Express News:
2025-11-12@11:51:41 GMT

افسانوں کا مجموعہ کیکٹساور لوحِ ادب

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

اردو کے ممتاز ادیب شکیل احمد خان بہترین افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ مدیرانہ صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں وہ 1998 سے کتابی سلسلہ ’’لوحِ ادب‘‘ کو بنا سنوارکر قارئین کی ذہنی آسودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے شایع کر رہے ہیں۔ سال 2025 کے اوائل میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ بعنوان ’’ کیکٹس‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ ’’خواب اور طرح کے‘‘ یہ شکیل صاحب کی تخلیقات پر مبنی پہلی کتاب ہے۔

کہتے ہیں ناں کہ نقش اول نقشِ ثانی سے زیادہ معتبر اور دل کش ہوتا ہے، اس کی وجہ تجربات و مشاہدات کی دھیمی دھیمی آنچ پر پکی ہوئی توانا تحریریں ہوتی ہیں۔ افسانے ہوں یا ناول بغیرکرداروں کو جانے اور ان کے ماحول سے آشنا ہوئے بنا ہرگز نہیں لکھے جا سکتے ہیں جب تک کہ کسی کا درد دل میں نہ اتر جائے، بھیانک اور ہوش ربا منظر نگاہوں کو حیرت کدہ حالات کے سپرد نہ کر دے اور ادیب صفحہ قرطاس پر دل پر بیتی کہانیوں کو الفاظ کے قالب میں نہ ڈھال دے، تب تک افسانہ تخلیق ہوتا ہے اور نہ دل سکون کی وادیوں میں اترتا ہے، یہ عمل مصنف کو آبشار کے ٹھنڈے اور صاف و شفاف پانی کے سپرد کردیتا ہے۔

مصنف بھی تخلیق کے کرب اور آگہی کی اذیت سے بار بارگزرتا ہے، تب کہیں یہ لُو دیتی اور تپتی ہوئی کہانیوں کا ظہور ہوتا ہے۔ شکیل احمد کے افسانے معاشرے کے کرداروں کی عکاسی بے حد نفاست اور سچائی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں وہ ان کے ظاہر و باطن کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی تخلیق کرتے ہیں، افسانے کیا لکھتے ہیں جیتے جی انسانوں کا پوسٹ مارٹم قلم کی نوک سے اس طرح کرتے ہیں کہ مریض کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہو پاتی ہے کہ کسی تخلیق کار نے باطن کی آنکھ کو نشتر بنا کر ان کے قلب و جگر کا آپریشن کر ڈالا ہے اور جوکچھ پوشیدہ تھا۔

الفاظ کی سوغات میں سامنے آگیا ہے وہ سماج کے ان کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو لہو رنگ ہیں اور جن کے ابدان سے خون کے قطرے گر رہے ہیں اور روح زخمی اور جسم چھلنی ہے اپنی روداد کسی دوسرے شخص سے بیان کرنا گویا اپنے آپ کو ذلت کے آئینے میں ڈھالنے اور چوراہے پر رکھنے کے مترادف ہے۔کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو موت و زیست کے دوراہے پرکھڑے برزخ کا نظارہ کررہے ہیں، وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انھیں دفنا کر کہانی کو انجام تک پہنچا دیا جائے اور نہ ہی ان کی حالت زار پرکوئی رحم کھانے اور زخموں کا مداوا کرنے والا ہے کہ یہ عبرتناک حالات دل کی زنبیل میں بہت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے ہیں۔

’’بلیدان، میلی عورت، کیکٹس، خمیازہ، معصومانہ خواہش اور اسی قبیل کے کئی افسانے قاری کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ غربت اور جہالت کے باعث پاتال تک پہنچ گیا ہے، اس سماج کے لوگوں کو محنت کرنے کے بجائے عزت کا سودا کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، ایک کا علاج کرانے کے لیے دوسرے بچوں خصوصاً بیٹیوں اور بیوی کی زندگیوں کو گٹر میں دھکا دے کر بیمار کو ایک نئی زندگی کی خوشی انھیں زیادہ کارگر نظر آتی ہے، اس کی وجہ تعلیم اور شعور کا فقدان ہے جس نے ان سے شرافت بھری زندگی کا فلسفہ چھین لیا ہے اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔

مصنف کے تمام ہی افسانے کمزور معاشرتی ڈھانچے کے گرد گھومتے ہیں۔ کئی افسانے ایسے بھی تخلیق کے مرحلے سے گزرے ہیں جو نیکی اور سچائی کی داستان رقم کرتے ہیں۔ انھی میں وفاداری بہ شرط استواری بھی شامل ہے، اس افسانے کا مرکزی کردار صنوبر کا ہے جو شوہرکی وفادار ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جمیل اپنے اصولوں اور محبت کی اس گہری جھیل کو جہاں چودھویں کا چاند اترتا تھا اور پریاں گیت سناتی تھیں، اس حسین وادی کو چھوڑکر جس میں وہ اپنی منکوحہ صنوبرکے ساتھ خوش و خرم زندگی بسرکر رہا تھا۔ 

یہ بھی صنوبر کے شوہر جمیل کی محبت کی انتہا تھی کہ وہ محض اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی چہیتی بیوی سے دور چلا جاتا ہے، کچھ شرائط کے ساتھ کہ اگر وہ دوسری شادی کر لے تو وہ طلاق نامہ بھیج دیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک وقت ایسا بھی آیا، جب وہ ایک حادثے کی صورت میں اپنے ہی گھر آگئے۔ جہاں بیوی کے ساتھ جوان بیٹا رافع بھی ملا، ان کے جانے کے چند دن بعد ہی ڈاکٹر نے انھیں اولاد کی خوش خبری سنا دی تھی۔

بہرحال یہ ایک اچھا افسانہ ہے کبھی تقدیر مہربان ہو جاتی ہے تو کبھی مقدر کا لکھا انسان کو ساحل سے اٹھا کر بھنور کی نذر کر دیتا ہے۔

اردو کے مشہور ناقد پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (میرٹھ انڈیا) کا بھی ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے، اگرکوئی قاری مختصر وقت میں مصنف کے افسانے پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا مضمون ملاحظہ فرمائے، ڈاکٹر صاحب نے کیکٹس پر نہ صرف یہ کہ بھرپور تبصرہ کیا ہے بلکہ تعارف اور تجزیے کے ساتھ افسانوں سے ایسے اقتباسات کو شامل مضمون کیا ہے جن کے پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مکمل طور پر افسانے پڑھ لیے ہیں اور مزید پڑھنے کی جستجو بھی بیدار ہوتی ہے۔

افسانوں کے بارے میں چند سطور۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’سبھی افسانے ہمیں غور و فکرکی دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی سماج میں انقلابی تبدیلی کے لیے اکساتے بھی ہیں، اب تخلیق کاروں کو قلم کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا، یہ سراسر ظلم ہے نیا رجحان، جدید ترقی پسندی ہمیں ظلم کے خلاف عملی طور پر بیدار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘

’’لوحِ ادب‘‘ کا تازہ شمارہ اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے،گزشتہ اور موجودہ شماروں کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مدیر اعلیٰ شکیل احمد خان نے پرچے کی تیاری اور اس کی انفرادیت میں بہت محنت کی ہے۔ فکشن اور شاعری کے ساتھ قابل ذکر مضامین بھی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم نے پروفیسر غازی علم الدین کے حوالے سے بھرپور مضمون تحریرکیا ہے۔ ان کی تحریر کے ذریعے پروفیسر علم الدین کی زندگی اور ان کی تحریروں کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح منشا یاد کی افسانہ نگاری، تخلیقی تجزیہ ڈاکٹر ریاض توحیدی (مقبوضہ کشمیر)، ڈاکٹر صاحب نے منشا یاد کے کئی افسانوں کو گہری نگاہ سے دیکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’منشا یاد کے افسانوں کا معیار کافی بلند ہے، ان کی کرافٹنگ عمدہ ہنرمندی کی عکاسی کرتی ہے جوکہ ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے، خاکہ، یاد داشتیں (نیلم احمد بشیر)

