحکومت تہران میں پانی کا شدید بحران، شہر خالی کرنے کی نوبت آگئی
  • ’شہر خالی کرنا پڑسکتا ہے‘، ایرانی صدر نے شہریوں کو خبردار کردیا
  • آئین کے آرٹیکل6کی کلاز 2میں تبدیلی کا فیصلہ
  •  خیبر پی کے اور بلوچستان کو پانی کی تقسیم میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا: مصدق ملک
  • ریڈ لائن اور کے فور منصوبے نے یونیورسٹی روڈ پر کاروبار ٹھپ کردیا
  • کوئٹہ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، محکمہ آبپاشی کی نااہلی کی نشاندہی
  • آئیڈیالوجی کا بحران ختم ہو جائے گا
  • جیکب آباد،سیوریج کی عدم صفائی ،روڈ راستے تباہی کے دہانے پر
  • ڈینگی کی وبا: سندھ ایک نئے بحران کی دہلیز پر