Express News:
2025-11-12@04:57:55 GMT

کیا ٹرمپ تنازع کشمیر حل کرا پائیں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

ابھی تک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا مگر اب اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل امریکی مدد کے بغیرکچھ بھی نہیں کر سکتا۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے ایران کے خلاف کھلم کھلا جارحیت کی اور کئی دنوں تک اس پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوتا رہا مگر جب ایران نے اسے نشانہ بنانا شروع کیا تو اسے اپنی حقیقت کا پتا چلا کہ وہ ایران کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔

ایران نے اپنے طاقتور میزائلوں سے اسرائیل میں ایسی خوفناک تباہی مچائی کہ اس کے ہوش اڑ گئے اور اسرائیلی عوام نیتن یاہو کو کوسنے لگے۔ امریکا اس غلط فہمی میں تھا کہ اس نے اپنے بی 2 بمبار سے حملہ کر کے جوہری اثاثوں کو تباہ کر دیا ہے مگر ایران نے کمال ہوشیاری سے پہلے ہی اپنی افزودہ یورینیم دوسرے مقام پر منتقل کر دی تھی اس طرح ایران کے جوہری مواد کو تو نقصان نہیں پہنچا، ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی ہزیمت اور اپنے وقار کو تار تار دیکھ کر اب صدر ٹرمپ نے ایران سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ جنگ تو بند ہوگئی ہے مگر کیا اسرائیل کا دماغ بھی درست ہوا؟

حالیہ جنگ میں ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی قوم بڑے سے بڑے حملہ آور سے نہیں ڈرتی اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ اسی دوران نیتن یاہو نے انھیں ایران کی جنگ میں اپنا شریک بنا لیا۔ اسرائیل شاید ایران کے خلاف اتنا آگے نہ بڑھتا۔ اگر ٹرمپ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے سے نیتن یاہو سے زیادہ پریشان نہ ہوتے حالانکہ انھیں ایران کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

وہ پرامن مذاکرات کے ذریعے بھی یہ معاملہ حل کر سکتے تھے۔ پھر ایران بار بار یہی کہتا رہا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ افسوس کہ ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کو دھونس اور دھمکیوں کی نذر کر دیا۔ ایران پھر بھی مذاکرات کرنے سے نہیں کترایا اور اپنا وفد عمان بھیجا مگر اس کے دوران بھی اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور پھر ٹرمپ نے بھی بعد میں ایرانی جوہری اثاثوں پر حملہ کر دیا اور اعلان کر دیا کہ انھوں نے ایران کے جوہری مراکز کو تباہ کر دیا ہے۔

مگر شاید ایسا نہیں ہوا تھا جب ہی تو دوسرے دن اسرائیل کو ان ہی مراکز پر بمباری کرنا پڑی۔ امریکا ایران کو کئی برسوں سے مسلسل تنگ کر رہا ہے اس نے ایران پر مختلف اقسام کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اب ایسے ماحول میں ایران کیسے اپنا گزارا کر رہا ہوگا اور اپنے عوام کی ضروریات پوری کر رہا ہوگا بہرحال ایران ان تمام پابندیوں کے باوجود بھی اپنے تیل کی بدولت ایک پروقار ملک کے طور پر قائم و دائم ہے۔

ایران پاکستان کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ ایران سے گیس اور بجلی خریدنے کی کوشش کی مگر امریکی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔ کئی سال قبل پاکستان نے ایران سے گیس خریدنے کے لیے ایک اہم معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھا دی تھی پاکستان نے بھی یہ کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ امریکا نے یہ کام آگے نہ بڑھنے دیا اور جب سے اب تک یہ کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔

حالانکہ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی ملک سے گیس یا تیل حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہے مگر امریکی پابندیوں سے تمام ہی ممالک خوفزدہ ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو گیس کی جگہ درآمد شدہ تیل پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جس کے بھاری اخراجات کی وجہ سے ایک طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب معیشت مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا سہارا لینا ناگزیر ہوگیا ہے۔

ایسے مشکل وقت میں گزشتہ دنوں پاکستان کو بھارت کی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بھارت نے پہلگام میں بغیر کسی ثبوت کے وہاں دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر حملہ کر دیا۔ اس حملے سے مشرقی سرحدی علاقوں میں کئی افراد شہید ہوئے۔ پھر پاکستان نے ناچار اس بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے فضائی حملے کیے جن کی تاب نہ لا کر بھارت نے ٹرمپ کی مدد سے جنگ بندی کرا لی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کو رکوا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