تبصرے، یہ ایسی بلند پرواز انشا پردازی ہے، جو ادب کے شایقین کے لیے دلچسپی اور معلومات کے در روشن کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

شادی کے لہنگے کی قیمت پر ڈاکٹر نبیہا کی وضاحت سامنے آگئی

کراچی:

سوشل میڈیا انفلوئنسر ڈاکٹر نبیحہ علی خان نے وضاحت دی ہے کہ شادی کے لہنگے کی قیمت کروڑوں میں نہیں تھی بلکہ خوشی کے باعث ان کی زبان پھسل گئی۔

نئی نویلی دلہن نبیحہ علی خان گزشتہ دنوں اپنی شادی میں پہنے گئے زیورات اور لہنگے کی قیمت کے دعووں کی وجہ سے خبروں اور سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں رہیں جس کے بعد انہوں نے ایک ویڈیو بیان کے ذریعے وضاحت پیش کی۔

اپنے بیان میں نبیحہ علی خان نے کہا کہ کبھی کبھار انسان خوشی میں ایسی بات کہہ دیتا ہے جو حقیقت سے بڑھا چڑھا کر لگتی ہے، میں نے بھی لاکھوں کی چیز کروڑوں کی بتا دی۔

خود سے کئی سال کم عمر دیرینہ دوست سے شادی کرنے والی نبیحہ علی خان نے کہا کہ لوگوں نے اس بات کو مذاق بنالیا، حالانکہ یہ محض ایک زبان پھسلنے کی بات تھی۔

مزید پڑھیں: ڈیڑھ کروڑ میں 35 کلو سونا کہاں ملتا ہے؟ مشی خان نے ڈاکٹر نبیہا کو آڑے ہاتھوں لے لیا

انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر میں کروڑ، پچاس کروڑ یا ڈھائی سو کروڑ کا ڈریس بھی پہنوں تو آپ لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

آخر میں نبیحہ علی خان نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹینشن لینے کے بجائے کبھی خوش بھی ہوجایا کریں۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر نبیہا نے اپنی شادی کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جو جیولری سیٹ پہنا ہے اس کا وزن  کلو اور قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے ہے جبکہ انکے لہنگے کی قیمت بھی ایک کروڑ روپے بتائی گئی تھی۔

 ڈاکٹر نبیہا علی خان کو اپنے زیورات اور عروسی لباس کی قیمت سے متعلق متنازع بیانات کے باعث سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اداکارہ و میزبان مشی خان نے ڈاکٹر نبیہا کے دعوؤں پر طنزیہ ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پینتیس کلو کا سیٹ تو امبانی کی شادی میں بھی کسی نے نہیں پہنا ہوگا، آخر کون سی دکان ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ روپے میں پینتیس کلو سونا مل رہا ہے؟۔

انہوں نے مزید کہا کہ سونے کی قیمت تو آسمان کو چھو رہی ہے، اگر واقعی ایسی کوئی دکان ہے جہاں اتنا سونا ڈیڑھ کروڑ میں ملتا ہے تو ہم سب بھی وہیں سے خریداری کرنے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد،بریسٹ کینسر آگاہی مہم کی اختتامی تقریب کا انعقاد
  • کیمیکل انجینئرنگ کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی انتقال کرگئے
  • جین ایڈیٹنگ سے ذہین بے بی تخلیق کرنے کے تجربات
  • ٹیکنالوجی کی دنیا میں نیا سنگ میل: دنیا کا سب سے چھوٹا سپر کمپیوٹر تخلیق
  • ڈاکٹر نبیہا کے شوہر حارث کھوکھر کون ہیں؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے
  • علم و ادب کا چراغ بجھ گیا، پروفیسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا انتقال کرگئیں
  • ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ انتقال کر گئیں
  • شادی کے لہنگے کی قیمت پر ڈاکٹر نبیہا کی وضاحت سامنے آگئی
  • پاکستان میں گھٹا ٹوپ اندھیرا، آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے؛ڈاکٹر اسامہ بن رضی
  • 1.5 کروڑ کا لباس ، 2 کروڑ کے زیورات؟ ڈاکٹر نبیحہ نے خود حقیقت بتا دی