کیا ٹرمپ تنازع کشمیر حل کرا پائیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
ابھی تک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا مگر اب اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل امریکی مدد کے بغیرکچھ بھی نہیں کر سکتا۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے ایران کے خلاف کھلم کھلا جارحیت کی اور کئی دنوں تک اس پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوتا رہا مگر جب ایران نے اسے نشانہ بنانا شروع کیا تو اسے اپنی حقیقت کا پتا چلا کہ وہ ایران کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔
ایران نے اپنے طاقتور میزائلوں سے اسرائیل میں ایسی خوفناک تباہی مچائی کہ اس کے ہوش اڑ گئے اور اسرائیلی عوام نیتن یاہو کو کوسنے لگے۔ امریکا اس غلط فہمی میں تھا کہ اس نے اپنے بی 2 بمبار سے حملہ کر کے جوہری اثاثوں کو تباہ کر دیا ہے مگر ایران نے کمال ہوشیاری سے پہلے ہی اپنی افزودہ یورینیم دوسرے مقام پر منتقل کر دی تھی اس طرح ایران کے جوہری مواد کو تو نقصان نہیں پہنچا، ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی ہزیمت اور اپنے وقار کو تار تار دیکھ کر اب صدر ٹرمپ نے ایران سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ جنگ تو بند ہوگئی ہے مگر کیا اسرائیل کا دماغ بھی درست ہوا؟
حالیہ جنگ میں ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی قوم بڑے سے بڑے حملہ آور سے نہیں ڈرتی اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ اسی دوران نیتن یاہو نے انھیں ایران کی جنگ میں اپنا شریک بنا لیا۔ اسرائیل شاید ایران کے خلاف اتنا آگے نہ بڑھتا۔ اگر ٹرمپ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے سے نیتن یاہو سے زیادہ پریشان نہ ہوتے حالانکہ انھیں ایران کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
وہ پرامن مذاکرات کے ذریعے بھی یہ معاملہ حل کر سکتے تھے۔ پھر ایران بار بار یہی کہتا رہا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ افسوس کہ ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کو دھونس اور دھمکیوں کی نذر کر دیا۔ ایران پھر بھی مذاکرات کرنے سے نہیں کترایا اور اپنا وفد عمان بھیجا مگر اس کے دوران بھی اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور پھر ٹرمپ نے بھی بعد میں ایرانی جوہری اثاثوں پر حملہ کر دیا اور اعلان کر دیا کہ انھوں نے ایران کے جوہری مراکز کو تباہ کر دیا ہے۔
مگر شاید ایسا نہیں ہوا تھا جب ہی تو دوسرے دن اسرائیل کو ان ہی مراکز پر بمباری کرنا پڑی۔ امریکا ایران کو کئی برسوں سے مسلسل تنگ کر رہا ہے اس نے ایران پر مختلف اقسام کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اب ایسے ماحول میں ایران کیسے اپنا گزارا کر رہا ہوگا اور اپنے عوام کی ضروریات پوری کر رہا ہوگا بہرحال ایران ان تمام پابندیوں کے باوجود بھی اپنے تیل کی بدولت ایک پروقار ملک کے طور پر قائم و دائم ہے۔
ایران پاکستان کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ ایران سے گیس اور بجلی خریدنے کی کوشش کی مگر امریکی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔ کئی سال قبل پاکستان نے ایران سے گیس خریدنے کے لیے ایک اہم معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھا دی تھی پاکستان نے بھی یہ کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ امریکا نے یہ کام آگے نہ بڑھنے دیا اور جب سے اب تک یہ کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔
حالانکہ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی ملک سے گیس یا تیل حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہے مگر امریکی پابندیوں سے تمام ہی ممالک خوفزدہ ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو گیس کی جگہ درآمد شدہ تیل پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جس کے بھاری اخراجات کی وجہ سے ایک طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب معیشت مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا سہارا لینا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ایسے مشکل وقت میں گزشتہ دنوں پاکستان کو بھارت کی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بھارت نے پہلگام میں بغیر کسی ثبوت کے وہاں دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر حملہ کر دیا۔ اس حملے سے مشرقی سرحدی علاقوں میں کئی افراد شہید ہوئے۔ پھر پاکستان نے ناچار اس بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے فضائی حملے کیے جن کی تاب نہ لا کر بھارت نے ٹرمپ کی مدد سے جنگ بندی کرا لی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کو رکوا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