بھارت پہلے کشمیر کے معاملے میں کسی ملک کی ثالثی کا قائل نہیں تھا مگر ٹرمپ کی پیشکش پر مودی انکار نہ کر سکا۔ گوکہ ثالثی کے معاملے پر بھارت میں مودی پر سخت تنقید کی جا رہی ہے تاہم اس سے اتنا ضرور ہوا کہ مسئلہ کشمیر جسے مودی یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے اسے سرد خانے میں ڈال دیا ہے اس کا خیال غلط ثابت ہوا اور اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ اس کے حل کے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان نے میں ایران کر دیا ہے ایران نے کے جوہری ایران کے نے ایران ایران سے حملہ کر کے لیے

پڑھیں:

پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایرانی میزائل

اسلام ٹائمز: قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کے مطابق آج یہ بات واضح ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام پر اعتراض کوئی حقیقی سیکیورٹی تشویش نہیں بلکہ ایران کی دفاعی طاقت کو محدود کرنے کا سیاسی حربہ ہے۔ مغرب کو اس سے کیا تعلق کہ ایران کے میزائلوں کی رینج کتنی ہے؟ ایران کے میزائل پروگرام، خصوصاً "شہاب" سیریز نے نہ صرف ایران کی دفاعی خودکفالت کو ثابت کیا ہے بلکہ خطے میں اس کی تزویراتی (strategic) حیثیت کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:

ایران کے میزائل ماہرین نے ملکی وسائل اور تکنیکی ڈھانچے کو بروئے کار لا کر میزائل سازی کے اُس مرحلے میں قدم رکھا جس کے نتیجے میں ایران کا پہلا مقامی میزائل خاندان "شہاب" وجود میں آیا۔ ترجمان سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی فضائی و خلائی فورس کے مطابق جب ہم شہید حاجی‌زاده اور شہید طہرانی مقدم کی یادداشتیں پڑھتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ اُس وقت ہمارے پاس ایک بھی میزائل نہیں تھا، مگر آج ہمارے ہتھیاروں اور دفاعی نظاموں کی اقسام تیس سے زیادہ ہو چکی ہیں، اور ملک کے ہاتھ مضبوط ہیں۔ 

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ایرانی مسلح افواج نے بارہ روزہ دفاعی جنگ کے دوران ایک خلاقانہ آپریشن "وعدہ صادق 3" کے ذریعے متعدد میزائل حملوں کی مسلسل لہریں جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کی سرزمین کے اندر گہرے اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنایا۔ ایران نے میزائل ڈیزائن، رہنمائی (گائیڈنس) اور چال بازی (مینُووربیلٹی) کے میدان میں نمایاں پیش رفت حاصل کر کے اپنے دفاعی نظام کو خطے اور اس سے باہر کے خطرات کے مقابلے میں بہت زیادہ مؤثر بنا لیا ہے۔ یہی پیش رفت ایران کے دفاعی و سیکیورٹی مقام کو خطے میں مزید مستحکم کر رہی ہے۔

شہاب، ایران کی میزائل طاقت کی ابتدا:
ایرانی ماہرین، بالخصوص شہید حسن طہرانی مقدم نے وہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جس کے تحت ایران نے اپنا پہلا میزائل سلسلہ "شہاب" ڈیزائن اور تیار کیا۔ اس رپورٹ میں ان میزائلوں کے بارے میں اہم نکات اور ان کی خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں۔

شہاب-1: ایران کی میزائل طاقت کی پہلی کڑی:
مختصر فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل "شہاب-1" سن 1990میں روسی اسکڈ-بی (Scud-B) کے نمونے پر تیار کیا گیا۔ اس کا فاصلہ 300 کلومیٹر، لمبائی 11 میٹر سے زائد، قطر ایک میٹر سے کم، وزن تقریباً 6 ہزار کلوگرام، اور وارہیڈ کا وزن 985 کلوگرام ہے۔ یہ میزائل مائع ایندھن سے چلنے والا، ایک مرحلے پر مشتمل اور عمودی انداز میں سڑک سے قابلِ نقل و حرکت لانچنگ پلیٹ فارم سے فائر کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس میزائل کی تیاری نے ابتدا ہی سے دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا، کیونکہ اس کے ذریعے ایران اپنی سرحدوں کے قریب دشمن کے اڈوں کو براہِ راست نشانہ بنا سکتا ہے۔

