سٹی 42 : سابق وزیر ابراہیم مراد نے کہا ہے کہ پاکستان کی پیٹرولیم درآمدات پر 15.2 ارب ڈالر کا سالانہ خرچ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھاری بوجھ ہے، جنگ بندی کے بعد ایرانی تیل پر صدر ٹرنپ کی نرمی پاکستان کے لیے معاشی پیش رفت کا موقع ہے۔ 

 ابراہیم مراد نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران سے تیل کی خریداری روپے یا بارٹر (چاول، گندم، فارما) میں کر کے 3 سے 4 ارب ڈالر سالانہ بچت ممکن ہے، اس حکمت عملی سے ایندھن کی قیمتوں میں 7 سے 9 روپے فی لیٹر کمی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر حکمت عملی سے غیر قانونی ایندھن کی تجارت کو معاشی ترقی میں بدلا جا سکتا ہے۔ 

مخصوص نشستوں کی بحالی کا فیصلہ؛ کس پارٹی کو کیا ملا

انہوں نے کہا کہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری عملی شکل دینی چاہیئے، توانائی کے بارٹر معاہدے ملکی معیشت کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ تیل کی نئی حکمت عملی سے زرمبادلہ کا استحکام، سستی توانائی اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ 

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

بی بی سی بحران کی زد میں

اسلام ٹائمز: دو سینیئر ڈائریکٹرز کا استعفیٰ صرف بی بی سی کے میڈیا ڈھانچے میں ایک وسیع بحران کا نمائندہ ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک دستاویزی فلم یا خبر کی رپورٹنگ کا نہیں ہے بلکہ بی بی سی کی فیصلہ سازی، نگرانی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی بنیادوں سے منسلک ہے۔ ٹِم ڈیوی، بی بی سی نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل آف نیوز نے اپنے الوداعی نوٹ میں لکھا "BBC کامل نہیں ہے اور اسے شفاف، صاف اور جوابدہ ہونا چاہیئے۔" ایک ایسا بیان جس نے واضح طور پر ذمہ داری قبول کی اور تنظیم کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دریں اثناء، بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹیو ڈیبورا ٹیرنیس نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ وقت ہے کہ لیڈر شپ کی نئی نسل کے لیے عوامی اعتماد کی بحالی کا سفر شروع کرنا چاہیئے۔" تحریر: اردشیر زابلی زادہ

بی بی سی نیوز نیٹ ورک کے دو سینیئر ایگزیکٹوز، ٹم ڈیوی (ڈائریکٹر جنرل) اور ڈیبورا ٹیرنیس (ہیڈ آف نیوز) کا بیک وقت استعفیٰ اس برطانوی میڈیا کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو نہ صرف بی بی سی کے اندرونی بحرانوں کا عکاس ہے بلکہ سچائی، غیر جانبداری اور عوامی اعتماد کے سامنے مغربی میڈیا کے ڈھانچے میں درپیش وسیع چیلنجوں کی بھی علامت ہے۔ یہ استعفے دو بڑے بحرانوں کے بعد آئے: پہلا، پینوراما دستاویزی فلم میں ہیرا پھیری کا انکشاف، جو اکتوبر 2024ء میں امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر نشر کی گئی تھی۔ اس دستاویزی فلم میں 6 جنوری 2021ء کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے کچھ حصوں میں ترمیم کی گئی تھی، جس میں ان پر کانگریس پر حملے کو براہ راست اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس تحریف پر ٹرمپ، قدامت پسند میڈیا اور یہاں تک کہ کچھ برطانوی ریگولیٹری اداروں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی۔

دوسرا بحران بی بی سی کا غزہ کی جنگ کو کور کرنے کے طریقہ کار کے بارے تھا، جس نے بی بی سی کو اسرائیلی حکومت کی طرفداری کے الزامات کے حوالے سے بے نقاب کیا۔ اندرونی رپورٹس اور سابق ملازمین کے انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کے اندر ایک منظم سیاسی تعصب اور غیر جانبداری کا فقدان تھا۔ بی بی سی کے کچھ صحافیوں نے عوامی طور پر کہا کہ الفاظ، تصاویر اور خبروں کے انتخاب کے لئے برطانوی حکومت اور نیٹو کے سرکاری موقف سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمارے اوپر دباؤ تھا۔ اس دوران، کلاسک میڈیا تھیوریز جیسے سالینس، نیوز گیٹ کیپنگ اور ہیجمونی جیسے عوامل اس بحران کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک مناسب ٹول فراہم کرتے ہیں۔ سیلینس تھیوری یہ بتاتی ہے کہ میڈیا مخصوص عنوانات کا انتخاب کرکے  انہیں پبلک کے سامنے کیسے پیش کرتا ہے، یعنی رائے عامہ کی رہنمائی کیسے کرنی ہے۔