بھارت پہلے کشمیر کے معاملے میں کسی ملک کی ثالثی کا قائل نہیں تھا مگر ٹرمپ کی پیشکش پر مودی انکار نہ کر سکا۔ گوکہ ثالثی کے معاملے پر بھارت میں مودی پر سخت تنقید کی جا رہی ہے تاہم اس سے اتنا ضرور ہوا کہ مسئلہ کشمیر جسے مودی یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے اسے سرد خانے میں ڈال دیا ہے اس کا خیال غلط ثابت ہوا اور اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ اس کے حل کے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان نے میں ایران کر دیا ہے ایران نے کے جوہری ایران کے نے ایران ایران سے حملہ کر کے لیے
پڑھیں:
امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور یورپ کے تعلقات بھی عجیب ہیں۔ امریکا اگر مریخ پر ہے تو یورپ زہرہ پر۔ بحر اوقیانوس انہیں جدا تو کرتا ہے مگر ان کے اختلافات اور بحثیں اس میں غرق نہیں ہوتیں۔ دونوں کا بندھن پرانی شادی کی طرح ہے، جھگڑے بہت مگر جدائی نا ممکن۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اس پر امریکا اگر یورپ پر احسان جتاتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم نے تمہیں دوبارہ جینا سکھایا‘‘ تو فوری جواب ملتا ہے ’’تم نے ہمیں چیک دیے ہم نے تمہیں تہذیب‘‘۔ یورپ کی سلامتی ناٹو اتحاد کی وجہ سے امریکا کی فوجی قوت کے سائے تلے ہے مگر اس کے باوجود شکایتیں ہیں کہ ہردم جاری وساری۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں سب کچھ منع ہے جب تک اجازت نہ ہو جب کہ امریکا میں سب کچھ جائز ہے جب تک منع نہ ہو۔ جس وقت یورپی دوپہر کو شراب پی رہے ہوتے ہیں امریکا جمہوریت پر لیکچر دے رہا ہوتا ہے۔ یورپ خواب دیکھتا ہے امریکا وہ خواب بیچتا ہے۔ یورپ اور امریکا کا رشتہ اس پرانے مگر مہنگے اور خاندانی صوفے کی طرح ہے جو غیرآرام دہ ہے مگر اسے چھوڑا یا بدلا نہیں جاسکتا۔
یورپ اور امریکا کے تعلقات نیم گرم چائے کی ایسی پیالی کی مانند تھے جس سے تعلقات اور جذبات کی بھاپ اٹھتی رہتی تھی، دونوں چائے کا کپ تھامے رہتے تھے مگر ان تعلقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری مرتبہ آمد ایسی تھی جیسے کوئی زور سے گھونسا مار کر چائے کی میز ہی پلٹ دے۔ برسوں سے امریکا اور یورپ مہذب اختلافات کے باوجود مضبوط بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ناٹو کے اجلاسوں میں باہم تنقید تو ہوتی تھی مگر مسکراتے ہوئے مگر صدر ٹرمپ نے ان اجلاسوں کو کاروباری بہی کھاتوں میں بدل دیا۔ کون کتنا کھاتا ہے اور کتنا خرچ کررہا ہے اور بدلے میں کیا دے رہا ہے۔ پہلی بار یورپ کو احساس ہوا کہ ان کا کسی دوست سے نہیں تاجر سے واسطہ ہے۔
یو کرین کے معاملے میں یورپ اور صدر ٹرمپ کے تعلق ایسے تھے جیسے کوئی زخمی ہو اور دوست اس کا مذاق اُڑا رہا ہو۔ پیوٹن سے صدر ٹرمپ کے نرم اور دوستانہ رویہ نے یورپ کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا یورپ کی سلامتی امریکا کی ذمے داری نہیں۔ روس کے سائبر حملوں پر جب یورپی ممالک میں بے چینی پھیلی تو ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل بہت دھیما اور تاخیر سے تھا۔ صدر ٹرمپ پیوٹن کی تعریف کرتے رہتے تھے ’’پیوٹن ایک مضبوط رہنما ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں‘‘۔ جرمنی اور فرانس کو یقین ہو گیا کہ امریکا اب ان کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اس موقع پر تاریخی جملہ کہا تھا ’’ناٹو دماغی موت کے دور سے گزر رہا ہے‘‘۔
