Express News:
2025-06-29@02:13:28 GMT

افسانوں کا مجموعہ کیکٹساور لوحِ ادب

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

اردو کے ممتاز ادیب شکیل احمد خان بہترین افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ مدیرانہ صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں وہ 1998 سے کتابی سلسلہ ’’لوحِ ادب‘‘ کو بنا سنوارکر قارئین کی ذہنی آسودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے شایع کر رہے ہیں۔ سال 2025 کے اوائل میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ بعنوان ’’ کیکٹس‘‘ اشاعت کے مرحلے سے گزرا ہے۔ ’’خواب اور طرح کے‘‘ یہ شکیل صاحب کی تخلیقات پر مبنی پہلی کتاب ہے۔

کہتے ہیں ناں کہ نقش اول نقشِ ثانی سے زیادہ معتبر اور دل کش ہوتا ہے، اس کی وجہ تجربات و مشاہدات کی دھیمی دھیمی آنچ پر پکی ہوئی توانا تحریریں ہوتی ہیں۔ افسانے ہوں یا ناول بغیرکرداروں کو جانے اور ان کے ماحول سے آشنا ہوئے بنا ہرگز نہیں لکھے جا سکتے ہیں جب تک کہ کسی کا درد دل میں نہ اتر جائے، بھیانک اور ہوش ربا منظر نگاہوں کو حیرت کدہ حالات کے سپرد نہ کر دے اور ادیب صفحہ قرطاس پر دل پر بیتی کہانیوں کو الفاظ کے قالب میں نہ ڈھال دے، تب تک افسانہ تخلیق ہوتا ہے اور نہ دل سکون کی وادیوں میں اترتا ہے، یہ عمل مصنف کو آبشار کے ٹھنڈے اور صاف و شفاف پانی کے سپرد کردیتا ہے۔

مصنف بھی تخلیق کے کرب اور آگہی کی اذیت سے بار بارگزرتا ہے، تب کہیں یہ لُو دیتی اور تپتی ہوئی کہانیوں کا ظہور ہوتا ہے۔ شکیل احمد کے افسانے معاشرے کے کرداروں کی عکاسی بے حد نفاست اور سچائی کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں وہ ان کے ظاہر و باطن کو مدنظر رکھتے ہوئے کہانی تخلیق کرتے ہیں، افسانے کیا لکھتے ہیں جیتے جی انسانوں کا پوسٹ مارٹم قلم کی نوک سے اس طرح کرتے ہیں کہ مریض کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہو پاتی ہے کہ کسی تخلیق کار نے باطن کی آنکھ کو نشتر بنا کر ان کے قلب و جگر کا آپریشن کر ڈالا ہے اور جوکچھ پوشیدہ تھا۔

الفاظ کی سوغات میں سامنے آگیا ہے وہ سماج کے ان کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو لہو رنگ ہیں اور جن کے ابدان سے خون کے قطرے گر رہے ہیں اور روح زخمی اور جسم چھلنی ہے اپنی روداد کسی دوسرے شخص سے بیان کرنا گویا اپنے آپ کو ذلت کے آئینے میں ڈھالنے اور چوراہے پر رکھنے کے مترادف ہے۔کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو موت و زیست کے دوراہے پرکھڑے برزخ کا نظارہ کررہے ہیں، وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ انھیں دفنا کر کہانی کو انجام تک پہنچا دیا جائے اور نہ ہی ان کی حالت زار پرکوئی رحم کھانے اور زخموں کا مداوا کرنے والا ہے کہ یہ عبرتناک حالات دل کی زنبیل میں بہت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے ہیں۔

’’بلیدان، میلی عورت، کیکٹس، خمیازہ، معصومانہ خواہش اور اسی قبیل کے کئی افسانے قاری کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ غربت اور جہالت کے باعث پاتال تک پہنچ گیا ہے، اس سماج کے لوگوں کو محنت کرنے کے بجائے عزت کا سودا کرنا زیادہ مناسب لگتا ہے، ایک کا علاج کرانے کے لیے دوسرے بچوں خصوصاً بیٹیوں اور بیوی کی زندگیوں کو گٹر میں دھکا دے کر بیمار کو ایک نئی زندگی کی خوشی انھیں زیادہ کارگر نظر آتی ہے، اس کی وجہ تعلیم اور شعور کا فقدان ہے جس نے ان سے شرافت بھری زندگی کا فلسفہ چھین لیا ہے اور انسانیت کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔

مصنف کے تمام ہی افسانے کمزور معاشرتی ڈھانچے کے گرد گھومتے ہیں۔ کئی افسانے ایسے بھی تخلیق کے مرحلے سے گزرے ہیں جو نیکی اور سچائی کی داستان رقم کرتے ہیں۔ انھی میں وفاداری بہ شرط استواری بھی شامل ہے، اس افسانے کا مرکزی کردار صنوبر کا ہے جو شوہرکی وفادار ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جمیل اپنے اصولوں اور محبت کی اس گہری جھیل کو جہاں چودھویں کا چاند اترتا تھا اور پریاں گیت سناتی تھیں، اس حسین وادی کو چھوڑکر جس میں وہ اپنی منکوحہ صنوبرکے ساتھ خوش و خرم زندگی بسرکر رہا تھا۔ 

یہ بھی صنوبر کے شوہر جمیل کی محبت کی انتہا تھی کہ وہ محض اولاد نہ ہونے کی وجہ سے اپنی چہیتی بیوی سے دور چلا جاتا ہے، کچھ شرائط کے ساتھ کہ اگر وہ دوسری شادی کر لے تو وہ طلاق نامہ بھیج دیں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ایک وقت ایسا بھی آیا، جب وہ ایک حادثے کی صورت میں اپنے ہی گھر آگئے۔ جہاں بیوی کے ساتھ جوان بیٹا رافع بھی ملا، ان کے جانے کے چند دن بعد ہی ڈاکٹر نے انھیں اولاد کی خوش خبری سنا دی تھی۔