شہاب-2: خطے میں دشمن کے مراکز نشانے پر:
شہاب-2 کو 1990–1994 کے درمیان تیار کیا گیا اور یہ ایران کے درمیانے فاصلے کے میزائلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ روسی اسکڈ-سی (Scud-C) کے ڈیزائن پر مبنی ہے۔ اس کا فاصلہ 500 کلومیٹر، لمبائی 12 میٹر سے زیادہ، اور وزن 6 ہزار کلوگرام سے اوپر ہے۔ یہ بھی مائع ایندھن پر چلنے والا ایک مرحلے کا عمودی طور پر لانچ ہونیوالا میزائل ہے۔ اس کا وارہیڈ 750 کلوگرام وزنی ہے، جو اہم اور حساس اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

شہاب-3: دشمن کے اسٹریٹجک اہداف کی تباہی کا ہتھیار
درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا میزائل "شہاب-3" 1998 میں پیش کیا گیا۔ اس کی ابتدائی رینج 1150 تا 1350 کلومیٹر، لمبائی 15 میٹر، مجموعی وزن 15 ٹن، اور وارہیڈ 670 کلوگرام ہے۔ جدید تر ماڈل اب 2000 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں اور مختلف اقسام کے وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تازہ ترین نمونوں میں "قابل انتشار ہتھیار" نصب ہیں، جو ایک وقت میں درجنوں چھوٹے بم گرا کر وسیع رقبے پر پھیلے دشمن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ "شہاب-3" اب نشانے کی اتنی دقیق صلاحیت (Precision) رکھتا ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر موجود اہم اور حساس مراکز کو مؤثر طور پر تباہ کر سکتا ہے۔

شہاب کے بعد: ایران کا میزائل نیٹ ورک:
ایران کی طاقت میزائلوں کے صرف "شہاب" خاندان تک محدود نہیں۔ ایران کے پاس اب خرمشہر، ذوالفقار، قدر، عماد، قیام، خیبرشکن، حاج قاسم، سجیل، کروز پاوہ، قدیر، فاتح 110، فاتح 313 جیسے متعدد جدید میزائل موجود ہیں، جو مختلف فاصلے، رفتار اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لحاظ سے ایران کی دفاعی صلاحیت میں غیر معمولی تنوع پیدا کرتے ہیں۔

مغرب کو ایران کے میزائلوں سے کیا سروکار؟:
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کے مطابق آج یہ بات واضح ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام پر اعتراض کوئی حقیقی سیکیورٹی تشویش نہیں بلکہ ایران کی دفاعی طاقت کو محدود کرنے کا سیاسی حربہ ہے۔ مغرب کو اس سے کیا تعلق کہ ایران کے میزائلوں کی رینج کتنی ہے؟ ایران کے میزائل پروگرام، خصوصاً "شہاب" سیریز نے نہ صرف ایران کی دفاعی خودکفالت کو ثابت کیا ہے بلکہ خطے میں اس کی تزویراتی (strategic) حیثیت کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
  • ٹرمپ پر دستاویزی فلم کا تنازع، بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل مستعفی
  • ہم نے ایران کے میزائل اور جوہری خطرے کا خاتمہ کر دیا ہے، نیتن یاہو کا دعوی
  • قاتل کا اعتراف
  • پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایرانی میزائل
  • پہلی بار اسرائیل کو نشانہ بنانے والا ایران میزائل
  • ٹرمپ کی ڈاکو مینٹری میں ایڈیٹنگ تنازع، بی بی سی کے ڈی جی اور سی اِی او نے استعفیٰ دیدیا
  • ٹرمپ کی ڈاکیومنٹری میں ایڈیٹنگ کا تنازع، بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل اور سی ای او مستعفی
  • ٹرمپ کی ڈاکومنٹری میں ایڈیٹنگ کا تنازع: بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل اور سی ای او مستعفی
  • مجوزہ ترامیم کے بعد اگر عمران خان الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آ بھی جائیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے،نجم سیٹھی