دریائے سوات میں انتہائی درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری، پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ میں دریا کے اطراف احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 جون2025ء) صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)خیبر پختونخوا نے شدید بارشوں کے باعث دریائے سوات میں خوازہ خیلہ کے مقام پر پانی کی سطح 77,782 کیوسک تک پہنچنے پر دریائے سوات میں انتہائی درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنرز کو ارسال کردہ سرکاری مراسلے میں تمام متعلقہ اداروں کو انسانی جانوں، املاک، فصلوں اور مویشیوں کے تحفظ کےلیے فوری احتیاطی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیلاب سے متاثر ہونے والے ممکنہ علاقوں اور کمزور مقامات کی فوری نشاندہی کریں اور وہاں موثر حفاظتی و انسدادی اقدامات کو یقینی بنائیں۔(جاری ہے)
جاری صورتحال کی مسلسل نگرانی اور فوری ردعمل کو یقینی بنانے کے لیے ہائی الرٹ رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ریسکیو 1122، سول ڈیفنس اور تمام ہنگامی خدمات کو خصوصاً نشیبی اور حساس علاقوں میں ہائی الرٹ پر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دریائے کابل اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے آباد آبادیوں کو ممکنہ پانی کی سطح میں اضافے سے متعلق آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ضلعی حکام کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود آبادی کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور ریلیف کیمپوں میں خوراک، ادویات اور شیلٹر کی دستیابی یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کاشتکاروں اور مویشی پال حضرات کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مویشیوں کو دریاؤں کے کناروں اور نشیبی علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کریں جبکہ عوام الناس کو غیر ضروری سفر اور خطرناک علاقوں میں گاڑیوں کے استعمال سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے نے متعلقہ محکموں کو ممکنہ سڑک بندش یا پانی جمع ہونے کی صورت میں فوری کلیئرنس کے لیے مشینری اور دیگر آلات اہم مقامات پر پہلے سے پہنچانے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ پی ڈی ایم اے کا صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر چوبیس گھنٹے فعال ہے اور کسی بھی قسم کی مدد یا رہنمائی کے لیے ہیلپ لائن 1700 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی ڈی ایم اے کی گئی ہے کی ہدایت ہدایت کی
پڑھیں:
دادو میں دریائے سندھ کے کنارے ٹوٹنے سے 50 سے زائد دیہات زیرِ آب آگئے
سٹی42: ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا ہے۔ مہر، ضلع دادو کے مقام پر دریا میں شدید طغیانی کے باعث 50 سے زائد دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں۔ مقامی آبادی کے گھروں، دکانوں اور کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے لوگوں کو بھاری مالی خسارے کا سامنا ہے۔
لاہور:انار رائیونڈ مدینہ مارکیٹ میں روئی پینجا کی دکان میں آگ بھڑک اٹھی
دوسری جانب سجاول کے کچہ علاقوں میں بھی سیلابی پانی داخل ہو چکا ہے جہاں درجنوں دیہات پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ متاثرہ افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں جبکہ متاثرین نے سندھ حکومت سے فوری امداد، راشن اور ضروری سامان کی فراہمی کی اپیل کی ہے۔
کوٹری بیراج پر دریائے سندھ میں اس وقت درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور 3 لاکھ 64 ہزار کیوسک پانی دریائے سندھ ڈیلٹا کی جانب بڑھ رہا ہے، جس سے نشیبی علاقوں میں خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
’اپنی چھت، اپنا گھر‘ منصوبہ میں بڑی پیشرفت
بہاولپور کے علاقے ترندا محمد پناہ میں جنپور شمس نہر میں 10 فٹ چوڑا شگاف پڑ گیا، جس سے سینکڑوں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو بروقت اطلاع دی گئی، مگر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ نواحی علاقے مسلسل 15 روز سے زیرِ آب ہیں، اور نوروالہ، غفور آباد، حیات مچھی جیسے دیہات کو ملانے والی سڑک مکمل طور پر ڈوبی ہوئی ہے۔ مکینوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سڑک پر فلائی اوور تعمیر کیا جائے تاکہ مستقبل میں اس تباہی سے بچا جا سکے۔
شراب کیس: علی امین کے وارنٹ گرفتاری برقرار
رحیم یار خان کے علاقے لیا قت پور، علی پور، عارفوالا اور قبولہ میں بھی سیلاب نے لوگوں کو گھروں، فصلوں اور روزمرہ اشیاء سے محروم کر دیا ہے۔ علی پور کے مکینوں نے گھروں کو واپسی کے بعد تباہی دیکھ کر شدید مایوسی کا اظہار کیا اور حکومت سے فوری بحالی اور مدد کی اپیل کی ہے۔
ادھر گڈو اور سکھر بیراج پر دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، جہاں دریا اس وقت کم درجے کے سیلاب کی حالت میں ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 60 ہزار کیوسک جبکہ سکھر بیراج پر 2 لاکھ 61 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سینیٹر طلحہ محمود کو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ
متاثرہ علاقوں کے لوگوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر امدادی کارروائیاں تیز کی جائیں، راشن، پناہ گاہیں اور بحالی کے اقدامات کیے جائیں تاکہ متاثرہ خاندان دوبارہ اپنی زندگیوں کو سنوار سکیں۔