الٹی ہوگی سب تدبیریں، ایران کے خلاف ابتدائی مفروضے غلط ثابت
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مغربی اور عبری ذرائع کے مطابق محض عسکری آپریشنز اور فیلڈ کاروائیاں خود کافی ثابت نہیں ہوتیں۔ اس بات پر بھی شبہ باقی رہتا ہے کہ ایران نواز محور کی دوبارہ تعمیر کو روکا جا سکے گا، جب تک کہ عرب مستحکم حکومتوں کو مزید مضبوط نہ کیا جائے، ایران کے اثر و رسوخ کا متبادل نہ پیدا کیا جائے، اور علاقائی سطح پر سیاسی و سکیورٹی استحکام کے عمل کو آگے نہ بڑھایا جائے جو ایران کو علاقائی کمزوریوں اور افراتفری کا فائدہ اٹھانے سے روکے۔ خصوصی رپورٹ:
ایک صہیونی روزنامے نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کے خلاف ابتدائی مفروضے غلط ثابت ہوئے، ایران نے نہ صرف اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی بلکہ وہ اس میں زیادہ پُرعزم اور سنجیدہ ہو گیا ہے۔ یدیعوت آحارونوت نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ ایران اپنا راستہ بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ، اعلیٰ ایرانی حکام کے نزدیک جوہری طاقت و اختیار کا برقرار رہنا، عسکری طاقت کی بہتری اور محورِ مقاومت کی حمایت پہلے سے بھی زیادہ ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ اسرائیل سمیت دشمنوں کے مقابلے میں پائیدار رعب اور ڈیٹرنس کی پوزیشن کو قائم کی جا سکے۔
متعدد رپورٹس اس تخمینے کی تصدیق کرتی ہیں کہ ایران، حالیہ دو سال کے اندر خطے میں جنگی صورتحال اور 12 روزہ جنگ کے باوجود، موجودہ پالیسی سے دست بردار ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ گروسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں اعتراف کیا ہے کہ مبصرین نے سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے ان مقامات کے اطراف میں نقل و حرکت اور علامات دیکھی ہیں، جہاں 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذخائر رکھے جاتے ہیں، یہ وہ ذخائر ہیں جنہیں ایران نے حتیٰ کہ اپنے جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد بھی برقرار رکھا۔ سی این این نے یورپی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ایران نے چین سے سوڈیم پرکلورٹ کی درآمد میں اضافہ کیا ہے، وہ مادّہ جو بالِسٹک میزائلوں کے ٹھوس ایندھن کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔
دیگر رپورٹس ایران کی جانب سے دور مار ہتھیاروں، سازوسامان اور میزائل صلاحیتوں کی تعمیر نو اور بہتری کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ ایران ان نظاموں کو اسٹریٹجک اثاثے سمجھتا ہے جو اسرائیل کو طویل جنگ کے قابل نہ رہنے دینگے، اس پر ضرب لگانے اور اسے کمزور کرنے کی اہلیت فراہم کریں گے۔ علاقائی سطح پر بھی ایران کے حامی گروپوں، خصوصاً حزب اللہ، کی بحالی کی کوششوں کے مزید شواہد ملے ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی فضائیہ لبنان میں روزانہ حملے کر رہی ہے، حزب اللہ پھر بھی اپنی قوت نو تعمیر کر رہا ہے اور میزائل، راکٹ، توپ خانہ اور جنگی ساز و سامان جمع کر رہا ہے جو بعض اوقات شام کے راستے منتقل کیے جاتے ہیں، حالانکہ شامی اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
ایران، عراق میں شیعہ عسکری گروہوں کو مضبوط کرتا رہتا ہے اور انہیں ایسے ہتھیار فراہم کرتا ہے جو ممکنہ طور پر مستقبل میں اسرائیل کے خلاف حملوں میں استعمال ہوں گے۔ اسی طرح اسرائیلی سیکورٹی ایجنسی اور فوج نے حال ہی میں ایران سے مغربی کنارے کے لیے پیش کردہ جدید ہتھیاروں کی ایک بڑے پیمانے پر ترسیل کو بظاہر ناکام بنایا اور اسی دوران یمن کی طرف بھی ایک بحری جہاز ضبط کیا گیا جو ہتھیار لے کر حوثی کنٹرول والے علاقوں کی طرف جا رہا تھا، جن میں کورنیٹ میزائل بھی شامل تھے۔ ایران اپنی پالیسی بدلنے کا عزم نہیں رکھتا اور بظاہر یہ کم از کم اس حد تک ممکن نہیں ہے کہ جب تک کوئی پائیدار فریم ورک نہ بنایا جائے، یعنی ایسا معاہدہ جو افزودگی کی صلاحیتوں کو سختی سے محدود کرے۔
