ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری عملی شکل دینی چاہیئے؛ ابراہیم مراد
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
سٹی 42 : سابق وزیر ابراہیم مراد نے کہا ہے کہ پاکستان کی پیٹرولیم درآمدات پر 15.2 ارب ڈالر کا سالانہ خرچ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھاری بوجھ ہے، جنگ بندی کے بعد ایرانی تیل پر صدر ٹرنپ کی نرمی پاکستان کے لیے معاشی پیش رفت کا موقع ہے۔
ابراہیم مراد نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران سے تیل کی خریداری روپے یا بارٹر (چاول، گندم، فارما) میں کر کے 3 سے 4 ارب ڈالر سالانہ بچت ممکن ہے، اس حکمت عملی سے ایندھن کی قیمتوں میں 7 سے 9 روپے فی لیٹر کمی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر حکمت عملی سے غیر قانونی ایندھن کی تجارت کو معاشی ترقی میں بدلا جا سکتا ہے۔
مخصوص نشستوں کی بحالی کا فیصلہ؛ کس پارٹی کو کیا ملا
انہوں نے کہا کہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری عملی شکل دینی چاہیئے، توانائی کے بارٹر معاہدے ملکی معیشت کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ تیل کی نئی حکمت عملی سے زرمبادلہ کا استحکام، سستی توانائی اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
گرین لائن منصوبے کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ کا برا حال ہو گیا: مرتضیٰ وہاب
—فائل فوٹومیئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ گرین لائن منصوبے کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ کا برا حال ہو گیا، 2017 کی این او سی پر 2025 میں وہ دوبارہ کام شروع کرتے ہیں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گرین لائن کے لیے 2017 میں این او سی جاری کی تھی، 8 سال بعد بھی کہہ رہے ہیں ہم صحیح اور میئر صاحب غلط ہیں۔
مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ گرین لائن دوبارہ شروع کرنے کے لیے 7 جولائی 2025 کو ہمیں خط لکھا گیا، 9 جولائی کو جواب دیا اور کہا کہ نیا کام شروع کرنے سے پہلے پرانے کام کو ختم کریں، ہم نے پوچھا کہ کام کے شروع اور ختم کرنے کی مدت بتائی جائے۔
چیف انجینئر کے ایم سی نے جی ایم پی آئی ڈی سی ایل کو خط لکھ کر آگاہ دیا.
انہوں نے کہا کہ ہمارے لکھے گئے خط کا آج تک جواب نہیں ملا، کیا وفاقی حکومت کے ادارے کے پاس حق ہے کہ وہ مقامی حکومت کو بائی پاس کرے، جب روڈ کا برا حال ہوتا ہے تو کیا آپ وزیراعظم سے سوال پوچھتے ہیں یا میئر سے؟ ایم اے جناح روڈ کی اسٹریٹ لائٹ اور سیوریج سب خراب ہو گیا ہے۔
میئر کراچی کا کہنا ہے کہ یہ گرین لائن ٹاور تک نہیں بنا رہے، گرین لائن جامع کلاتھ مارکیٹ تک بنا رہے ہیں، وفاقی حکومت کو شرم نہیں کہ 9 سال سے این او سی پڑی ہوئی ہے، کہتے ہیں کوئی ایس او پی نہیں کہ میئر کو پیسے دیے جائیں، مصطفیٰ کمال کے دور میں وفاقی حکومت لوکل گورنمنٹ کو پیسے دیتی تھی۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ریڈ لائن کا مسئلہ لاگت میں اضافے کا ہے، ریڈ لائن کا جس ریٹ پر ٹھیکہ ہوا تھا آج اس میں اضافہ ہو چکا ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریڈ لائن کے ٹیکنیکل ایشو کو حل کریں، ریڈ لائن پروجیکٹ کی لاگت میں اضافے کا فیصلہ نہیں کریں گے تو لاگت مزید بڑھے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کریم آباد انڈر پاس ڈیڑھ دو ماہ میں مکمل ہو جائے گا، کے ایم سی نے اپنی 106 سڑکوں پر کام شروع کر دیا ہے، دو ماہ میں مکمل کر لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹاؤن نے بغیر سوچے سمجھے ایس ایس جی کو سڑکیں کھودنے کی اجازت دے دی، ٹاؤن نے ایس ایس جی سے نہیں پوچھا کہ کام کب تک مکمل کریں گے، جو ٹھکیدار صحیح کام نہیں کرے گا اسے بلیک لسٹ کردیں گے۔