بہرحال یہ ایک اچھا افسانہ ہے کبھی تقدیر مہربان ہو جاتی ہے تو کبھی مقدر کا لکھا انسان کو ساحل سے اٹھا کر بھنور کی نذر کر دیتا ہے۔

اردو کے مشہور ناقد پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری (میرٹھ انڈیا) کا بھی ایک بھرپور مضمون کتاب میں شامل ہے، اگرکوئی قاری مختصر وقت میں مصنف کے افسانے پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے پروفیسر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا مضمون ملاحظہ فرمائے، ڈاکٹر صاحب نے کیکٹس پر نہ صرف یہ کہ بھرپور تبصرہ کیا ہے بلکہ تعارف اور تجزیے کے ساتھ افسانوں سے ایسے اقتباسات کو شامل مضمون کیا ہے جن کے پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مکمل طور پر افسانے پڑھ لیے ہیں اور مزید پڑھنے کی جستجو بھی بیدار ہوتی ہے۔

افسانوں کے بارے میں چند سطور۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ’’سبھی افسانے ہمیں غور و فکرکی دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی سماج میں انقلابی تبدیلی کے لیے اکساتے بھی ہیں، اب تخلیق کاروں کو قلم کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا، یہ سراسر ظلم ہے نیا رجحان، جدید ترقی پسندی ہمیں ظلم کے خلاف عملی طور پر بیدار ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘

’’لوحِ ادب‘‘ کا تازہ شمارہ اشاعت کے مرحلے سے گزر چکا ہے،گزشتہ اور موجودہ شماروں کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مدیر اعلیٰ شکیل احمد خان نے پرچے کی تیاری اور اس کی انفرادیت میں بہت محنت کی ہے۔ فکشن اور شاعری کے ساتھ قابل ذکر مضامین بھی معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم نے پروفیسر غازی علم الدین کے حوالے سے بھرپور مضمون تحریرکیا ہے۔ ان کی تحریر کے ذریعے پروفیسر علم الدین کی زندگی اور ان کی تحریروں کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح منشا یاد کی افسانہ نگاری، تخلیقی تجزیہ ڈاکٹر ریاض توحیدی (مقبوضہ کشمیر)، ڈاکٹر صاحب نے منشا یاد کے کئی افسانوں کو گہری نگاہ سے دیکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’منشا یاد کے افسانوں کا معیار کافی بلند ہے، ان کی کرافٹنگ عمدہ ہنرمندی کی عکاسی کرتی ہے جوکہ ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے، خاکہ، یاد داشتیں (نیلم احمد بشیر)

تبصرے، یہ ایسی بلند پرواز انشا پردازی ہے، جو ادب کے شایقین کے لیے دلچسپی اور معلومات کے در روشن کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے ہیں کے ساتھ ہوتا ہے ہیں کہ

پڑھیں:

مذہبی یگانگت کے ذریعے دشمن کی سازش ناکام بنادیں گے، علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر

علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر کا کہنا ہے کہ عالم اسلام کی یگانگت کو بروئے کار لا کر دشمن کی ہر سازش ناکام بنادی جائے گی۔

اسلامی نظریاتی کونسل اجلاس کے موقعے پر بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق وی نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج پریس کانفرنس میں تمام مکاتیب فکر کے علما شریک ہوئے اور عالم کفر کے مقابلے کے لیے عملی طور پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہود و ہنود جو ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ان سے مقابلے کے لیے عالم اسلام کی یگانگت کو بروئے کار لا کر دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔

علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ کل سے محرم الحرام کا آغاز ہو رہا ہے جس میں امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یاد میں صف عزا بچھائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کانفرنسز منعقد کی جائیں گی۔ کربلا انسانیت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ در حسین پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آنے والا مسلمان ہے ہندو ہے، سکھ یا عیسائی ہے، یہ پوری انسانیت کے لیے کھلا ہے۔

علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ آج کا یہ اجتماع چونکہ مسالک کے حوالے سے تھا اور تمام مسالک اپنے اپنے طور پر یاد حسین مناتے ہیں، لہٰذا تمام امت کو پیغام دیا گیا کہ وطن عزیز کی سالمیت اور عالم اسلام کی وحدت کے لیے ہم سب ایک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کے اس اجتماع میں تمام مکاتب فکر کے علما اکٹھے تھے اور عوام کے لیے پیغام تھا کہ اگر تمام مسالک کے علما اکٹھے ہیں تو ہمیں بھی وحدت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

در حسین صف عزا عالم اسلام علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکب غم حسین کربلا

متعلقہ مضامین

  •   اپوزیشن لیڈر نے صوبے میں تبدیلی کا عندیہ دےدیا
  • پاکستان‘ منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی
  • فرقہ واریت اور نفرت حسینیت کے پیغام کی نفی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری
  • کشمیری سیاسی رہنماؤں کا جیل میں بند جماعت اسلامی کے رہنما کے طبی علاج کا مطالبہ
  • پاکستان: منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی
  • جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر سری نگر جیل میں بیمار
  • مذہبی یگانگت کے ذریعے دشمن کی سازش ناکام بنادیں گے، علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر
  • پاکستان اور انڈونیشیا میں صحت کے شعبے میں اشتراک، ویکسین کی مقامی پیداوار پر پیش رفت متوقع
  • اللہ تعالیٰ نے ایران کے ذریعے اسرائیل سے غزہ کا انتقام لیا ہے، ڈاکٹر اصغر مسعودی