بی بی سی نے خاص طور پر غزہ اور اسلامی ممالک کے بیانیے کو منتخب نیز اجاگر کرکے مخاطبین کے تاثرات کو براہ راست متاثر کیا۔ نیوز گیٹ کیپنگ کا نظریہ خبروں کے مواد کو منتخب کرنے، ہٹانے یا تبدیل کرنے میں ایڈیٹرز اور مینیجرز کے کردار کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس معاملے میں گیٹ کیپنگ کے فیصلے پیشہ ورانہ غیر جانبداری کے بجائے سیاسی مفادات یا بیرونی دباؤ سے متاثر تھے۔ Gramsci کا نظریہ بالادستی یہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا عملی طور پر غالب گفتگو اور حکمران طبقے کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ بی بی سی، جس نے ہمیشہ آزادی اور غیر جانبداری کا دعویٰ کیا ہے، عملی میدان خاص طور پر سیاسی بحرانوں میں غیر جانبداری کے دامن کو چھوڑ دیتا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ دیگ کا ایک چاول چیک کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔

دو سینیئر ڈائریکٹرز کا استعفیٰ صرف بی بی سی کے میڈیا ڈھانچے میں ایک وسیع بحران کا نمائندہ ہے۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف ایک دستاویزی فلم یا خبر کی رپورٹنگ کا نہیں ہے بلکہ بی بی سی کی فیصلہ سازی، نگرانی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کی بنیادوں سے منسلک ہے۔ ٹِم ڈیوی، بی بی سی نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل آف نیوز نے اپنے الوداعی نوٹ میں لکھا "BBC کامل نہیں ہے اور اسے شفاف، صاف اور جوابدہ ہونا چاہیئے۔" ایک ایسا بیان جس نے واضح طور پر ذمہ داری قبول کی اور تنظیم کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دریں اثناء، بی بی سی نیوز کی چیف ایگزیکٹیو ڈیبورا ٹیرنیس نے ایک بیان میں کہا کہ "یہ وقت ہے کہ لیڈر شپ کی نئی نسل کے لیے عوامی اعتماد کی بحالی کا سفر شروع کرنا چاہیئے۔"

استعفے ایسے وقت آئے، جب بی بی سی کے داخلی پولز نے ظاہر کیا کہ 2025ء تک نیٹ ورک کے نیوز ڈپارٹمنٹ پر مخاطبین کا اعتماد دو دہائیوں میں اپنی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ بی بی سی کو اب اعتماد کی تعمیر نو اور اپنے نگرانی کے ڈھانچے میں اصلاحات کے سنگین امتحان کا سامنا ہے۔ گیٹ کیپنگ کے عمل کا جائزہ لینا، میڈیا کی اخلاقیات کو رواج دینا، خبروں کے ذرائع کو شفاف بنانا اور غیر جانبداری کے تصور کی نئی تعریف کرنا، ان چند اہم اقدامات میں سے ہیں، جن پر بی بی سی نیٹ ورک کو جلد از جلد سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں میڈیا پہلے سے کہیں زیادہ عوامی جانچ پڑتال اور فوری تنقید کا نشانہ بنتا ہے، بی بی سی ادارے کو یہ ثابت کرنا چاہیئے کہ اس نے نہ صرف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے، بلکہ وہ ان کو درست کرنے کا حقیقی ارادہ بھی رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، اس طرح کے حملوں کے اگلے دور میں اس میڈیا کی ساکھ کو ناقابل تلافی دھچکا لگ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بی بی سی بحران کی زد میں
  • یونیورسٹی روڈ 10 نومبر سے 30 دسمبر تک بند کرنے کا فیصلہ
  • طالبان سے دوبارہ بات ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان اپنے دوستوں کو انکار نہیں کر سکتا، خواجہ آصف
  • ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثقافتی تعاون اسلامی وحدت کی مثال بن سکتا ہے، سید رضا صالحی‌ امیری
  • ایران کیخلاف پابندیاں ناکام، دشمن حیران و سرگرداں
  • مریم نواز شریف کی ہدایت پر چیف منسٹر شکایات سیل کا فوری ایکشن، خیبر پختونخوا کے شہری کے 86 لاکھ روپے 48 گھنٹے  میں واپس مل گئے
  • کراچی یونیورسٹی روڈ کو 10 نومبر سے 30 دسمبر تک بند رکھنے کافیصلہ
  • کراچی: یونیورسٹی روڈ، 10 نومبر تا 30 دسمبر بند کرنے کا فیصلہ
  • روات کے علاقے میں فیڈ مل کے بوائلر پائپ لائن میں دھماکا، دو افراد زخمی
  • روات کے علاقے میں فیڈ مل کے بوائلر پائپ لائن میں دھماکا، دو افراد زخمی