ایک ایسا معاہدہ جو مؤثر اور وسیع پیمانے پر ایجنسی کی نگرانی کو ممکن بنائے، اور باقی بچنے والے فیوژل مادّات کے بارے میں واضح فیصلے طے کرے، تب تک ایران کا جوہری راستہ روکا یا بند کیا جا سکے۔ گذشتہ دو سال کے واقعات سے ایران کو نقصان پہنچا ہے مگر وہ پھر بھی متعدد مواقع سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہے۔ مثلاً غزہ میں حماس کا برقرار رہنا، حزب اللہ کی فوراً غیر مسلح ہونے میں تاخیر، شام میں عدم استحکام، امریکہ کا روس اور چین کے ساتھ مقابلہ جو تہران کو دونوں قوتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے، اسرائیل کی عالمی حیثیت کو پہنچنے والا نقصان، اور خطّے کے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو علاقائی استحکام کے لیے خطرہ سمجھا جانا۔
لہٰذا یہ معقول ہے کہ فرض کیا جائے کہ ایران کا تخفیفِ قوت لازماً ایک ناقابل حصول عمل نہیں ہے۔ اسرائیل کو ایران کے ساتھ ممکنہ نئی کشمکش کے دور کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے، تاہم اس سے بھی زیادہ واضح ہو گیا ہے کہ محض عسکری آپریشنز اور فیلڈ کاروائیاں خود کافی ثابت نہیں ہوتیں۔ اس بات پر بھی شبہ باقی رہتا ہے کہ ایران نواز محور کی دوبارہ تعمیر کو روکا جا سکے گا، جب تک کہ عرب مستحکم حکومتوں کو مزید مضبوط نہ کیا جائے، ایران کے اثر و رسوخ کا متبادل نہ پیدا کیا جائے، اور علاقائی سطح پر سیاسی و سکیورٹی استحکام کے عمل کو آگے نہ بڑھایا جائے جو ایران کو علاقائی کمزوریوں اور افراتفری کا فائدہ اٹھانے سے روکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہے کہ ایران ایران کے کیا جائے جا سکے کیا جا
پڑھیں:
ایران کیخلاف حکمت عملی کی ناکامی کی وجوہات اور اسباب پر امریکی تحقیق
اسلام ٹائمز: ریاستیں عمومی طور پر اپنی سماجی و تاریخی یادداشت کو اس لیے تشکیل دیتی ہیں تاکہ فرد کو ملت سے مربوط رکھا جائے اور قومی شناخت کو ایسی روایات کے ذریعے مضبوط کیا جائے جو احساسِ تعلق کو تقویت دیتی ہیں۔ لکھاری ایران کی ’’سیکورٹی سے متعلق سوچ‘‘ کا سب سے برجستہ عنصر ’’غیر ملکی مداخلت کا تجربہ‘‘ بتاتی ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
ایک ایرانی نژاد پینٹاگون افسر نے امریکہ کی ایران کے خلاف موجودہ حکمتِ عملی کے بارے میں امریکی عہدیداروں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنے دس سالہ تحقیقی منصوبے کے بعض عملی نکات مغرب نواز مجلہ ’’سیاست نامه‘‘ میں شائع کیے ہیں۔ اس امریکی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں وسیع تحقیقی کوششیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ تہران کی فکری ساخت اور منطق کو سمجھا جا سکے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو اس چیلنج کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ وہ اپنے دس سالہ منصوبے کو ایران کے اقدامات کا مؤثر جواب تلاش کرنے اور اس کی ممکنہ ردعمل کی پیشبینی پر مبنی قرار دیتی ہیں۔
وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس تحقیق میں اس نے یورپ، امریکہ، ایران اور اسرائیل کے اہلکاروں و ماہرین سے گفتگو کی ہے، یہ افسر امریکی وزیر دفاع کی مشیر بھی رہ چکی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ایک بنیادی سوال امریکی اور یورپی عسکری منصوبہ سازوں کے ذہنوں کو مشغول کیے ہوئے ہے کہ ایرانی کیا سوچتے ہیں؟ ان کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟ اور وہ امریکی اقدامات کا جواب کس صورت میں دے سکتے ہیں؟ اپنے مضمون کے مقدمے میں وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ انقلابِ اسلامی کے چار دہائی بعد بھی ’’تندرو چہرے‘‘ سرکاری میڈیا سے ایرانیوں کو مغرب کی ’’زورگویی‘‘ کے مقابلے پر ابھارتے ہیں۔
اس کے بقول ایران کی موجودہ پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایران کی تزویراتی سوچ دراصل ایسے تاریخی و اجتماعی حافظے سے جنم لیتی ہے جو اس کے نظریاتی سانچے کا بنیادی جزء ہے۔ اس کے مطابق ریاستیں عمومی طور پر اپنی سماجی و تاریخی یادداشت کو اس لیے تشکیل دیتی ہیں تاکہ فرد کو ملت سے مربوط رکھا جائے اور قومی شناخت کو ایسی روایات کے ذریعے مضبوط کیا جائے جو احساسِ تعلق کو تقویت دیتی ہیں۔ وہ ایران کی ’’سیکورٹی سے متعلق سوچ‘‘ کا سب سے برجستہ عنصر ’’غیر ملکی مداخلت کا تجربہ‘‘ بتاتی ہیں۔
یہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد ان مفاہیم اور اعتقادات سے پردہ اٹھانا ہے جو ایرانی عسکری منصوبہ سازوں کے مدنظر ہوتے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ ایران عسکری خود کفالت پر اتنا زور کیوں دیتا ہے، کیوں میزائل بناتا اور ذخیرہ کرتا ہے، اور کیوں ان کا مسلسل آزمائشی عمل جاری رکھتا ہے۔ وہ ایران پر ’’درپردہ کاروائیوں‘‘ اور ’’علاقائی مداخلت‘‘ کے الزامات دہراتی ہیں۔ انقلابِ اسلامی کو وہ ’’ایسا سخت موسم‘‘ قرار دیتی ہیں جس نے ڈھائی ہزار سالہ سلطنت کا خاتمہ کیا، اور شاہ کے دور کی فوج کو ’’جدید طاقت‘‘ کہتا ہے، جسے امریکہ جیسی سپر پاور کا سہارا حاصل تھا، مگر ’’۱۹۷۹-۱۹۷۸‘‘ کی سردیوں نے سب ختم کر دیا۔
یہ افسر پھر صدام کے ایران پر حملے کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ عراق کے اندازے منطقی دکھائی دیتے تھے اور امریکہ و یورپ کی بے پناہ حمایت کا کوئی ذکر کیے بغیر صرف اتنا کہتا ہے کہ صدام نے ایرانیوں اور کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ آرین طباطبایی، جو بائیڈن دور میں وزیر جنگ کی مشیر تھی، اپنے مضمون میں بار بار یہ مؤقف دہراتی ہے کہ ایران کی ’’تاریخ‘‘، ’’روایت‘‘ اور ’’دفاعی تزویرات‘‘ باہمی طور پر جڑے ہوئے عناصر ہیں اور امریکی و یورپی عسکری منصوبہ سازوں کو ایران کے اقدامات کا مؤثر جواب دینے کے لیے انہی تین نکات کو سمجھنا ہوگا۔
وہ اپنی تحقیق کا اہم ترین نتیجہ یہ بتاتی ہے کہ ’’جنگوں اور مذاکرات‘‘ کے گرد بننے والی روایتیں ایرانی عوام کی عمومی ذہنیت کو شکل دیتی ہیں، اور یہ کہ ’’حکومتیں اس کو راسخ کرتی ہیں‘‘۔ متن کے مختلف حصے، جو اس کے پینٹاگون کے لیے تیار کردہ دس سالہ غیر محرمانہ پروجیکٹ کا خلاصہ معلوم ہوتے ہیں، اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکی اسٹریٹجک مشیروں کے نزدیک ایران کا تاریخی حافظہ، اس کی جنگی و سیاسی روایات، اور اس کی دفاعی حکمتِ عملی ایک مربوط نظام بناتے ہیں جسے سمجھنے کے بغیر ایران کی سمت کو بدلنا ممکن نہیں۔
طباطبایی بالواسطہ طور پر امریکی وزارت جنگ کے اپنے اعلیٰ حکام کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ اگر وہ ’’جمهوری اسلامی سے مربوط چیلنجز‘‘ کا بہتر جواب چاہتے ہیں تو انہیں ’’جنگ و مذاکرات کی روایت‘‘ پر کنٹرول یا اثر اندازی کے امکان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے مطابق جب تک ایرانی عوام کے تاریخی تجربے، جنگوں اور مذاکرات کے بارے میں بدگمانی کے ساتھ روایت ہوتی رہے گی، ’’سازگار منصوبہ بندی‘‘ ممکن نہیں ہوگی۔ اس کے نظریے کے مطابق اگر ایرانیوں کے لیے جنگ اور مذاکرات کی ایسی متبادل روایتیں بنائی جائیں جو ان کے عمومی برداشت کو بدل دیں، تو ممکن ہے کہ ایران کی دفاعی حکمتِ عملی میں بنیادی عناصر جیسے ’’میزائل سازی و ذخیره سازی‘‘ بھی غیرضروری محسوس ہونے لگیں۔
اس کے بقول یوں ’’جمهوری اسلامی سے مربوط چیلنجز‘‘ کا مقابلہ مغرب کے لیے آسان ہو جائے۔ اس امریکی افسر کے مضمون پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ مغربی حلقوں میں گزشتہ مہینوں کے دوران ’’اسنپ بک‘‘ کی ناکامی اور ایٹمی مذاکرات کے رسوا کن نتائج کو ڈھانپنے کے لیے جو بیانیاتی سرگرمی جاری ہے، اس کی جڑ اسی اسٹریٹجک فکر میں پیوست ہے۔ طباطبایی، مغرب نواز حلقوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ایران کی جنگی و سیاسی تاریخ کی ایسی روایت نہیں بننے دینی چاہیے جو عوامی نقطہ نظر کو مغرب کے بارے میں مزید بدگمان بنائے، کیونکہ اس کے بقول ایسا رویہ ’’قومی مفاد‘‘ کے حصول کی کوششوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