مالی بحران: پاکستان ٹیم کی پرو ہاکی لیگ میں شرکت غیر یقینی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
لاہور:
پاکستان ٹیم کی پرو ہاکی لیگ میں شرکت ایک بار پھر شدید مالی بحران کے باعث غیر یقینی کا شکار ہو گئی۔
انٹرنیشنل فیڈریشن کی دعوت پر پی ایچ ایف کو 27 جون تک ابتدائی جواب جمع کرانا ہے۔ گرین شرٹس کی شرکت کا حتمی فیصلہ مطلوبہ مالی وسائل کی دستیابی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ایچ ایف کوپرو لیگ میں شرکت کے لیے 50 کروڑ روپے سے زائد رقم درکار ہے جو نہ مل سکی تو پاکستان ایونٹ سے باہر ہو جائے گا، ساتھ پی ایچ ایف کو انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی جانب سے سخت تادیبی کارروائی، جرمانے اور پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
نیشنز کپ کی فاتح نیوزی لینڈ کی طرف سے پرو ہاکی لیگ میں شرکت سے معذرت کے بعد ایف آئی ایچ نے پاکستان کو مدعو کیا ہے۔ ماضی میں ٹیم نے پرو ہاکی لیگ میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے رینکنگ 17ویں نمبر پر چلی گئی تھی، قومی ہاکی ٹیم اس وقت ایف آئی ایچ رینکنگ میں 13ویں پوزیشن پر موجود ہے۔
پرو ہاکی لیگ کا اگلا ایڈیشن آئندہ سال فروری میں متوقع ہے۔ فنڈز کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پاکستان ہاکی فیڈریشن نے حکومت سے مدد مانگ لی ہے، سیکریٹری رانا مجاہد علی خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پرو لیگ جیسے اہم اور بڑے ایونٹ میں شرکت کے اخراجات غیرمعمولی ہیں، اس مرحلے پر حکومت کی مدد ناگزیر ہے۔
پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر یاسر پیرزادہ نے کہا کہ پرو ہاکی لیگ میں شرکت کے لیے 25 لاکھ امریکی ڈالرز درکار ہیں، یہ موجودہ ملکی مالی حالات میں بھاری رقم ہے، انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پی ایچ ایف ایک باضابطہ پروپوزل تیار کرے گی جسے حکومت اور وزیراعظم کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ بروقت فنڈز کی منظوری حاصل کی جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈینگی کی وبا: سندھ ایک نئے بحران کی دہلیز پر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251111-03-6
محمد مطاہر خان
گزشتہ چند برسوں سے ڈینگی وائرس پاکستان کے مختلف صوبوں میں وقفے وقفے سے اپنے اثرات دکھاتا رہا ہے، مگر رواں سال سندھ میں اس وبا نے خطرناک حد تک شدت اختیار کر لی ہے۔ محض گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چار مزید قیمتی جانوں کے ضیاع نے نہ صرف عوام بلکہ ماہرین ِ صحت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس طرح رواں سال صوبے بھر میں ڈینگی سے اموات کی تعداد 25 تک پہنچ گئی ہے۔ اس صورتحال نے سندھ حکومت، محکمہ صحت، اور بلدیاتی اداروں کے لیے ایک سنگین امتحان کھڑا کر دیا ہے کہ آیا وہ اس بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے بھر میں مجموعی طور پر 5 ہزار 899 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 1 ہزار 192 افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ کراچی ریجن ہے جہاں 4 ہزار 371 ٹیسٹوں میں سے 641 مثبت کیسز سامنے آئے، جب کہ حیدرآباد ریجن میں بھی صورتحال تشویشناک ہے جہاں 550 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف شہری علاقوں ہی نہیں بلکہ مضافاتی اور دیہی علاقے بھی اس وبا کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے 109 اور نجی اسپتالوں میں 100 نئے مریض داخل کیے گئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طبی سہولتوں پر دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ڈینگی دراصل ایک وائرس ہے جو ایڈیز ایجپٹائی نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر عام طور پر صاف پانی میں افزائش پاتا ہے، جو گھروں کے اندر یا آس پاس موجود گملوں، ٹنکیوں، ٹائروں، یا پانی کے ذخائر میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سندھ میں بارشوں کے بعد نکاسیِ آب کے ناقص نظام، کچرے کے ڈھیروں، اور غیر منظم شہری صفائی کی وجہ سے یہ مچھر تیزی سے پھیل رہا ہے۔
کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں لاکھوں افراد روزانہ نقل و حرکت کرتے ہیں، وہاں کسی بھی متعدی وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں ڈینگی کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس بحران کی ایک بڑی وجہ عوامی سطح پر شعور و آگاہی کا فقدان بھی ہے۔ بیش تر لوگ ڈینگی کو عام بخار سمجھ کر گھریلو علاج سے کام لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مرض شدت اختیار کر لیتا ہے۔ بعض علاقوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، کھلے نالوں، اور گندے پانی کے ذخائر نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی ڈینگی سے متعلق کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ مچھر کے کاٹنے کو معمولی بات سمجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ نتیجتاً نہ صرف وہ خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے اگرچہ اسپرے مہمات، آگاہی پروگرامز، اور خصوصی مانیٹرنگ یونٹس قائم کیے گئے ہیں، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بیش تر اضلاع میں اسپرے مہم غیر منظم، وقتی، اور ناکافی ہے۔ شہریوں کی شکایات ہیں کہ کئی علاقوں میں بلدیاتی عملہ نہ تو باقاعدہ اسپرے کرتا ہے اور نہ ہی پانی کے ذخائر کی نگرانی۔ ڈینگی کے خلاف مہم میں بلدیاتی اداروں، محکمہ صحت، اور سول انتظامیہ کے درمیان رابطے کا فقدان بھی ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہر ادارہ اپنی ذمے داری مکمل طور پر نبھائے تو ڈینگی کے پھیلاؤ کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ ماہرین ِ صحت کے مطابق ڈینگی بخار بظاہر عام بخار معلوم ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً جب مریض میں ڈینگی ہیمرجک فیور یا ڈینگی شاک سینڈروم کی علامات ظاہر ہوں۔ اس مرحلے میں مریض کے جسم میں خون بہنے لگتا ہے، پلیٹ لیٹس تیزی سے کم ہو جاتے ہیں اور جسمانی کمزوری کے باعث موت واقع ہو سکتی ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ڈینگی کے ابتدائی مراحل میں بروقت تشخیص اور طبی نگرانی نہایت ضروری ہے۔ مریضوں کو خود سے کوئی دوا لینے کے بجائے فوراً کسی مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ گھروں اور دفاتر میں جمع پانی کو فوراً صاف کرنا، مچھروں کے اسپرے اور جالیوں کا استعمال، اور صبح و شام مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ اسکولوں، مساجد، اور عوامی مقامات پر آگاہی مہمات کے ذریعے لوگوں کو تعلیم دینا وقت کی ضرورت ہے۔
رواں ماہ سندھ بھر میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریباً 4 ہزار 940 تک پہنچ چکی ہے، جبکہ سال 2025ء کے دوران مجموعی کیسز کی تعداد 10 ہزار 502 ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار محض اعداد نہیں بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہیں جو واضح کرتی ہے کہ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا آئندہ ہفتوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ ڈینگی کی موجودہ لہر صرف ایک صحت عامہ کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی، ماحولیاتی اور سماجی چیلنج بھی ہے۔ سندھ میں ناقص شہری منصوبہ بندی، غیر متوازن آبادیاتی دباؤ، اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس بحران کو جنم دیا ہے۔ ماہرین ِ ماحولیات کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن نے مچھر کی افزائش کے لیے موزوں حالات پیدا کیے ہیں۔ اگر حکومت نے اس مسئلے کو صرف وقتی اسپرے مہم تک محدود رکھا تو مسئلہ برقرار رہے گا۔ مستقل بنیادوں پر صفائی کے نظام میں بہتری، نکاسی آب کے ڈھانچے کی بحالی، اور عوامی سطح پر بیداری کے پروگرام ضروری ہیں۔ سندھ میں ڈینگی کی بڑھتی ہوئی تباہ کاری اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمیں وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ یہ صرف محکمہ صحت یا حکومت کی ہی ذمے داری نہیں، بلکہ ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صاف پانی کے ذخائر کو ڈھانپنا، مچھروں کے افزائشی مقامات ختم کرنا، اور آگاہی پھیلانا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ ڈینگی کے خلاف جنگ دراصل شعور اور نظم و ضبط کی جنگ ہے۔ اگر ہم اجتماعی طور پر احتیاطی اقدامات اپنائیں تو سندھ ایک بار پھر صحت و زندگی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ خاموش قاتل آنے والے دنوں میں مزید قیمتی جانیں نگل سکتا ہے۔
(یہ کالم مصدقہ اعداد و شمار، ماہرین ِ صحت کی آراء، اور محکمہ صحت سندھ کی تازہ ترین رپورٹس کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔)