ایران اسرائیل کشیدگی اور پاکستان کا تزویراتی تدبر
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
شرق اوسط میں جنگی کشیدگی اس تیزی سے پھیلی ہے کہ درست راستے کا تعین کرنا آسان نہیں رہا۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکی صدر نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایران کے جانب سے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد حیران کن انداز میں سامنے آیا۔ آئندہ حالات کا اندازہ لگانا بے حد دشوار ہے۔ تاہم اس بحران کے دوران پاکستان کے تعمیری اور متوازن کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران سے اظہارِ یکجہتی، اسرائیلی جارحیت کی مذمت، اور فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے سفارتی ملاقات کا مجموعی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان نے بالغ نظری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ایران اور اسرائیل جنگ کے تناظر میں پاکستان ایک ذمہ دار اور پراعتماد ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ حالیہ بحران کو حل کرنے کی حکمت عملی نے پاکستان کی سفارتی پختگی، اسٹریٹجک دانش اور سیاسی بصیرت کو مثبت انداز میں ابھارا ہے ۔ پاکستان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خطے میں باہمی تعلقات کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ایک ایسے کلیدی سفارتی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے پس پردہ رہ سرگرم کردار ادا کیاہے۔ پس پردہ سفارت کاری اور اصولی عوامی مقف کے ذریعے پاکستان نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔
پاکستان نے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا تاکہ تحمل اور بات چیت کو فروغ دیا جا سکے۔ اسلام آباد کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت نے جارحیت پر مبنی کشیدگی کے خلاف اصولی مقف کو نمایاں کیا۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی نے برادر ملک کو تنہائی کا شکار ہونے سے بچایا اور پرامن حل کی کوششوں کو تقویت دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی فعال سفارت کاری قابل تعریف رہی ۔ انہوں نے ایران کے صدر سمیت سعودی عرب و قطر کے اہم نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کی جس کے نتیجے میں پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر نمایاں دکھائی دیا۔
آرمی چیف کی صدر ٹرمپ سے طویل ملاقات کے مثبت اثرات واضح طور پر نظر آئے۔ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر محدود حملے کر کے اسرائیل کو سیزفائر کا راستہ فراہم کیا۔ ان حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے فوری طور پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے قطر اور عراق میں ایران کے میزائل حملوں کا جواب نہیں دیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ مشرق وسطی میں ’ریجیم چینج‘ کی پالیسی سے گریز کیا۔ صدر ٹرمپ کا آرمی چیف سے ملاقات کے بعد یہ کہنا کہ ’’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں‘‘ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکری قیادت نے انہیں خطے میں غیر مستحکم ریاست کے مضمرات سے بروقت خبردار کیا۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی بھی حکمت عملی پر مبنی سفارتی اقدام دکھائی دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر اس اقدام کے بعد ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے باوجود سیزفائر کا اعلان کیا۔ اگرچہ اس نامزدگی پر کئی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا، لیکن پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کی نامزدگی سفارتی دوراندیشی کی عمدہ مثال ہے۔ پاک بھارت جنگی کشیدگی میں سیزفائر کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان نے ٹرمپ کو ایک ممکنہ عالمی امن ساز کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہیں ایران اسرائیل تنازع کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرنے کی جانب مائل کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران کی جانب سے قطر میں امریکی اڈے پر میزائل حملے کے باوجود صدر ٹرمپ نے جوابی کارروائی سے گریز کیا، جو پاکستان کی سفارتی کوششوں کے اثرات کا مظہر ہے۔ پاکستان نے چین اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری اور غیر مشروط سیزفائر کی قرارداد پیش کر کے امن سے وابستگی کا واضح پیغام دیا۔ پاکستان کی اصولی سفارت کاری، اسٹریٹجک بصیرت، اور متوازن حکمت عملی نے اسے ایک قابل اعتماد، امن دوست ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو خطے میں استحکام کا پیغام دے رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان نے کی جانب سے کے طور پر ایران کی حملوں کے ایران کے نے ایران کے بعد
پڑھیں:
ایران اسرائیل کشیدگی، خام تیل 5 ماہ کی بلند ترین سطح پر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے اثرات بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر نمایاں طور پر مرتب ہونے لگے ہیں،
خام تیل کی قیمتیں پانچ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل منڈلانے اور ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کی بندش کے خدشات کے بعد عالمی سطح پر توانائی کے بحران کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، بین الاقوامی منڈی میں برینٹ خام تیل کی قیمت 2.49 ڈالر کے اضافے کے ساتھ 78.93 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی، جبکہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) کی قیمت بھی 2.56 ڈالر بڑھ کر 75.73 ڈالر فی بیرل پر ٹریڈ کر رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگی صورتحال کے باعث مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق ایران، جو اوپیک کا تیسرا سب سے بڑا خام تیل پیدا کرنے والا ملک ہے، اگر آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے تو عالمی سطح پر تیل کی ترسیل میں شدید خلل آسکتا ہے۔ یہ آبی گزرگاہ دنیا کی روزانہ تیل کی ضرورت کا تقریباً 20 فیصد فراہم کرتی ہے، جس میں سے 76 فیصد ایشیائی ممالک جیسے چین، بھارت، جاپان اور جنوبی کوریا کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان سمیت ایشیائی معیشتیں بھی براہِ راست متاثر ہو سکتی ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے گولڈمین سیکس نے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ اگر صورتحال مزید کشیدہ ہوتی ہے تو برینٹ خام تیل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل کی سطح تک پہنچ سکتی ہے، جو عالمی منڈی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے آبنائے ہرمز کی بندش پر عمل درآمد کر دیا تو دنیا بھر میں تیل کی رسد متاثر ہو سکتی ہے، جس کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، مہنگائی کی نئی لہر اور عالمی معیشت پر دباؤ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