کراچی میں سڑکوں کی خستہ حالی موٹر سائیکلوں سواروں کے لیے عذاب بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
شہرِ قائد میں سڑکوں کی خراب حالت موٹر سائیکلوں سواروں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں بیشتر شاہراہوں پر چھوٹے پتھروں اور دیگر مسائل کے سبب موٹر سائیکل اور رکشوں کے ٹائرز پنکچرز ہونا روز کے معمول بن گیا ہے۔
شہر قائد کے ایک باسی نے باقاعدہ مستقل پنکچر کی دکان کھولنے کے بجائے موبائل پنکچر شاپ کھول لی۔ ہے رکشہ ٹائر شاپ کو جہاں مرضی یے لے جائو اور ہنگامی طور پر پنکچر لگانے کی سروس فراہم کرو۔
پنکچر کا کام کرنے والے محمد سلیم نے بتایا کہ شہر میں انفراسٹرکچر کی صورتحال پہلے ہی خراب تھی رہی سہی کسر بارشوں نے پوری کردی ۔بارشوں کے بعد شہر کی بیشتر سڑکیں مذید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا بیشتر سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے پڑگئے ہیں۔ بیشتر مقامات پر سیوریج کے مسائل کے سبب کئی سڑکیں تباہ حال ہیں۔
محمد سلیم نے بتایا کہ وہ لیاقت آباد ڈاکخانے کے رہائشی ہیں۔تین بچے اور اہلیہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ بڑے بچے کی عمر 16 سال ہے۔ وہ سندھی ہوٹل پر کرائے کی دکان میں پنکچر کا کام کررہا تھا۔ دکان کا کرایہ مع بجلی کا بل 25 ہزار سے زائد روپے پڑرہا تھا ۔آمدنی کم اور اخراجات زیادہ تھے۔ اس لیے کاروبار خسارہ میں جانے لگا۔ نقصان کے سبب دکان بند کردی۔ دکان بند ہونے کی وجہ سے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ کرائے کا مکان، بچوں کے تعلیمی اخراجات، کھانے پینے اور دیگر اخراجات کی وجہ سے بہت پریشان ہوگیا تھا۔ بے روزگاری سب سے بڑی پریشانی ہے۔ جب بچے بھوکے ہوں تو اب کیا کریں گے ؟ ۔ایک ماہ تک پنکچر کی دکان پر یومیہ ایک ہزار یومیہ اجرت پر 14 گھنٹے کام کیا لیکن اخراجات زیادہ تھے۔ مالی پریشانی کے سبب قرضہ کے بوجھ میں بھی دب گیا تھا۔
محمد سلیم نے بتایا کہ میری نے اہلیہ پڑھی لکھی ہے ۔اس نے ایک دن مجھے رائے دی کہ اس نے طارق روڈ پر رکشہ میں برگر کی دکان دیکھی ہے کیوں نہ آپ رکشہ میں پنکچر شاپ کھول لیں۔ بس یہ لحمہ قبولیت کا تھا اور خدا میری اہلیہ کی زبان سے کام کرنے کا اشارہ دیا۔ یہ زندگی کا ایک قیمتی وقت تھا۔
محمد سلیم نے بتایا کہ موٹر سائیکل کے بعد رکشوں میں پنکچرز زیادہ ہوتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موٹر سائیکل سوار افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی گاڑی میں ایمرجنسی ٹیوب ساتھ رکھیں جبکہ بڑی گاڑیوں والے جیک ، اوزار اور چھوٹے ویکیوم پمپ بھی ساتھ رکھیں تاکہ ہنگامی صورت میں یہ اشیاکام آسکیں ۔
دوسری جانب رائیڈر کا کام کرنے والے نوجوان بلال شفیق نے بتایا کہ سڑکوں کی خراب صورتحال کی وجہ سے اب آئے روز موٹر سائیکل کے ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے مالی مشکلات بڑھ گئیں ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سڑکوں پر استرکاری کی جائے۔
لیاقت آباد پل پر موبائل پنکچر شاپ پر اپنی موٹر سائیکل پر پنکچر لگوانے کے لیے آنے والی نجی تعلیمی ادارے کی طالبہ نجمہ شفیق نے کہا کہ موٹر سائیکل طالبات کے لیے ایک نعمت ہے۔ لیکن اگر سڑک کے درمیان میں ٹائر پنکچر ہوجائے تو ہمیں بہت مشکل ہوتی ہے۔یہ تو موبائل پنکچر شاپ قریب تھی تومجھے آسانی ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ شام کے اوقات میں جب ٹریفک جام ہوتا ہے تو خواتین بائیکرز کو ٹائر پنکچر کے دوران مشکل ہوتی ہے۔اس لیے خواتین بائیکرز کو پنکچر لگانا آنی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محمد سلیم نے بتایا کہ موٹر سائیکل پنکچر شاپ کی وجہ سے انہوں نے کی دکان کے لیے کے سبب
پڑھیں:
کراچی: موبائل چھیننے والے مجرم کو 27 سال قید کی سزا
—فائل فوٹوایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی، کراچی کی عدالت نے اسٹریٹ کرائم کیس میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 27 سال قید کی سزا سنا دی۔
عدالت نے ملزم پر مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔
دورانِ سماعت مدعیٔ مقدمہ نے عدالت کو بتایا کہ 16 اپریل 2025ء کو شارعِ فیصل سے ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا کہ 2 موٹر سائیکل سوار ملزمان موبائل فون چھین کر فرار ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے نوجوان سے موبائل فون چھین لیا گیاپراسکیویشن نے عدالت کو بتایا کہ اسی دوران پولیس موبائل نے پہنچ کر ملزمان کا پیچھا کیا، ملزمان نے پولیس کو دیکھ کر فائرنگ کر دی، پولیس کی فائرنگ سے ملزم عثمان زخمی ہو کر گرا جبکہ دوسرا ملزم فرار ہو گیا۔
پراسکیویشن کے مطابق ملزمان کےخلاف شہری کی مدعیت میں مقدمہ بہادر آباد تھانے میں درج ہے۔