Daily Ausaf:
2025-11-09@17:05:52 GMT

ایران اسرائیل کشیدگی اور پاکستان کا تزویراتی تدبر

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

شرق اوسط میں جنگی کشیدگی اس تیزی سے پھیلی ہے کہ درست راستے کا تعین کرنا آسان نہیں رہا۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکی صدر نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایران کے جانب سے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد حیران کن انداز میں سامنے آیا۔ آئندہ حالات کا اندازہ لگانا بے حد دشوار ہے۔ تاہم اس بحران کے دوران پاکستان کے تعمیری اور متوازن کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران سے اظہارِ یکجہتی، اسرائیلی جارحیت کی مذمت، اور فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے سفارتی ملاقات کا مجموعی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان نے بالغ نظری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ایران اور اسرائیل جنگ کے تناظر میں پاکستان ایک ذمہ دار اور پراعتماد ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ حالیہ بحران کو حل کرنے کی حکمت عملی نے پاکستان کی سفارتی پختگی، اسٹریٹجک دانش اور سیاسی بصیرت کو مثبت انداز میں ابھارا ہے ۔ پاکستان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خطے میں باہمی تعلقات کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ایک ایسے کلیدی سفارتی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے پس پردہ رہ سرگرم کردار ادا کیاہے۔ پس پردہ سفارت کاری اور اصولی عوامی مقف کے ذریعے پاکستان نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔
پاکستان نے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا تاکہ تحمل اور بات چیت کو فروغ دیا جا سکے۔ اسلام آباد کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت نے جارحیت پر مبنی کشیدگی کے خلاف اصولی مقف کو نمایاں کیا۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی نے برادر ملک کو تنہائی کا شکار ہونے سے بچایا اور پرامن حل کی کوششوں کو تقویت دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی فعال سفارت کاری قابل تعریف رہی ۔ انہوں نے ایران کے صدر سمیت سعودی عرب و قطر کے اہم نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کی جس کے نتیجے میں پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر نمایاں دکھائی دیا۔
آرمی چیف کی صدر ٹرمپ سے طویل ملاقات کے مثبت اثرات واضح طور پر نظر آئے۔ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر محدود حملے کر کے اسرائیل کو سیزفائر کا راستہ فراہم کیا۔ ان حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے فوری طور پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے قطر اور عراق میں ایران کے میزائل حملوں کا جواب نہیں دیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ مشرق وسطی میں ’ریجیم چینج‘ کی پالیسی سے گریز کیا۔ صدر ٹرمپ کا آرمی چیف سے ملاقات کے بعد یہ کہنا کہ ’’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں‘‘ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکری قیادت نے انہیں خطے میں غیر مستحکم ریاست کے مضمرات سے بروقت خبردار کیا۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی بھی حکمت عملی پر مبنی سفارتی اقدام دکھائی دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر اس اقدام کے بعد ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے باوجود سیزفائر کا اعلان کیا۔ اگرچہ اس نامزدگی پر کئی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا، لیکن پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کی نامزدگی سفارتی دوراندیشی کی عمدہ مثال ہے۔ پاک بھارت جنگی کشیدگی میں سیزفائر کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان نے ٹرمپ کو ایک ممکنہ عالمی امن ساز کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہیں ایران اسرائیل تنازع کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرنے کی جانب مائل کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران کی جانب سے قطر میں امریکی اڈے پر میزائل حملے کے باوجود صدر ٹرمپ نے جوابی کارروائی سے گریز کیا، جو پاکستان کی سفارتی کوششوں کے اثرات کا مظہر ہے۔ پاکستان نے چین اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری اور غیر مشروط سیزفائر کی قرارداد پیش کر کے امن سے وابستگی کا واضح پیغام دیا۔ پاکستان کی اصولی سفارت کاری، اسٹریٹجک بصیرت، اور متوازن حکمت عملی نے اسے ایک قابل اعتماد، امن دوست ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو خطے میں استحکام کا پیغام دے رہی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان نے کی جانب سے کے طور پر ایران کی حملوں کے ایران کے نے ایران کے بعد

پڑھیں:

ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی

ایران کیخلاف پابندیوں کو "انتہائی سخت" قرار دیتے ہوئے انتہاء پسند امریکی صدر نے دعوی کیا ہے کہ تہران نے واشنگٹن سے "پابندیوں کے خاتمے" کا مطالبہ کیا ہے اسلام ٹائمز۔ انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران "سخت ترین" اور "شدید ترین" اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔ وسطی ایشیا کے 5 ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے دوران ٹرمپ نے دعوی کیا کہ تہران نے واشنگٹن سے "پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ" کیا ہے۔ روسی خبررساں ایجنسی اسپتنک کے مطابق، انتہاء پسند امریکی صدر نے کہا کہ ایران نے پوچھا ہے کہ کیا پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں یا نہیں؟.. البتہ مَیں اس بارے سننے کو تیار ہوں! 
  رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ ایران "انتہائی سخت" اور "شدید ترین" امریکی پابندیوں کی زد میں ہے اور ان پابندیوں نے ایران کی اقتصادی ترقی میں "شدید رکاوٹ" ڈال رکھی ہے۔ یہ دعوی کرتے ہوئے کہ پابندیوں نے ایران کے لئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا بہت ہی مشکل بنا دیا ہے، ٹرمپ نے مزید کہا کہ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے.. لیکن میں اسے قبول کر لوں گا..!

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی، ایران نے مصالحتی کردار کی پیشکش کردی
  • استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے موقف کی تائید کی، سفارتی ذرائع
  • اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، پاک افغان کشیدگی پر تعاون کی پیشکش
  • ایران نے پاک افغان کشیدگی کے خاتمے کیلئے مدد کی پیشکش کردی
  • اسحاق ڈار سے ایرانی وزیر خارجہ کا رابطہ، پاک افغان کشیدگی میں کمی کیلئے تعاون کی پیشکش  
  • ایران میکسیکو میں اسرائیل کے سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا، امریکا کا الزام
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے ایٹمی مرکز پر حملے کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ سابق سی آئی اے افسر کا انکشاف
  • اسرائیل، بھارت اور افغان طالبان کا شیطانی گٹھ جوڑ
  • ایران کیخلاف پابندیوں کے بارے ٹرمپ کا نیا دعوی