بات کچھ تفصیلی ہوگئی۔ کہنا یہ تھا کہ صدر ٹرمپ اور یورپ کے اختلافات کی شدت دیکھیے لیکن جیسے ہی اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اختلافات کی خلیج چند گھنٹوں میں ہی پاٹ دی گئی اور یورپی دارالحکومت صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی تحسین اور ایران کی مذمت سے گونجنے لگے۔ فرانس اور جرمنی جو امریکا کے خلاف جانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اسی فرانس کے صدر نے کہا ’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام خطرناک حدتک آگے بڑھ چکا ہے‘‘۔ اور جرمنی کے فریڈرک میرٹز نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ’’یہ وہ گندا کام ہے جو ایران ہم سب کے لیے کررہا ہے۔ ہدف وہی رہنا چاہیے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے‘‘۔ یورپی قیادت نے ایرانی میزائلی اور جو ہری خطرے کو یورپی براعظم تک پھیلنے والا آتش فشاں قرار دے کر صدر ٹرمپ کی یوں پشت پناہی کی جیسے کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں تھا۔ رنجشیں دیکھتے ہی دیکھتے بلند آہنگ اتحادی ترانوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اب آئیے عالم اسلام کی طرف۔ باتیں ہی باتیں مگر عمل کا میدان صحرائوں کی طرح سنسان اور خالی۔ اسرائیل اور امریکا کے خلاف ادنیٰ درجے میں بھی کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کہ انہیں چیونٹی کاٹنے برابر بھی کوئی تشویش اور تکلیف ہوسکے بلکہ ان میں سے بعض ایران پر حملوں میں اسرائیل کے معاون اور مددگار تھے۔ 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی F35 نے عراق کے اوپر سے اڑان بھرکر ریہرسل اسٹرائک کیں۔ عراق محض اقوام متحدہ میں احتجاج کرنے تک محدود رہا۔ اسرائیل امریکا اور ایران جنگ کے دوران اسرائیلی ڈرونز اور میزائلز امریکی کنٹرولڈ عراقی فضائی حدود سے فائر ہوکر ایران میں موجود ان اہداف کو نشانہ بناتے رہے جو تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ اردن کی حکومت نے اگرچہ تردید کی ہے لیکن میڈیا پر یہ رپورٹ ہوتا رہا کہ اسرائیلی جہاز اردن کے اوپر سے گزر کر ایران پر حملہ آور ہوئے۔ شام کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے جارہے ہیں۔
ایران پر حملے کے بعد ایک F16 اسرائیلی لڑاکا طیارے کو شامی دیرالزور علاقے میں بوئنگ 707 ٹینکر سے ہوا میں دوبارہ تیل بھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فضائی حدود تکنیکی طور پر اسرائیلی طیاروں کے استعمال میں آئی ہیں۔ قطر، کویت اور امارات میں امریکی بیسز موجود ہیں جہاں سے امریکی اجازت سے اسرائیلی طیاروں نے ری فیو لنگ کی۔ سعودی عرب، عمان اور بحرین نے اگرچہ سرکاری طور پر اپنی فضائی حدود کھولنے سے انکار کیا لیکن ابتدا میں کچھ ایسی خبریں آئیں جن سے یہ اشارے ملے کہ سعودی فضائوں کے کچھ حصے بھی استعمال ہوئے۔ اسلامی ممالک نے کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل اور امریکا کی جنگی مدد تو کی لیکن کسی بھی درجے میں ایران کی جنگی مدد نہیں کی۔ اسلامی ممالک نے نہ اسرائیل کا راستہ روکنے کی ہمت کی اور نہ ایران کی مدد کرنے کی۔
جنگ کے دوران پورا یورپ اسرائیل کی ہر طرح کی جنگی اور فوجی اور مالی مدد کر رہا تھا ہر طرح کی خفیہ معلومات اسے مہیا کر رہا تھا حتیٰ کہ مغرب کے تشکیل کردہ نام نہاد عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جو ایران کے جوہری مراکز نطنز، فردو، اراک اور اصفہان کی مسلسل انسپکشن کررہی تھی اس نے سنٹری فیوجز کی تعداد، ریسرچ ریکٹرز کے محل وقوع اور یورینیم کی افزودگی کے بارے میں خفیہ رپورٹس اور تکنیکی معلومات مکمل طور پر اسرائیل اور امریکا کو فراہم کیں جو حملوں کے اہداف کی تیاری میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی کوئی موثر قرار داد اسرائیل کے خلاف منظور نہ کی۔ ایف اے ٹی ایف نے ایران کا مسلسل گھیرائو کیے رکھا تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوسکے۔ بین الاقوامی اداروں کا کردار یہ رہا کہ وہ ایران میں موجود ایک سوئی کو بھی مانیٹر کررہے تھے اور اسرائیل کو گائیڈ کررہے تھے۔
کسی بھی اسلامی ملک نے ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیار دیے، نہ فضائی معاونت، نہ خفیہ معلومات اور نہ ہی کوئی فوجی حمایت۔ او آئی سی حسب معمول صرف بیٹھنے بٹھانے، باتیں کرنے اور اختتامیہ جاری کرنے تک مشغول رہی۔ پاکستان نے ایران کے حق میں کچھ فعالیت دکھائی۔ کہا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایران کے حوالے سے ان کی ذہن سازی اور رہنمائی کی جو بہت موثر رہی اس خاموش کارروائی کے علاوہ اگر اس میں کچھ حقیقت ہے، کسی اسلامی ملک کا ایران کے حق میں دوران جنگ کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ممالک ایران کو اپنے لیے علاقائی خطر ہ سمجھتے ہیں اور اسرائیل کو غیراعلانیہ اتحادی۔ اس دوران امت مسلمہ ایک ایسا جسم تھی جس میں صرف ایران کو درد ہورہا تھا اور کوئی اس درد کی دوا کرنے پر تیار نہیں تھا۔