شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارتی مداخلت کے شواہد پیش کیے، وزیر دفاع خواجہ آصف کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں انہوں نے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق شواہد پیش کیے۔ ان انکشافات کے بعد بھارتی وزیر دفاع نے دوبارہ تقریر کی اجازت مانگی، مگر اسے اجازت نہیں دی گئی، جس پر سارا تنازع کھڑا ہوا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بتایا کہ اجلاس میں انہوں نے بھارتی وزیر دفاع کی تقریر کے بعد خطاب کیا، جس میں پاکستان میں بھارتی مداخلت، کلبھوشن یادیو اور جعفر ایکسپریس پر حملے جیسے واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے در اندازی کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا، وزیر دفاع خواجہ آصف کا روسی ٹی وی کو انٹرویو
انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چینی وزیر سے دوبارہ بولنے کی اجازت مانگی، تاہم ایس سی او اجلاس کی روایات کے مطابق انہیں اجازت نہیں دی گئی، کیونکہ ایسی نظیر موجود نہیں۔
خواجہ آصف کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ اعلامیے میں کشمیر اور بلوچستان کا ذکر موجود تھا، اور دیگر رکن ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او کا اعلامیہ صرف اس صورت میں جاری ہوتا ہے جب تمام رکن ممالک متفق ہوں۔ اس اجلاس میں تنظیم کے 9 رکن ممالک اعلامیے پر متفق تھے، تاہم بھارت نے اس پر دستخط سے انکار کر دیا۔
ایس سی او اجلاس سے خطابوزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او کے وزرائے دفاع اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تنظیم کے اصولوں سے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اجتماعی سلامتی، انسداد دہشت گردی میں مشترکہ کاوشوں اور علاقائی روابط کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
اپنے خطاب میں خواجہ آصف نے غزہ میں جاری انسانی بحران پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور مستقل جنگ بندی کے فوری نفاذ اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کو بھی غیر قانونی اور بلا جواز قرار دیا۔
مزید پڑھیں: شملہ معاہدہ ختم ہونے کی بات کیوں کی؟ خواجہ آصف نے بتادیا
وزیر دفاع نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی استحکام کے لیے کلیدی پلیٹ فارم ہے، جو مکالمے، باہمی اعتماد اور تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امن و استحکام کو خطے کی خوشحالی کے لیے ضروری قرار دیا۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے انہوں نے اسے مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام ریاستوں کو بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے واقعے اور بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کی منصوبہ بندی و مالی معاونت پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور متعلقہ ریاستوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امن و استحکام ایس سی او جعفر ایکسپریس جموں و کشمیر خواجہ آصف شنگھائی تعاون تنظیم وزیر دفاع.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امن و استحکام ایس سی او جعفر ایکسپریس خواجہ ا صف شنگھائی تعاون تنظیم وزیر دفاع شنگھائی تعاون تنظیم وزیر دفاع خواجہ جعفر ایکسپریس خواجہ ا صف اجلاس میں ایس سی او تنظیم کے انہوں نے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
سینیٹر طلحہ محمود سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے نئے چیئرمین منتخب
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے نئے چیئرمین کا انتخاب عمل میں آیا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر عمر فاروق نے سینیٹر محمد طلحہ محمود کو چیئرمین کمیٹی کے لیے نامزد کیا، جبکہ سینیٹر سرمد علی نے ان کی تائید کی۔ ایوان نے متفقہ طور پر سینیٹر طلحہ محمود کو چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاع منتخب کر لیا۔
چیئرمین کمیٹی منتخب ہونے کے بعد سینیٹر طلحہ محمود نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع ایوان بالا کی سب سے اہم کمیٹیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام اراکین کمیٹی کے ساتھ مل کر دفاعی معاملات میں بہتری لانے اور قومی سلامتی کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افواج نے ملک کے دفاع، سرحدوں کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ پوری قوم کے لیے باعثِ فخر ہیں۔ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران افواج پاکستان نے جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی اور اس سے پاکستان کا وقار عالمی سطح پر بلند ہوا ہے۔
سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ملکی سلامتی ہم سب کے لیے سب سے مقدم ہے اور اس معاملے پر پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ فوج کا ساتھ دینا قومی مفاد کا تقاضا ہے۔
حالیہ سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ بھی پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے جس پر فخر کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزارتِ دفاع کے ساتھ منسلک دیگر اداروں میں بھی بہتری کی گنجائش ہے اور کمیٹی ہر وقت ان اداروں میں اصلاحات اور بہتری کے لیے تیار ہے۔ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
سینیٹر طلحہ محمود نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2006ء سے بطور سینیٹر مختلف اہم قائمہ کمیٹیوں، بشمول داخلہ، کابینہ سیکرٹریٹ اور خزانہ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کمیٹی برائے دفاع کی سربراہی ان کے لیے ایک اعزاز ہے اور وہ اپنی تمام صلاحیتیں ملک و قوم کی خدمت کے لیے بروئے کار لائیں گے۔
خطے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چترال دفاعی اعتبار سے انتہائی اہم علاقہ ہے مگر افسوس ہے کہ وہاں بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود نے کہا کہ چترال کے ایئرپورٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کو فوری آپریشنل کیا جائے اور وہاں کی فلائٹس جو بند ہیں انہیں بھی فوری طور پر بحال کیا جائے تاکہ چترال کی ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ رابطہ کاری میں بہتری ائے ۔انہوں نے کہا کہ چترال جغرافیائی اور سٹریٹیجی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اور اس کا علاقہ چار مختلف جگہوں سے بارڈر سے جا کر ملتا ہے کمیٹی ترجیحی بنیادوں پر اس سلسلے میں اجلاس خصوصی طور پر بلائے گی اور متعلقہ اداروں سے اس پہ تفصیلی بریفنگ لی جائے گی۔
سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے، ان علاقوں میں ترقی، خوشحالی اور سہولیات کی فراہمی ناگزیر ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے پسماندہ علاقے بھی توجہ کے مستحق ہیں۔
اس موقع پر سینیٹر عمر فاروق نے چیئرمین کمیٹی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے اور وزارت دفاع سے اس حوالے سے جامع بریفنگ درکار ہے۔ سینیٹر سرمد علی اور سینیٹر عبدالقدوس بزنجو نے بھی سینیٹر طلحہ محمود کو چیئرمین منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور کمیٹی کے کام میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
یہ متفقہ انتخاب کمیٹی کے اراکین کے اعتماد اور اتحاد کا مظہر ہے، جس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ قومی دفاع اور سلامتی کے معاملات میں مزید بہتری آئے گی۔